!ڈیل ہے یا نہیں ہے

!ڈیل ہے یا نہیں ہے

امریکہ کے ایک موقر تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس کی رپورٹ، ”جمہوریت کا محاصرہ“بتاتی ہے کہ گزشتہ پندرہ سالوں سے عالمی سطح پر جمہوریت ہر سال زوال پذیرہے۔سب سے نمایاں زوال دنیا کی دو ”عظیم ترین“ جمہوریتو ں، امریکہ اور ہندوستان میں دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 73 ممالک میں جمہوریت گراوٹ کا شکار ہے۔موجودہ پاکستان کو ''جزوی طور پر آزاد'' ممالک میں شمارکیا گیا ہے۔ امریکہ میں گھمبیر ہوتی ٹکراؤ کی فضا پر تبصرے تشویش ناک خانہ جنگی کا پتہ دیتے ہیں۔یہ پیش گوئی اگلے امریکی انتخابات، جو 2024-25   میں ہونے جارہے ہیں، کے بارے میں ہے۔خدشہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں رپبلکن پارٹی کی نئی قیادت انتخابی فراڈ اور ووٹوں میں دھاندلی کا شور مچا کر ملک کو ہنگاموں کی نذرکرسکتی ہے۔


جمہوری نظام اور اقدار میں ہونے والے عالمی زوال کی ایک وجہ سوشل میڈیا کے غیر معمولی عروج کو قرار دیا گیا ہے جس نے ایسے افرادکو اظہار کی طاقت دی ہے جو روایتی اقدار یا انفرادی شناخت کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ اس نے عوامی تعصبات کے لیے ایک مسلسل پھیلتا ہوا پلیٹ فارم فراہم کردیا ہے۔ اس کے ذریعے ہونے والے منظم پروپیگنڈے، غلط معلومات، جعلی خبرں وغیرہ نے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کی بالادستی کو ختم کردیا ہے۔ اور مرکزی دھارے کا یہی میڈیا جدید، لبرل، آئینی اقدار کی حمایت کرتا ہے۔


پاکستان میں بھی ہم  2018 میں اسٹبلشمنٹ اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کی مشترکہ سرپرستی میں ایک ہائبرڈ نظام کا تجربہ کرتے ہوئے جمہوریت کی پٹری سے پھسل گئے۔ جمہوریت سے گریز کی عکاسی حزب اختلاف کو نشانہ بنائے جانے، اور نیب، ایف آئی اے، پولیس اور عدلیہ جیسے ریاستی اداروں کے ذریعے میڈیا پر کریک ڈاؤن اور جابرانہ یا غیر جمہوری نئے قوانین کی موسلا دھاربرسات سے ہوتی ہے۔


لیکن اب، تین سال بعدیہ ہائبرڈ حکومت اپنی غلطیوں اور تضادات کے بوجھ تلے دب رہی ہے۔ اس کے اہم سرپرستوں کے ذاتی عزائم کا بوجھ بھی کچھ کم نہیں۔ یہ سوشل میڈیا ہے جو کہ اصل میں ہائبرڈ حکومت کی جانب سے منظم پروپیگنڈے کا ذریعہ تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی سوشل میڈیا نے اس ہائبرڈ حکومت اور اسے لانے والوں کی سازشوں، دھوکہ دہی، مکروفریب، دیوالیہ پن، یو ٹرن، جھوٹ اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے لیے عوامی پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنی ساکھ کھوتی ہوئی اسٹبلشمنٹ اس پریشان کن صورت حال سے نکلنے کے لیے قدرے کم غیر قانونی اور غیر مقبول راستے تلاش کررہی ہے۔ ان میں تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کرنے کا آپشن بھی شامل ہے۔


اس ممکنہ 'جمہوری' بحالی کے دو واضح مظاہر ہیں۔ پہلا پاکستان کو آزادی کے بعد سے بدترین معاشی بحران میں دھکیلنے والی تحریک انصاف کی حکومت سے ہر کوئی نفرت کررہا ہے۔اس بحران نے آبادی کے کمزور اور نادارطبقوں کی ایک بڑی اکثریت پرغیر معمولی حد تک ناقابل قبول مشکلات مسلط کی ہیں۔ دوسری معزول وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے سخت مزاحمت ہے۔ اُنھوں نے عوام دشمن ہائبرڈ حکومت کے سول ملٹری لیڈروں کو بے نقاب کرنے اور ان پر حملہ کرنے میں فقید المثال جرات دکھائی۔ اس پر بہت سے پاکستانیوں کی ولولہ انگیز حمایت اُنھیں حاصل ہوئی ہے۔ حزب اختلاف کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اہم حصے،پاکستان مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں اضافہ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ، لوکل باڈی اور قومی/صوبائی ضمنی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے۔


نتیجے کے طور پر اس سول ملٹری ڈیل کا پول کھلنا شروع ہوگیا ہے جو  2014 میں عمران خان کے پانچ ماہ طویل دھرنے کے آغاز کے ساتھ طے پا ئی تھی اورجس کی وجہ سے عدلیہ نے نواز شریف کو معزول کیا اور 2018 میں دھاندلی زدہ انتخابات جس کا نقطہ عروج تھے۔ اس کی پہلی علامت سول ملٹری کے ایک صفحے کا دھڑن تختہ ہے جو گزشتہ نومبر میں آئی ایس آئی کے ایک سربراہ کے تبادلے اور دوسرے کی تقرری کے معاملے پر دکھائی دیا۔ اس نے دونوں کے درمیان اعتماد اور بھروسے کے آئینے میں بال ڈال دیا۔ دوسرا ریاست کے بنیادی اداروں میں ہائبرڈ حکومت کی بلیک میلنگ اور من مانی کے خلاف خاموشی سے تقویت پاتی ہوئی مزاحمت ہے۔ جج حضرات اسٹبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہو کر بولنے لگے ہیں (قاضی فائز عیسیٰ، ارشد بٹ، شوکت عزیز صدیقی، رانا شمیم وغیرہ) یہاں تک کہ اپنے کمزور یا سمجھوتہ کرنے والے ساتھیوں کے متعصبانہ فیصلوں سے اختلاف سامنے آرہا ہے۔ اسی طرح بدنام سابق چیف جسٹس ثاقب نثار جیسے ججوں کو آئینہ دکھایا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بالآخر اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وزرا کے دھونس اور دھمکیاں سے مرغوب نہ ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اس میں اگلے عام انتخابات میں ممکنہ انتخابی دھاندلی کے لیے استعمال کی جانے والی ای وی ایم متعارف کرانے کی مخالفت بھی شامل ہے۔


مزاحمت کے حتمی قدم کے طور پر اب الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے وزیر اعظم کو غیر ملکی ذرائع سے غیر مجاز فنڈز وصول کرنے اور کروڑوں کے غبن کے سلسلے میں قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر نااہلی کے لیے درخواست دینے کے لیے تیار ہے۔ اور لیجیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیشن عدالت کے ایک ایڈیشنل جج کو کالعدم قرار دے دیا جس نے ہتک عزت کے مقدمے میں خواجہ آصف کے وکیل کو جرح کی اجازت دیے بغیر عمران خان کی ویڈیو گواہی کو غیر منصفانہ طور پر بند کر دیا۔ وزیر اعظم کو خود کو جرح کے لیے پیش کرنے کا حکم دیا۔


میڈیا نے بھی ہوا کی سمت میں تبدیلی محسوس کرلی ہے۔ مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے عمران خان کے حامی اینکروں اور صحافیوں کو یک یکا اپنے عمررسیدہ ہیروکے بارے میں حقائق کا انکشاف ہونے لگا ہے۔ اب اُنھوں نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے ان پر تنقید شروع کردی ہے۔ اسی طرح اسٹبلشمنٹ یا حکومت کی ہدایت پر مرکزی دھارے کے میڈیا سے نکال باہر کیے گئے صحافی اب کھل کر بات کررہے ہیں۔ اپنے دشمنوں کی طرف انگشت نمائی کررہے ہیں۔ بلکہ نام لے کر تنقید کررہے ہیں۔ عمران خان کے حامی اور سابق سیاسی وفاداران کی بدعنوانی کی کہانیاں بے نقاب کررہے ہیں۔


ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ میڈیا اسٹبلشمنٹ اور نواز شریف کے مابین کسی ”ڈیل“ کے بارے میں قیاس آرائیوں سے گریز کرے کیوں کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا۔ نیز فوج سیاست میں ملوث نہیں ہے۔ یہ خبر خوش آئند ہے۔ لیکن ماضی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے ہم عمران خان کے ساتھ کی گئی شیطانی ڈیل پر کھیلے گئے سیاسی کھیل کی علامات تلاش کرنے،اور ان کا کھوج لگانے کا جواز رکھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنے آئینی حقوق کی بحالی چاہتے ہیں۔ اس میں اپنے سیاسی راہ نماچننے کا حق بھی شامل ہے۔ جتنی جلدی اس ہائبرڈ نظام کو قائم رکھنے والے منصوعی سہارے پیچھے ہٹ جائیں، اتنا ہی بہتر ہوگاتاکہ پاکستانی عوام اپنے قانونی حق کو استعمال کرسکیں۔