ء2022 کی پیش گوئی

ء2022 کی پیش گوئی

2021ء میں خوشی کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ داخلی سیاست تلخی، عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار رہی ۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے اپوزیشن کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کو بے لگام کیے رکھا۔ لیکن کسی ایک ملزم کو بھی سزا دلانے میں ناکام رہی۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف اپنا بلکہ احتساب کرنے والے ادارے کا دامن داغ دار کیا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان اپنی چمک دمک کھو بیٹھے۔ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کا بیانیہ بھی اپنا طنطنہ ماند پڑ گیا۔ وہ بیانیہ جو انھیں اقتدار میں لایا تھا اور جس نے اُنھیں گزشتہ تین برس سے سہارا دیے رکھا ۔ دریں اثنا حزب اختلاف نے صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پتے اسٹبلشمنٹ کے سامنے میز پر رکھے۔ایسے آپشنز اجاگر کیے جن پر پیش رفت ممکن ہوسکتی ہے۔


تحریک انصاف حکومت کی بدانتظامی اور بدعنوانی نے معیشت کو بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غیر معمولی بے روزگاری نے محنت کش اور نچلے متوسط طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔ نتیجتاً حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو شکست ہوئی۔ یہ ملک بھر میں کنٹونمنٹ بورڈز اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں بھی ہار گئی۔ خارجہ پالیسی کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں۔ چین کے ساتھ تعلقات منجمد ہیں۔ امریکا غصے میں ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات سر د مہری کا شکار ہیں۔ بھارت دشمنی پر تلا ہوا ہے۔ افغانستان ہماری بات نہیں سن رہا۔ اندرونی سکیورٹی نازک حالات سے دوچار ہے کیوں کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سرحد پار سے ہماری فورسز پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ نئی عسکریت پسند مذہبی قوت (تحریک لبیک پاکستان) ریاست کی عملداری اور ہمارے یورپ کے ساتھ تعلقات کے لیے ایک سنگین چیلنج بن کر ابھری ہے۔ چین اور عالمی ادارہ صحت جیسے ہمدرد عطیہ دہندگان کی طرف سے طیارے بھر بھر کر مفت ویکسین کی آمد کا شکریہ کہ حکومت کے لیے واحد کامیابی کوویڈ 19 کو کنٹرول کرناہے۔


2022ء کو دیکھتے ہوئے چیلنجز واضح ہیں۔ غیر جانب دار چیئرمین کے تحت ایک منصفانہ اور موثر واچ ڈاگ بننے کے لیے نیب کی اصلاح کرنا ہوگی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے بااختیار بنایا جائے کہ وہ اصلاح شدہ انتخابی قوانین کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی ضمانت دے سکے۔ ٹیکس کے نظام کو مزید موثر اور منصفانہ بنایا جائے۔ فضول اور غیر پیداواری اخراجات کو ختم کرتے ہوئے معیشت پر پڑے غیر ضروری بوجھ کو ہٹایا جائے۔ عطیہ دہندگان اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اعتمادہو کہ ملکی نظام مستحکم ہے تاکہ وہ پر اعتماد طریقے سے سرمایہ کاری کرسکیں۔ اُنہیں اپنے منافع کی ضمانت حاصل ہو۔ پڑوسیوں اور غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ معمول کے تعلقات ہماری اپنی ضرورت ہیں۔ عسکریت پسند قوتوں کو سراٹھانے سے پہلے ہی کچل دینا چاہیے۔ قومی سلامتی کے تصور میں ٹینک اور بندوقوں کے ساتھ ساتھ روٹی اور مکھن کی فراہمی کو بھی قومی قوت کا ذریعہ سمجھنا چاہیے۔ ان مقاصد میں سے کوئی بھی تحریک انصاف کی قائم حکومت میں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے ریاست کے معاون ستونوں کی مدد سے چیزوں کو درست کرنے کا ایک تاریخی موقع ضائع کر دیا ہے۔


بہت سے لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس سال تحریک انصاف حکومت کی جگہ لینے والی پاکستان مسلم لیگ حکومت پاکستان کو درپیش بے شمار مسائل سے کیسے نمٹ سکتی ہے۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اگر دیگر عناصر ہم پلہ مان لیے جائیں تو بھی شہباز شریف عمران خان سے بہتر، زیادہ تجربہ کار اور قابل منتظم ہیں۔ بہتر انتظامات دست یاب وسائل کی زیادہ پیداوار کا باعث بنتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کئی سالوں سے بطور وزیراعلیٰ پنجاب کام کرنے کا اچھا تجربہ رکھتے ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ غیرملکی عطیہ دہندگان اور سرمایہ کاران پر زیادہ اعتماد کریں گے۔


جیسا کہ ہر انسان میں کچھ انفرادی خواص ہوتے ہیں، نواز شریف کا سعودی اور قطری شاہی خاندانوں کے علاوہ امریکی صدر جوبائیڈن، ترک صدر اردوان اور بھارت کے نریندر مودی کے ساتھ تعلقات میں نرم روی اور خیر سگالی کا عنصر نمایاں ہے۔ اس کے برعکس عمران خان کی طبیعت میں تکبر اور سخت گیری پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے عالمی رہنماان سے دور ہوئے ہیں۔


توقع ہے کہ یہ عنصر پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کے حق میں ترازوکو جھکا دیں گے۔ ان تمام عوامل سے بڑھ کر پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے دور کے اوائل میں سخت فیصلے لینے کے لیے اچھے مشورے سن سکتی ہے تاکہ اگلے انتخابات ہونے کے قریب وہ اپنی محنت کے ثمرات سے لطف اندوز ہو سکے۔ یقینا ایک غیر مقبول حکومت مقبول مینڈیٹ کی طرح سخت فیصلے نہیں لے سکتی۔ یہ حقیقت بھی کم اہمیت کی حامل نہیں کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی ٹیم میں شاہد خاقان عباسی، اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل، احسن اقبال، خواجہ آصف، مصدق ملک، خرم دستگیر خان، مریم اورنگزیب، اعظم تارڑ، وغیرہ جیسی اہم شخصیات شامل ہیں۔ ان کی موجودگی میں ن لیگ تجربے اور پیشہ ورمہارت کے تقابلی جائزے میں کسی بھی جماعت سے بڑھ کرہے۔


مسلم لیگ ن کی سابق حکومت اس وقت تک چلتی رہی تاوقتیکہ اسے  اسٹبلشمنٹ کی سازش نے پٹری سے اتاردیا۔ نواز شریف کوہٹاکر عمران خان کو اقتدار میں لایاگیا۔ مسٹر شریف کا جرم بھارت کے ساتھ تعلقات معمول کی سطح پر لانے کی خواہش تھا۔ اس مقصد کے لیے وہ لشکر طیبہ اور جیش محمد کے نام نہاد جہاد کا دفتر بند کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ کابل میں طالبان پر زور دے رہے تھے کہ  امریکی حمایت یافتہ اشرف غنی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں شریک ہوں۔ ا س وقت اسٹبلشمنٹ کی سوچ اس کے برعکس تھی۔ اب پاکستان بھارت کے ساتھ الجھاہوا ہے جو پاکستان میں علیحدگی پسندی، شورش اور دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ دوسری طرف کابل میں طالبان حکومت کا رویہ سرد مہری پر مبنی ہے۔ وہ بدستور تحریک طالبان پاکستان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہی ہے۔ امریکی حکومت کا پاکستان سے رویہ غیر دوستانہ ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی ذلت آمیز شکست کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتی ہے۔ چونکہ عمران خان ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں یا تیار نہیں، اس لیے اسٹبلشمنٹ کو آخر کار نواز شریف کی طرف رجوع کرنا پڑ رہا ہے تاکہ ملک کو دوبارہ پٹری پر چڑھایا جا سکے۔


اب سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ اسٹبلشمنٹ اس صورت حال کتنی تیزی اور موثر طریقے سے تبدیل کرتی ہے۔دوسری طرف اس کا دارومدار اس بات پر بھی ہے کہ کس طرح طاقت کی تقسیم اور گڈ گورننس کے فارمولے کو نافذ کرنے کے لیے بین الاقوامی ضمانتوں کے ساتھ یا اس کے بغیر، دونوں طرف کافی حد تک اعتماد پیدا کیا جا سکتا ہے۔