اب یا کبھی نہیں

اب یا کبھی نہیں

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مشترکہ حزب اختلاف کی جانب سے وزیراعظم عمران خان، اسپیکر اسد قیصر اورڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے چند روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے فیصلے کا اعلان کردیاہے۔  پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چھیاسی اراکین قومی اسمبلی نے نوٹس پر دستخط کیے ہیں حالانکہ قانون کے مطابق اس مقصد کے لیے صرف ارسٹھ اراکین کے دستخط ہی کافی ہوتے ہیں ۔ آئینی طریقہ کار کے مطابق اسپیکر نوٹس موصول ہونے کے تین دن بعد اور سات دنوں کے اندر پارلیمنٹ کا اجلاس بلاتا ہے ۔ وزیر اعظم کے خلاف رائے شماری اوپن بیلٹ کے ذریعے جب کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتی ہے۔


اس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن پہلے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف قرارداد پیش کر سکتی ہے کیونکہ خفیہ رائے شماری تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے فلور کراس کرنے والوں کو اس وقت تک پوشیدہ رہنے میں سہولت فراہم کر سکتی ہے جب تک کہ کامیابی انہیں دوسرے راؤنڈ میں وزیر اعظم کے خلاف کھل کر کھڑے ہونے کا حوصلہ نہیں دیتی ۔ لیکن اگر حکومت اپنے حامیوں کو اسمبلی میں جانے سے باز رہنے کا حکم دیتی ہے تو یہ طریقہ کارگر ثابت نہیں ہو گا۔


قیاس کیا جا رہا ہے کہ حزب اختلاف پنجاب اسمبلی میں کسی بھی دن ایسی تحریک پیش کرسکتی ہے۔


دریں اثنا، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی قیادت میں لانگ مارچ حکمران جماعت پر عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ یہ لانگ مارچ پنجاب میں داخل ہوچکا ہے، اور اسے پنجاب پولیس کی جانب سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔


پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے نعرہ مستانہ لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ حزب اختلاف اور حکمران جماعت، دونوں کے اہم قائدین کی طرف سے ہفتوں کی سرگرم سیاست کے بعد یہ صورت حال سامنے آئی ہے ۔ حزب اختلاف کا ہدف حکومت کے بیس یا اس سے زیادہ اتحادیوں کو ملانا تھا۔ حکومت کی صفوں سے بھی اتنے ہی اراکین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔  اور ظاہر ہے کہ حکومت اس پر شدید مزاحمت کررہی تھی۔ ایک طرف دو بھٹو زرداری، دو شریف، تین سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی اور محترم مولانا کھڑے ہیں ۔ دوسری طرف پررعونت عمران خان ذاتی طور پر اتحادیوں، خاص طور پر گجرات کے چوہدریوں پرساتھ کھڑے رہنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔ اس دوران وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کا سہارا لینے اور اپنا بچاؤ کرنے کی آخری کوشش میں مصروف ہیں۔


اب تک تجزیہ کار اس صورت حال کی نفی کرتے چلے آئے ہیں ۔ دلیل دی جاتی رہی کہ اسٹبلشمنٹ کی طرف سے منتخب کی گئی موجودہ حکومت کو کیسے معزول کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ ''ایک ہی صفحہ'' پر ہوں؟ عمران خان کے جگہ واحد آپشن نواز شریف تھے،اور نواز شریف کو ہٹانے کے لیے ابھی چند سال پہلے اسٹبلشمنٹ نے زمین و آسمان ہلا کر رکھ دیے تھے۔ لیکن عقابی نگاہیں رکھنے والوں کو اس ایک صفحے کی لکیریں گڈمڈ ہوتی اور الجھتی دکھائی دینے لگی تھیں۔ عمران خان اوراسٹبلشمنٹ کے درمیان قومی سلامتی کی پالیسیوں، خارجہ امور، اقتصادی نظام اور یک طرفہ ''احتساب'' کے حوالے سے شدید اختلافات نمودار ہوچکے تھے۔ ان کے وجہ سے اسٹبلشمنٹ کو شرمندگی کا سامنا تھا کیوں کہ ان تمام معاملات پر اسے عمران خان کے ساتھ شریک کیا جارہا تھا۔ اس طرح یہ پیشین گوئی کرنے میں کوئی عار نہیں تھا کہ مسٹر خان کا انجام قریب ہے، گو اس میں تھوڑی سی تاخیر ہوسکتی ہے۔ لیکن جب پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم اور اسٹبلشمنٹ  ''ایک ہی صفحے'' پر پہنچ جائیں گے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد کیا ہوگا؟  اگلی حکومت کی نوعیت اور دائرہ کار، قومی اسمبلی اور صوبوں کے اگلے انتخابات کا وقت اور طاقت کی تقسیم کے مختلف سمجھوتوں کی نوعیت کیا ہوگی؟تو تاخیر ختم ہوجائے گی۔


عمران خان ممکنہ طور پر حزب اختلاف کو ناکام بنانے کے لیے اپنے تمام ریاستی اور حکومتی وسائل جھونک دیں گے۔ اس میں حزب اختلاف کی شخصیات کی گرفتاریاں، اتحادیوں کو سیاسی رشوت اور آزاد میڈیا کو ہراساں کرنا بھی شامل ہے۔ یہ بھی خارج ازامکان نہیں کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے رہنماؤں پر چڑھ دوڑیں اور اپنے ساتھ اس نظام کو بھی منہدم کرنے پر تل جائیں۔


لیکن حز ب اختلاف کو عمران خان کی کمزوری صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ولادیمیر پوتن کے ساتھ ان کا مصافحہ، جس کے بعد ایک آزاد ملک کے خلاف روسی جارحیت پر تنقید کرنے سے انکارکا مقصد اسٹبلشمنٹ کے مشورے کے باوجودملک میں امریکہ مخالف نوجوان حامیوں کی جذباتی حمایت حاصل کرنا تھا۔ موجودہ معاشی ''ریلیف'' پیکیج کا مقصد انتخابی سال میں عوام کو بے وقوف بنانا ہے حالانکہ یہ آئی ایم ایف پروگرام کو پٹری سے اتار کر پاکستان کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت کے نتیجے میں ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کو ختم کر کے بڑے پیمانے پر آبادی کو ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عمران خان اس کے لیے تیار نہیں۔اس انکار کی ایک ہی منطق سمجھ میں آتی ہے کہ اس کا مقصد اسٹبلشمنٹ اور اپوزیشن پر حملہ کرنا ہے۔ جب وہ خود حکومت سے باہر ہوں گے اور اگلی حکومت ”دشمن ملک“ کے ساتھ تجارت کرنے اور امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے گی تو وہ ملک میں جذباتی فضا قائم کردیں گے۔


اگرچہ ہم معقول طور پر اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ حزب اختلاف نے اس طرح کا سٹریٹجک اعلان کرنے سے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے اور عمران خان جلد ہی گھر کی راہ لیں گے، لیکن پاکستانی ''جاسوس بمقابلہ جاسوس'' سیاست کی الجھی ہوئی دنیا میں کسی بھی چیز کی 100 فیصد ضمانت نہیں دی جاتی۔ عدم اعتماد کا ووٹ خان کوعہدے سے نہ ہٹا سکا تو پھر اپوزیشن کیا کرے گی؟


کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اس دلیل کی بنیاد پر اسٹبلشمنٹ پر دباؤ ڈالے گی کہ اس کی غیر جانبداری حقیقت میں عمران خان کے حق میں حمایت کا وزن ہی تصورہوتی ہے۔ اگر ایک اور ”دھوکہ“ ہوتا ہے تو ہمیں نواز شریف سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ دوبارہ  توپوں کے دہانے وا کردیں گے اور نام لے کر تنقید کریں گے۔ عوامی ہمدردی نواز شریف کے ساتھ ہوگی، اور اسٹبلشمنٹ خود کوایک گرداب میں پائے گی، جیسا کہ اس نے پہلے ایسے موقع پر ہوا تھا۔اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کی جانب سے بہتر معاشی اور سیاسی انتظام کے امکانات کے باعث ریلیف کی کوئی امید نہیں۔


حساب چکانے کی تاریخ ''Ides of March'' آ چکی۔ اپوزیشن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اسے کچھ حاصل ہی ہوگا ۔ شرط لگائیں ۔ معاملہ ابھی یا کبھی نہیں پر پہنچ چکا۔