اک زرداری، سب پر بھاری

اک زرداری، سب پر بھاری

حفیظ شیخ کو حاصل تمام تر حمایت کے باوجود یوسف رضا گیلانی کی سینٹ میں کامیابی نے ”ایک زرداری، سب پر بھاری“ کے نعرے کو ٹھوس حقیقت بنا دیا۔ صرف یہی نہیں، زرداری صاحب نے سینٹ میں پیپلز پارٹی کی سیٹوں کی تعداد 20   اور پی ڈی ایم کی 53 تک پہنچا دی ہے۔اب انہیں چیئرمین شپ بھی مل سکتی ہے۔ عمران خان کو چلتا کرنے کی حکمت عملی بنانے میں زرداری صاحب کو بالا دستی حاصل ہے کیوں کہ اُنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کردیا ہے۔ اُن کی حکمت عملی نواز شریف سے مختلف ہے۔ وہ لانگ مارچ اور پارلیمنٹ سے استعفوں کے ذریعے حکومت کو مفلوج کرتے ہوئے عمران خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوسکیں۔ دوسری طرف زرداری صاحب ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے عمران خان کو رخصت کرکے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے جس کی قیادت بلاول بھٹو کے پاس ہواور یہ بندوبست 2023  ء تک جاری رہے یہاں تک اگلے عام انتخابات ہوں۔اب زرداری صاحب کے داؤ پیچ اُنہیں اس مقصد کے حصول کے قریب تر لے آئے ہیں۔


سینٹ کے انتخابات سے پہلے بھی تحریک انصاف کی پریشانی عمران خان کے چہرے سے ہویدا تھی۔ پی ڈی ایم، خاص طور پر نواز شریف کی طرف سے افسران کو ہدف بنائے جانے کے بعد اسٹبلشمنٹ نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کے لیے عمران خان سے دوری اختیار کر لی۔اس وجہ سے حالیہ ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کو ہلا کر رکھ دیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اصولوں پر کھڑا رہنے کا حوصلہ ملابلکہ اس نے پنجاب میں انتخابی دھاندلی اور منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے پر تحریک انصاف کی انتظامیہ کو بھی آڑھے ہاتھوں لیا۔ گھبراہٹ میں تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں خفیہ رائے شماری کے خلاف درخواست دائر کی۔ تاہم چیف الیکشن کمشنر کی غیر جانبداری کی عوامی پذیرائی اور اسٹبلشمنٹ کے براہ ِراست دباؤ سے نکلنے کے بعد سپریم کورٹ نے بھی تحریک انصاف کو مایوس لوٹا دیا۔ جب اسٹبلشمنٹ نے براہ ِراست مداخلت کرتے ہوئے مزید سہارا دینے سے گریز کیا تو تحریک انصاف کی دفاعی لائن خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھرنے لگی۔ عمران کو دھول چاٹناپڑی۔ اُنہوں نے فوراً ہی اپنی پارٹی کی طرف رجوع کیا، لاہور میں چوہدریوں سے رابطہ کیا جبکہ ان کی شریک ِحیات نے شیخ علی ہجویری ؒ المعروف داتا صاحب کے مزار پر دعا بھی کی لیکن بے سود۔


تحریک انصاف کی صفوں میں افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زرداری صاحب نے سندھ سے ایک درجن بھر ایم پی اے ساتھ ملا لیے۔ اس طرح اُنہیں سینٹ میں ایک اضافی سیٹ مل گئی۔ اسی طرح اراکین قومی اسمبلی کے ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی بھی کامیاب ہوگئے۔ شنید ہے کہ آخری لمحات میں عمران خان کی طرف سے ایس او ایس کی ہنگامی پکار پر دل پسیجا اور اسٹبلشمنٹ نے کچھ اراکین قومی اسمبلی کو فون کیے۔ اس سے یوسف رضا گیلانی کی جیت کا مارجن قدرے کم ہوگیا۔ لیکن اب آگے کیا ہوگا؟


تمام اسٹیک ہولڈرز اپنے اپنے مورچوں میں مشورے کررہے ہیں۔ اس وقت اسٹبلشمنٹ کو دو بنیادی امور پر فیصلہ کرنا ہے: کیا عمران خان کی پشت پناہی سے دستبردار ہونے کا وقت آگیا ہے؟ اگر ایسا ہے، تو کیا وہ نواز شریف کے خلاف آصف زرداری کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہے؟ کیا وہ اس طرح کسی حل تک پہنچ سکتی ہے؟ نواز شریف کو بھی دو اہم ایشوز پر فیصلہ کرنا ہے: کیا وہ اگلے دوسال تک قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے زرداری صاحب کو اسٹبلشمنٹ کی مدد سے کھل کر کھیلنے کی اجازت دیں گے؟ یا کیا وہ اسٹبلشمنٹ مخالف سٹریٹیجی اور فوری انتخابات کا انعقادکرانے کے لیے دباؤ برقرار رکھا چاہیں گے؟ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی پارٹی کے قدرے کمزور یا موقع پرست اراکین کی حمایت کھو بھی سکتے ہیں، خاص طور پر جب اُن کے سامنے کوئی معقول بندوبست موجود ہوگا؟


اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کی قیادت میں موجودہ ہائبرڈ سسٹم پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ اس کے دو لیڈران کا موجودہ بندوبست میں ذاتی حصہ ہے۔ لیکن عمران خان کی مایوس کن کارکردگی نے اسٹبلشمنٹ کو چکرا دیا ہے۔ اس کی قیادت پر نواز شریف کے تیز وتند حملوں نے اس کی ساکھ اور وقار کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ اگر یہ عمران خان کے ساتھ کھڑی رہتی ہے تو پی ڈی ایم اسے ہدف بنائے گی۔ یہ بطور ادارہ اس کے مفاد میں نہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی پھر کوئی متبادل تلاش کرناہے جس پر یہ عمران خا ن اور نواز شریف کے علاوہ انحصار کرسکے۔ یہ چیز آسان نہیں ہوگی۔ یہ دونوں راہنما بہت زیادہ عوامی حمایت رکھتے ہیں۔ لیکن یہ ناممکن بھی نہیں۔  اسٹبلشمنٹ اختیار حاصل کرنے اور جب عوام خلاف ہوجائیں تو قدم پیچھے ہٹانے کی تاریخ رکھتی ہے۔


مارچ اور اپریل فیصلہ کن مہینے ہوسکتے ہیں۔ عمران خان اپنے زخم چاٹتے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ وہ بلاروک ٹوک اپنی مرضی سے حکومت کرنے کے قابل کب اور کیسے ہوں گے۔ اُنہوں نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ ایسا کب کریں گے؟ابھی اُنہیں یہ بھی یقین نہیں ہے کہ کیا اسٹبلشمنٹ سے ٹھوس مدد مل پائے گی یانہیں؟ اگر نہ ملی تو اُن کی رخصتی یقینی ہے۔ چونکہ ان کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی جانتے ہیں کہ ”غیر جانبداری“نامی کوئی چیز نہیں ہوتی،اس لیے جب وہ دیکھیں گے کہ اب  اسٹبلشمنٹ کی حمایت کاتراوز کسی اور طرف جھک چکا ہے تو وہ اس طرح چلے جائیں گے۔ حالیہ پیش رفت کو حقیقی فلم کے ٹریلر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔


تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے برعکس پی ڈی ایم کے اگلے اقدامات کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ وہ سینٹ میں اپنی پوزیشن مستحکم کریں گے۔یوسف رضا گیلانی ممکنہ طور پرچیئرمین سینٹ منتخب ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد عوامی طاقت کے مظاہرے لیے لانگ مارچ کی تیار ی بھی کی جاسکتی ہے۔ ان سب کے پس ِپردہ زرداری صاحب اسٹبلشمنٹ اور اس کی معاون پارٹیوں، ق لیگ، ایم کیو ایم اور بلوچ پارٹیوں کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش میں ہوں گے تاکہ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیاب تحریک پیش کی جاسکے۔ چونکہ تحریک انصاف کے ہر رکن قومی اور صوبائی اسمبلی کو پتہ ہے کہ اگلے انتخابات جب بھی ہوں گے، وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نہیں جیت سکیں گے، اس لیے اُن میں سے ہر کوئی مستقبل میں جیتنے والوں کی ویگن میں سوار ہونے کی کوشش میں ہوگا۔ اس صورت میں کسی کو فلور کراسنگ کے الزام پر پارلیمنٹ سے نااہل ہونے کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔


دھاندلی زدہ انتخابات کی بنیاد پر وجود میں آنے والا ہائبرڈ نظام، جس کی قیادت عمران خان جیسے انتہائی خود سر، نالائق، پررعونت لیکن لاپروا وزیر اعظم کے پاس ہے، وہ صرف ا س صورت برقرار رہ سکتا ہے جب طاقت ور اسٹبلشمنٹ پورے عزم کے ساتھ اس کے ساتھ کھڑی رہے اور حکومت کی کارکردگی انتہائی اعلیٰ ہو۔ حالیہ واقعات سے پتہ چل چکا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کا بھی امکان نہیں۔ اس کا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے جنہوں نے اسٹبلشمنٹ کو پچھلے قدموں پر دھکیل دیا، اور آصف علی زرداری کو جنہوں نے اسے احساس دلادیا کہ اُن کا موجودہ منصوبہ ناکام ہے، اب کچھ اور سوچیں۔