نومبر کی آمد

نومبر کی آمد

کچھ اشارے تو کافی حد تک واضح ہوچکے ہیں۔


آڈیو ریکارڈنگ غالباً کسی مقامی انٹیلی جنس ایجنسی سے کی تھیں جس کا ہدف اہم سیاسی افرا د تھے۔ قیاس ہے کہ اس نے پیگاسس جیسا کوئی سافٹ ویئر استعمال کیا ہوگا جو ان کے سمارٹ فونز میں سرائیت کرکے ان کی گفتگو کو ایک الیکٹرانک بگ کی طرح ریکارڈ کرسکتا تھا۔


کسی مرحلے پر اس مواد کا کچھ حصہ کسی انٹل انسائیڈر یا کسی ہیکر نے چرالیا جس کی ہمدردی یا وابستگی عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ تھی۔ عمران خان نے اس منتخب شدہ مواد کو اپنے ”دشمنوں“  اور ”مخالفوں“ کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اپنے ”چور مخالف“ اور ”امریکہ مخالف“ بیانیے کو تواناکرنا چاہا تاکہ سیاسی طاقت کی لگام دوبارہ اُن کے ہاتھ میں آجائے۔


اس وقت نیوٹرل امپائر نے بھی مداخلت کی تاکہ ”گفتگو“ میں توازن آجائے۔ عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری، اعظم خان کی ایک آڈیو سامنے آگئی جس میں وہ تبادلہ خیال کررہے تھے کہ مراسلے پر کیسے ”کھیلنا“ اور کس طرح اس کا تجزیہ کرنا ہے۔


ظاہر ہے کہ ہم نے ابھی اس مواد کا بہت کم حصہ سنا ہے جو طرفین کے توشہ خانے میں موجود ہے۔ لیکن ایک بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ عمران خان ایجنسی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یہ آڈیو غالباً اتنی تباہ کن مواد کی حامل نہیں جتنی مبینہ طور پر ایجنسی کے پاس موجود ہیں۔ لیکن اب جب کہ عمران خان لاڈلے نہیں رہے، ہمیں توقع ہے کہ راز فاش ہونے کی جنگ میں تنزی آئے گی۔ یا پھر مشترکہ تباہی کا خوف اس میں تعطل بھی لاسکتا ہے۔


یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر قومی سلامتی کمیٹی کے ذریعے جے آئی ٹی کو کام سونپا گیا (آڈیو کے ماخذ اور اس طریقہ کار کی نشاندہی کرنے کے لیے جس کے ذریعے بات چیت ریکارڈ کی گئی تھی) تواس کے اس کی وضاحت جلد سامنے نہیں آئے گی۔ درحقیقت عمران خان کی طرف سے آڈیوز سامنے لاتے ہوئے اپنے وفادارں کو جوش دلانے کا سلسلہ اچانک بند ہوجائے کیوں کہ ڈارک ویب کا جاسوس اچانک اتا پتا بتائے غائب ہوگیا ہے تو ہم فرض کرسکتے ہیں کہ ایجنسی نے کامیابی سے عمران خان کو ایک اور سرخ لکیر عبور کرنے سے روک دیا ہے۔


لیکن عمران خان ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوس ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ شریف اور زرداری جلدی کہیں نہیں جارہے۔ ترمیم شدہ نیب قانون کے نفاذ کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف نیب کیسز واپس لے لیے گئے ہیں یا ختم کر دیے گئے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سینیٹر کی حیثیت سے حلف اٹھانے اور دوبارہ وزارت خزانہ چلانے کے لیے جلاوطنی ختم کرکے واپس آئے ہیں۔ ایون فیلڈ کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے مریم نواز شریف اور ان کے شوہر کو سنائی گئی سزا کو لاہور ہائی کورٹ نے 4 سال تک سرد خانے میں پڑے رہنے کے بعد کالعدم قرار دے دیا۔ مریم کو اپنے والد کے ساتھ لندن جانے کے لیے اپنا پاسپورٹ واپس مل گیا ہے۔ اور پی ڈی ایم پنجاب پر دوبارہ قبضہ کرنے اور اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے تیار ہے۔


عمران خان کے پاس دو آپشن ہیں۔ وہ یا تو لانگ مارچ کریں اور حکومت کا محاصرہ کرکے اسے اقتدار سے نکال باہر کریں۔ اگر وہ اس جارحانہ راستے کا انتخاب کرتے ہیں تو رانا ثناء اللہ کی 50 ہزار پولیس اور رینجرز کی مضبوط فورس ان کے سامنے کھڑی ہوگی۔ حالات گھمبیر ہو جائیں گے۔ اس افراتفری اور تشدد سے صرف تیسری قوت ہی فائدہ اٹھا سکتی ہے جس سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو نقصان ہوگا۔ یا پھر وہ طاقت کے آئینی کھیل میں واپس آنے کی شرائط پر دوبارہ گفت و شنید کرنے کے لیے اپنی دھمکی کا استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ بیان کہ وہ اگلے انتخابات کے شیڈول پر بات چیت کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں واپس جانے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ حکومت ”اقتدار تبدیل کرانے والے مراسلے“ کی تحقیقات کرائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واپسی کا کوئی بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔


انتیس نومبر 2022  ء کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے پھیلنے والی افواہیں صورت حال کے الجھاؤ کو مزید گہرا کررہی ہیں۔ کیا وہ مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں؟کیا وہ توسیع حاصل کرلیں گے؟ آئی ایس پی آر نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ لیکن جنرل باوجوہ کا مصروف شیڈول، امریکہ کے ساتھ فوجی رسد پر مذاکرات، پاکستان کی مالی اعانت کے لیے قطریوں اور سعودیوں کو قائل کرنا، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے کہنا کہ وہ آئی ایم ایف سے نرمی کا کہیں ہر حوالے ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہر روز اخبارات کے صفحہ اوّل پر آنے والے صاحب ابھی کہیں نہیں جارہے۔


یہ ایشوشریفوں اور زرداریوں کی اقتدار میں رہنے کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ وہ اگلے برس ہونے والے انتخابات کے لیے مساوی میدان چاہتے ہیں۔تاثر ہے کہ موجودہ قیادت نے ان کے ساتھ اس کا وعدہ کیا تھا۔لیکن اسی لیے تو عمران خان اُنھیں چلتا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر کرسکیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ رواں برس جلدی سے انتخابات ہوجائیں۔


یہ ابہام اس حقیقت کے پیش نظر مزید گہرا ہوگیا ہے کہ عمران خان آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی (مسٹر ایکس اور مسٹر وائی) کو سرعام تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کیوں کہ وہ ان دونوں پر’نیوٹرل“ رہنے کا الزام لگاتے ہیں۔ عمران خان کا مطالبہ تھا کہ وہ ”چوروں“ کے خلاف کھل کر ان کی حمایت کریں۔ڈارک ویب کے جاسوس نے اپنا اگلا ہدف نمبر 13 بتایا ہے۔ یہ ڈی جی آئی ایس آئی ہیں کیوں کہ اس وقت وہ چوٹی کی قیادت سے تیرویں نمبر پر ہیں۔


اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں خبروں کے متلاشی میڈیا کا دستر خوان بھر جائے گا۔ اگر ہم کھل کر بات کرتے ہوئے پیش گوئی کرگزریں تو کہنے کی اجازت دیجیے کہ عمران خان سرد و گرم بیان بازی جاری رکھیں گے لیکن وہ حکومت نہیں گرا سکیں گے۔درحقیقت اس بات کا بھی امکان اپنی جگہ پر موجود ہے کہ پس پردہ کوئی سمجھوتا بھی ہوسکتا ہے جس کی رو سے وزیر اعظم شہباز شریف چیف آف آرمی سٹاف کو نامزد کردیں، یا جنرل باجوہ کو ہی توسیع دے دیں، جیسا کہ آئین کا تقاضا ہے،لیکن ایسا اس وقت ہوگا جب تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس آجائے اور جب آئین کے مطابق اگلے برس کے اختتام پر تازہ عام انتخابات ہوں گے۔