مستقبل بینی

مستقبل بینی

سوالات تو بہت سے اور ہنگامہ خیز ہیں۔


صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجی دستوں کے انخلا کے لیے مئی 2021ء کی بجائے گیارہ ستمبر 2021ء کی تاریخ طے کی ہے۔ کیا اس تاریخ سے پہلے طالبان افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر راضی ہوجائیں گے؟ یا کیا اس کے بعد پاکستان کا کوئی کردار یا اثرورسوخ باقی رہے گا؟


حمزہ اور شہباز شریف کو ضمانت مل گئی ہے۔اب وہ سیاسی اکھاڑے میں ایک بار پھر کودنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم میں کیا کردار ادا کریں گے؟کیا شریف خاندان تقسیم ہونے جارہا ہے؟


جہانگیر ترین خود کو عمران خان کے غضب سے بچانے کے لیے چالیں چل رہے ہیں۔ اگر تحریک  انصاف کے درجن بھر کے قریب اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کھل کر اُن کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں تو کیا ہوگا؟


تحریک لبیک پاکستان منہ زور ہوچکی ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور تحریک انصاف نے کبھی اسے شہ دے کر میدان میں اتارا تھا تاکہ مسلم لیگ ن کو عدم استحکام سے دوچار کیا جاسکے، لیکن اب وہ اپنے ہائبرڈ سسٹم کو بچانے کے لیے اسے کچلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیا وہ اس میں کامیاب ہوں گے؟


پہلے افغانستان کی بات کرلیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر مئی 2021ء میں فوجوں کے انخلا کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے بعد طالبان گفتگو کے بے شمار ادوار میں تو شریک ہوئے لیکن انخلا کے بعد شراکت اقتدار کے بنائے گئے امریکی منصوبے کے لیے اپنے موقف میں لچک پیدا نہ کی۔ تواب جب بیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کے فیصلے کی توثیق کردی ہے گرچہ انخلا کی تاریخ میں چند ماہ کی توسیع کی ہے، تو طالبان کوئی فارمولہ کیوں مانیں گے؟ جوبیڈن کے اعلان پر تنقیدی تبصرے سے طالبان کے ارادوں کی وضاحت ہوتی ہے: ”اب جب کہ انخلا کی تاریخ (جو پہلے مئی تھی) کی امریکا نے خلاف ورزی کی ہے، اس لیے اصولی طور پر اسلامی امارات کے مجاہدین ضروری اقدامات کے لیے آزادہیں۔ مستقبل میں پیش آنے والے تمام واقعات کے نتائج کی ذمہ داری امریکیوں پر، نہ کہ اسلامی امارات پر عائد ہوتی ہے... اسلامی امارات مکمل طور پر آزاد خالص اسلامی نظام کے قیام پر کوئی لچک نہیں دکھائے گی۔“


2001ء سے 2021ء تک لڑی جانے والی کلاسیکل گوریلا جنگ میں طالبان نے بہت کامیابی سے ”وقت“ گزار کر اپنی مرضی کا موقع پیدا کرلیا۔ ملاعمر کا مشہور بیان سامنے آیا تھا:  ”امریکیوں کے پاس گھڑی ہے، ہمارے پاس وقت ہے۔“


خدشہ ہے کہ امریکی فورسز کے انخلا کے افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی اور ہتھیاروں کی فراہمی اورعالمی برادری کی امداد کے تعطل کی وجہ سے غنی حکومت منہدم ہوجائے گی۔ طالبان یا تو تمام پشتون، ازبک اور تاجک مزاحمت کو کچل ڈالیں گے یا پھر افغانستان میں نسلی بنیادوں پر تقسیم کی لکیریں گہری ہوجائیں گی۔ طاقت ور ہمسائے اپنے ساتھ وابستگی رکھنے والے دھڑے کے پیچھے کھڑے ہوجائیں گے۔ جب طالبان نے 1997-2001 تک کابل پر حکو مت کی تھی تو اُنہوں نے پاکستان کے ساتھ کھنچنے والی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اُس وقت اُنہوں اسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی۔ اس پر امریکا نے مشتعل ہوکر اُن پر آگ و آہن کی بارش کردی۔ اس وقت اُنہوں نے کسی امریکا مخالف دھشت گرد گروپ کو پناہ نہیں دے رکھی۔ لیکن وہ پاکستان مخالف گروہوں، جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان کو پناہ فراہم کریں گے جن کے ساتھ اُن کے ہمیشہ سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔


حمزہ اور شہباز شریف کا معاملہ:  ان کی رہائی کے پیچھے اسٹبلشمنٹ کی یہ توقع کارفرما ہے کہ وہ مریم اور نواز شریف کا سخت اور تیز وتند اسٹبلشمنٹ بیانیہ تحلیل کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ لیکن وہ دو حقائق جانتے ہیں۔ پہلا، اُنہیں پہلے بھی کئی بار دھوکا دیا گیا جب اسٹبلشمنٹ نے اُنہیں عمران خان کے غیض و غضب سے نہ بچایا۔ دوسرا، پاکستان مسلم لیگ ن کا مقبول ووٹ مریم اور نوا زشریف کا ہے۔ اس لیے اُنہیں اپنی پارٹی کو کمزور کرنے یا پاکستان مسلم لیگ ن یا شریف خاندان میں دراڑ ڈالنے کے لیے قائل نہیں کیا جاسکتا۔تاہم شہباز شریف پی ڈی ایم کے اندر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان رابطے بحال کرنے میں یقینا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے وہ متحدہ اپوزیشن کو آگے بڑھنے کے لیے کسی موثر سمجھوتے اور تعاون کی راہ دکھاسکتے ہیں۔ تاہم عمران خان مریم کو انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے کھیل کو خراب کرسکتے ہیں۔


جہانگیر ترین:  اسٹبلشمنٹ کی طرف سے ٹہوکا ملنے کے بعد عمران خان اپنی یلغار میں ایک قدم پیچھے ہٹا سکتے ہیں۔ تاہم وہ جہانگیر ترین کو اپنے نشانے پر ضرور رکھیں گے۔ ترین بھی پی ٹی آئی کے ساتھ بغل گیر نہیں ہوسکتے۔ اسٹبلشمنٹ کے دیرینہ اثاثے کے طور پر وہ پنجاب کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنے ساتھ رکھتے ہوئے گرین سگنل کا انتظار کریں گے۔ یہ سگنل جون میں مل سکتا ہے اگر بجٹ پر غیر مطمئن ہوتے ہوئے اسٹبلشمنٹ اپنے آپشنز پر غور کرنے پر مجبور ہوجائے۔


تحریک لبیک پاکستان:  اسٹبلشمنٹ کی ممکنہ اتحادی یا اثاثہ بھی اسی طرح ایک خطرناک بوجھ بنتی جارہی ہے جس طرح ماضی کچھ مثالیں۔ سیاست دانوں میں ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو اور نواز شریف کی مثال دے سکتے ہیں۔ اب عمران خان بھی قابو سے باہر ہورہے ہیں۔ پارٹیوں میں جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور جمعیت علمائے اسلام۔ گروہوں میں لشکر جھنگوی اور اس کی بہت سی مسلکی شاخوں کو ہمسائے کے خلاف جہاد کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، اور تحریک طالبان پاکستان کو ”اچھے مقاصد رکھنے والے لیکن بھٹکے ہوئے مسلمان بھائی“ کہہ کر لاڈ پیا رکیا گیا، یہاں تک کہ اُنہوں نے اپنی بندوقوں کا رخ اپنے مہربانوں کی طرف کر لیا اور پھر وہ ظالم دھشت گرد قرار پائے۔


تاہم دیگر انتہا پسند اسلامی گروہوں کے برعکس تحریک لبیک ایک ایسی انتہا پسند اسلامی جماعت ہے جو قومی انتخابی سیاست پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اسٹبلشمنٹ کا خیال تھا کہ وہ اسے اپنے محدود سیاسی عزائم کے لیے استعمال کرسکتی ہے، جیسے اسے ن لیگ کی حکومت کے خلاف میدان میں اتار ا گیا،اور جب مقصد پورا ہوگیا تو رسی کھینچ لی گئی۔ لیکن بدقسمتی سے لبیک نے خطرناک حد تک پرپرزے نکالنا شروع کردیے۔ تیزی سے سنگین ہوتے ہوئے بے روزگاری، غربت اور سماجی گراوٹ کے ماحول میں عوام کٹر مذہبی نظریات کی طرف مائل ہوسکتے ہیں۔ درحقیقت سول ملٹری اشرافیہ نے جس طرح اسلامی علامات، قوانین اور روایات کو سیاسی طاقت اور دولت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، تحریک لبیک نے بھی اسی حربے کو اپناتے ہوئے غریب اور مفلس افراد کے جذبات ابھارے ہیں۔ اس طرح وہ حکمرانوں کو چیلنج کرنے اور ان کی ساکھ خراب کرنے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔ اس لیے لبیک کے خطرے کا تدارک کرنے کے لیے اس پر پابندی لگانا کام نہیں دے گا۔ اب شاید بہت دیر ہوچکی ہے۔ یہ کسی بھی وقت کسی نئے نام سے پہلے سے کہیں زیادہ توانائی سے سامنے آجائے گی۔ درحقیقت موجودہ ہائبرڈ نظام مرکزی دھارے کی متعدل مزاج سیاست اور معاشی ترقی کو برقرار رکھنے اور اسے سکیورٹی اسٹبلشمنٹ کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے میں جتنا ناکام ہوتا جائے گا، تحریک لبیک کے پنجے اتنے ہی پھیلتے اور طاقت ور ہوتے جائیں گے۔ یہ ریاست اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے ایسی افراتفری پھیلاسکتی ہے جس کے نتیجے میں ریاسست منہدم ہوجائے گی اور غیر ملکی مداخلت ناگزیر ہوجائے۔


یہ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی ایک جھلک ہے۔