دنیا کو ہلا دینے والے دس دن

دنیا کو ہلا دینے والے دس دن

افغان طالبان نے گفتگو جاری رکھی اور جنگ بھی۔ اور وہ  جیت گئے۔ امریکی باتیں کرتے اور بھاگتے رہے۔ اور وہ جنگ ہار گئے۔ اس انجام کی پیش گوئی 2020  ء میں کی جاچکی تھی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کا اعلان تو کردیا لیکن کابل میں تمام دھڑوں کی شمولیت رکھنے والی نگران حکومت قائم نہ ہوسکی۔ لیکن جو کچھ دیکھنے میں آیا ہے، اس کی کسی کوبھی توقع نہیں تھی ۔ صدر بائیڈن کو ہرگز نہیں تھی جنہوں نے غیر مشروط طور پر ستمبر میں طے شدہ انخلا کی تاریخ پیچھے کردی۔ اُن کا خیال تھا کہ افغان نیشل آرمی کم از کم مزید ایک سال تک لڑ سکتی ہے۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ محض دس دنوں کے اندر افغان نیشنل آرمی اپنا بوریا بستر سمیٹ لے گی اور صدر غنی ملک سے فرار ہوجائیں گے۔ یہ سب واقعات اندرونی اور بیرونی سٹیک ہولڈر وں کے درمیان دس او ر گیارہ اگست کو مذاکرات کے آخری دور کے بعد پیش آئے۔


طالبان کی شان دار حکمت عملی گوریلا جنگ کے اصولوں کی بنیاد پرتھی ۔ وقت کا انتظار کرتے ہوئے پاؤں رکھنے کی جگہ بنائیں اور دشمن کی لڑنے کی سکت اور حوصلے کو پست کردیں۔ یہ عسکری تھیوری1930 ء کی دہائی میں چین میں ماؤ زی تنگ، اور پھر 1960 ء کی دہائی میں ویت نام میں ہوشی من نے اپنائی تھی ۔


اپنی حکومت کے 2001  ء میں خاتمے کے بعد طالبان نے پاکستانی سرحد کے دونوں طرف اپنی گروہ بندی کی، خود کو منظم کیا اور 2010 ء کے بعد سے ان کی دلیری اور جارحیت میں واضح اضافہ دیکھنے میں آنے لگا۔ 2020 ء میں امریکا کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اُنہوں نے ملنے والے وقت کااستعمال کرتے ہوئے امریکا کی کابل کے لیے کسی ممکنہ مخلوط حکومت کاراستہ بھی روکا اور شمالی افغانستان پر توجہ دیتے ہوئے وہاں اپنے قدم بھی جمائے۔ اس سے پہلے یہ خطہ طالبان مخالف جنگجوؤں کی آماجگاہ تھا جو 1997-2001  میں اُن کی حکومت کے لیے چیلنج بنے رہے تھے، اور اُن کے ہاتھوں طالبان کو زک بھی پہنچی تھی۔


یلغار کے وقت طالبان کی اپنائی گئی جنگی حکمت عملی بہت کامیاب رہی۔۔۔”امریکی تو یہاں سے جارہے ہیں، تم ہتھیار ڈالو اور گھر جاؤ۔ ہم تم سے انتقام نہیں لیں، تمہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔“اس کا اُنہیں بہت فائدہ ہوا۔ آخری مرحلے میں جب امریکی بتدریج فضائی کمک سے ہاتھ کھینچنے لگے، اپنے کمانڈروں، تربیت دینے والوں، کنٹریکٹروں کو واپس بلا نے کا عمل شروع کردیا، فضائی حملے ختم کردیے تو اگلے محاذوں پر موجود دستے فرار ہونے لگے۔ افغان نیشنل آرمی امریکا کی تیارکردہ جنگی مشین کے اہم عناصر سے محروم ہونے پر تنکوں کی طرح بکھر گئی ۔ غنی حکومت کے علاوہ افغان نیشنل آرمی کے افسران کی ہوشربا بدعنوانی اور ایوان صدر سے فوجی کمانڈروں کے متواتر تبادلے بھی فوج کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے۔ یکے بعد دیگرے صوبے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے لگے اور جب امریکی فوجی بھی وطن واپسی کے لیے طیاروں بیٹھے تو کابل کا گھیراؤ مکمل ہوچکا تھا۔


اشرف غنی کی سب سے بڑی تزویراتی غلطی پاکستان کے ساتھ محاذ گرم رکھنا اور انڈیاکے ساتھ دوستی بڑھاناتھا۔ پاکستان اس کھیل کا ایک اسٹیک ہولڈر تھا۔ اب یہ بات درست ہے یا غلط، حقیقت یہی ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا اسٹیک چالیس سال پر محیط ہے۔ اگر کابل کھل کر اسلام آباد سے دوستی نہیں کر سکتا تو اسے کھل کر دشمنی بھی نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح پاکستان اور افغان طالبان درپردہ قدرتی اتحادی ہیں۔امریکی بھی غلطی کرگئے جب اُنہوں نے 2020 کے معاہدے پر دستخط کیے لیکن طالبان کے مطالبے کے مطابق اشرف غنی کی جگہ کوئی اور قابل قبول متبادل آپشن نہ لائے۔ اب کیا ہوگا؟


امریکا میں صدر بائیڈن کو توقع تو تھی کہ وہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم کرکے ”لڑکوں کو گھر واپس لانے“ پر عوامی پذیرائی حاصل کریں گے، لیکن ہوا یہ کہ کابل سے انخلا نے سائیگون، ویت نام میں اٹھائی گئی ہزیمت کی یاد تازہ کردی۔ اب صدر بائیڈن کو عوامی تنقید کا سامنا ہے۔ اُن کی انخلا کی پالیسی کی ڈیموکریٹس اور رپبلکنز میں حمایت 70  فیصد سے گرکر 50  فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ امریکا اپنی شکست پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ پاکستان مخالف بیانیہ ”حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس آئی کا فعال بازو“، انتہا پسندوں کو ”محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے“ اور ”دہرا کھیل کھیلنے“ کے گر د گھومتاہے۔ اگر اس پر دباؤ ڈالا جاتا تو اسلام آباد کی ناراضی افغانستان میں مفاہمت سے حکومت قائم کرنے کی عالمی کوششوں کو پٹری سے اتار سکتی تھی۔ وہ حکومت جو انسانی حقوق کی پاسداری کرتی۔


افغانستان میں طالبان سے توقع ہی کی جاسکتی ہے کہ ماضی کی نسبت تبدیل شدہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم از کم دیگر فریقوں کو بھی اقتدار میں شامل کریں گے۔ تاہم اصل طاقت اور پالیسی سازی کا اختیار اُن کے ہاتھوں میں ہی ہوگا۔ شروع میں تو وہ امیر المومنین یا ایران کی طرز پرسپریم لیڈر، جو چنے گئے وزرا کی کونسل کے اوپر ہوگا، کی قیادت میں ملک کو چلائیں گے۔ اس دوران اُنہیں عالمی شناخت اور تسلیم کیے جانے کی بھی ضرورت محسوس ہوگی۔ اس کے لیے وہ علاقائی طاقتوں، جیسا کہ روس، چین، ایران، وسطی ایشیائی ریاستوں اور پاکستان کے خدشات کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ معاشی تعاون کے بدلے انتہا پسندوں، دھشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو اپنے ہاں پناہ نہ دینے کا وعدہ کریں گے۔ عالمی برداری کے لیے وہ اسلامی حکومت کے اندر انسانی حقوق کو مغربی آزادی اور جمہوریت کے تصورات کے مقابل پیش کریں گے۔


 اپ گریڈ، یا تبدیل شدہ طالبان(جسے 2.0 سافٹ وئیر کہا جارہا ہے) کی حکومت کو یہ عامل بنا بھی سکتے ہیں اور بگاڑبھی سکتے ہیں۔ القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، ای ٹی ایم (مشرقی ترکمانستان کی تحریک)داعش اوربلوچ علیحدگی پسندافغان سرزمین سے آسانی سے بے دخل نہیں ہوں گے اور نہ ہی کسی آسان طریقے سے اُنہیں ختم کیا جاسکتا ہے۔ آزاد کردہ ہزاروں قیدی اب تک اُن کی صفوں میں شامل ہوچکے ہوں گے۔ اگر وہ عناصر سرحد پار اپنی کارروائیاں کرتے ہیں تو طالبان کا ہمسایوں کے ساتھ تناؤ بڑھے گا۔ اگر القاعدہ امریکی سرزمین پر حملہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے او ر اس حملے کے قدموں کے نشانات افغانستان میں ملتے ہیں تو امریکا پر انتقام لینے کا دباؤ ہوگا۔


 اس دوران افغانستان بھی اپ گریڈ ہوچکا ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران افغانوں کی نئی نسل نے سیکولرازم، میڈیا کی آزادی، خواتین کے حقوق اورمعلومات کا انقلاب بپا ہوتے دیکھا ہے۔ اگر طالبان نے جبر اور فوجی کارروائی کے ذریعے ان اقدار کو ختم کرنے کی کوشش کی تو اس کا مقامی طور پر بھی ردعمل آئے گا اور عالمی سطح سے بھی۔ اور اس ردعمل کے نتائج ہوں گے۔ اس نئے افغانستان کی معیشت، اس کا مالیاتی نظام، تعلیم، انتظامی ڈھانچہ، زرمبادلہ کے ذخائرمکمل طور پر امریکی امداد کے مرہون منت ہیں۔


آخر میں طالبان کے تینوں چوٹی کے راہ نماؤں کی دانائی اور تجربے پر بہت سے معاملات کا دارومدار ہے۔ ان کی ساکھ اور صلاحیتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ طالبان کے امیر، ہیبت اللہ اخونزادہ ”خود کش حملوں کے پرجوش حامی“مانے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے ہلمند صوبے میں ایک حملے کے دوران اپنے بیٹے کو بھی دھماکے سے خود کو اُڑالینے کا حکم دیا تھا۔ یہ ہیبت اللہ اخونزادہ کی ”گفتگو اور جنگ“ کی  تزویراتی حکمت عملی تھی جو بہت کامیاب ثابت ہوئی۔ دوسرے نمبر پر سراج الدین حقانی ”امریکا کو سب سے زیادہ چکما دینے والے جنگجو“، ”پیچیدہ خود کش حملے اور ہدفی قتل کے ماہر“ مانے جاتے ہیں۔ تیسرے عبدالغنی برادر جو ممکنہ صدارتی امیدوار بھی ہیں، اور جنہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے، امریکیوں کے کہنے پر پاکستان نے ایک عشرہ تک جیل میں قید رکھا تھا۔


پاکستان کے سامنے ایک بڑا موقع ہے جس سے یہ فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے اور کھو بھی سکتا ہے۔ اگر نئے اور تبدیل شدہ ذہنیت رکھنے والے طالبان افغانستان میں ٹھکانے رکھنے والے پاکستان مخالف عناصر کا قلع قمع کردیتے ہیں اور پاک چین اقتصادی راہ داری(سی پیک) کے لیے وسطی ایشیا کے تیل، گیس، سڑک اور ریل کے راستے کھول دیتے ہیں تو اس کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔ لیکن اگر طالبان کی فتح اور امریکا کی شکست سے پاکستان میں انتہا پسندی اور جنونیت کی آندھی چلنے لگتی ہے، چاہے اس کی وجہ تحریک لیبک یا تحریک طالبان پاکستان کے عناصر کو ملنے والی شہ ہو یا ملک میں امریکا مخالف جذبات کا طوفان ہو جس کی وجہ سے پاکستان کو عالمی تنہائی کاسا منا کرنا پڑے تو پھر پاکستان لیے اس میں صریحاً نقصان ہے۔ پاکستانی معیشت کا دارومدار مغرب کے ساتھ تعاون پرہے۔ اس کی سول سوسائٹی اتنی توانا ہے کہ یہ جمہوری آزادی کے سہارے انتہا پسندی کا مقابلہ کرسکتی ہے۔


اگرافغانستان میں طالبان کی فتح کا راستہ طویل اور خون آلود ہوتا گیا تو ہمارے سامنے منظر نامہ بھی محفوظ اور یقینی نہیں ہوگا۔ افغانستان میں پشتون طالبان میں صرف پنتالیس سے پچاس فیصد پشتون ہیں۔ دیگر پشتون اور نسلی گروہوں نے فی الحال طالبان کی یلغار کے سامنے مزاحمت نہیں کی۔ لیکن اگر اُنہیں قائم ہونے والی حکومت اور انتظامیہ میں شراکت دار نہ بنایا گیا تو قبائلی بغاوتیں اور غیر ملکی مداخلتیں ایک مرتبہ پھر افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔