امید افزا الفاظ اور حقائق

امید افزا الفاظ اور حقائق

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فوج مکمل طور پر غیر سیاسی ہے۔ اس کے نہ کسی کے ساتھ خفیہ روابط ہیں اور نہ ہی اس نے 2018 ء کے انتخابات میں دھاندلی کی تھی۔ نیز فوج مکمل طورپر حکومت کے ماتحت ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے وعدہ کیا کہ اگر پی ڈی ایم نے اگلے ہفتے جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کیا تو وہ اُن کی تواضع گرما گرم چائے اور بسکٹوں سے کریں گے۔ یہ تمام معروضات نہایت متانت سے قوم کے گوش گزار کرنے پر جنرل صاحب کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ممکن ہے کہ عام انسان ایسے دعووں پر طنزیہ مسکراہٹ دیتے ہوئے آگے بڑھ جائیں۔


پی ڈی ایم کی قیادت کرنے اور مخصوص سیاسی وزن رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کہاں چپ بیٹھنے والے تھے۔ اُنہوں نے فوراً ہی آئی ایس پی آر کی طرف بیان داغ دیاکہ ”ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا“ ہے۔ نیز اُنہوں نے پی ڈی ایم کو چائے اور بسکٹوں کی پیش کش کوآداب میزبانی کے منافی قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب جی ایچ کیومیں پاپا جونز کے پیزے اُڑائے جارہے ہیں تو اُنہیں محض چائے اور بسکٹوں پر کیوں ٹرخایا جائے۔ پایا جونزکا حوالہ ایک اور جنرل کی بے پناہ غیر اعلانیہ دولت کی طرف اشارہ ہے۔


اگر اس دوطرفہ اظہاریے میں طنزو مزاح کی چاشنی نہ ہوتی تو یہ الفاظ انتہائی خطرناک ٹکراؤکا پتہ دیتے ہیں۔ ابھی بھی اگر پی ڈی ایم مارچ کا رخ جی ایچ کیوکی طرف موڑ لیتی ہے تو کیا پتہ فوج کی تقدیس کا لبادہ اتر جائے جس کے نتیجے میں کشمکش کی سنگینی یک لخت بڑھ جائے۔ لیکن صورتِ حال کو اس نہج تک کون پہنچانا چاہتا ہے؟


عوام کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کی ٹائمنگ پر بھی حیرت ہوئی ہے۔ اس وقت اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایسا لگتا ہے کہ تواناہوتے ہوئے فوج مخالف جذبات کا تدارک کرنے کی کوشش ہے۔ تاہم اس وقت ان کی پوزیشن طاقت ور نہیں بلکہ کمزور ہے۔ اس لیے اُنہیں اپنا دفاع کرنے میں دقت پیش آرہی ہے۔ وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے لان سے آنے والی کچھ حالیہ تصاویر ”ایک صفحے“ کا تاثر دینے میں ناکام رہیں۔ نہ ہی وزیر اعظم کی نشست کے عین پیچھے دکھائی دینے والی دو خالی کرسیاں کسی چیز کی وضاحت کرتی ہیں تاوقتیکہ وہ کسی نادیدہ مشیر یا محافظ کے لیے مخصوص ہوں۔


حالیہ دنوں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ کان کنوں کے وحشیانہ قتل سے پیدا ہونے والا بحران ملک میں ہیجان برپا کردیتا ہے کیوں کہ وزیر اعظم نے لاشوں کی تدفین سے پہلے وہاں جانے اور متاثرین سے تعزیت کرنے سے انکار کردیا۔ اس انکار نے اُس وقت قوم کے جذبات کو شدید مجروع کیا جب وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اُن کے ہاتھوں ”بلیک میل“ نہیں ہوں گے۔ گویا ہزارہ متاثرین لاشوں کی تدفین کو وزیراعظم کی آمد سے مشرو ط کریں گے تو وہ کوئٹہ نہیں جائیں گے۔ صورت ِحال کی ڈرامائی سنگینی میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب وزیر اعظم کے ایک ترجمان نے کہا کہ وہ سکیورٹی وجوہ کی بناپر کوئٹہ نہیں جارہے۔ وزیر اعظم کا اصرار تھا کہ وہ لاشوں کی تدفین کے بعد ہی وہاں جائیں گے۔ اس پر ٹوئیٹر میں عوام کی طرف سے سخت ردعمل آیا کہ کیا کھلے میدان میں پڑی گیارہ لاشوں سے وزیراعظم کی سکیورٹی کو خطرہ ہے؟


اب براڈ شیٹ کی آگ بھی سلگ اُٹھی ہے۔ جنرل مشرف نے ملک کی لوٹی گئی دولت بازیاب کرانے کے لیے اس فرم کی خدمات 2000 ء میں حاصل کی تھیں۔ اس کے سی ای او، کیوے ماسوی نے بیس سال بعد توپوں کا رخ اپنے کلائنٹ نیب اور سابق اور موجودہ حکومت میں شامل کئی ایک افسران کی طرف کرلیا ہے کہ اُنہوں نے برآمد شدہ رقم میں سے کمیشن کے علاوہ کچھ مخصوص افراد کے خلاف تحقیقات میں نرمی برتنے یا اُنہیں تحفظ دینے کا کہا تھا۔ یہ سنسنی خیز انکشافات لندن ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد سامنے آئے جس میں مسٹر ماسوی کو ہرجانے کی رقم دینے کا کہا گیا ہے۔ اس کی وجہ 2003 ء میں نیب کی طرف سے معاہدے کی غیر قانونی طریقے سے منسوخی تھی۔


جس دوران موجودہ وزیر اعظم حزب اختلاف پر بدعنوانی کے الزامات لگانے کی کوشش میں ہیں، مسٹر ماسوی نے تحریک انصاف کی حکومت کو تحقیقات کو پٹری سے اتارنے کا ذمہ دارٹھہرایا ہے۔ اُنہوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ لندن ہائی کورٹ کا فیصلہ عوام کے سامنے لے آئیں گے جس میں نیب افسران کے گندے کھیل میں تحریک انصاف کی حکومت کے اہم افراد کی پشت پناہی ثبوت ملتا ہے۔ کچھ چوٹی کے سیاست دانوں اور سول ملٹری افسران کی منی ٹریل کو پنہاں رکھنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اگر لندن ہائی کورٹ کا فیصلہ عوام کے سامنے آجاتا ہے تو یہ پاناما سے بھی بڑا دھماکہ ہوگا۔ اس کی زد میں آکر نیب بھی گھائل ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پی ڈی ایم کے خلاف عمران خان کا سب سے کاری ہتھیار ناکارہ ہوجائے گاجس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ بمشکل ہی کوئی دن گزرتا ہے جب سپریم کورٹ میں نیب کی سخت سرزنش نہی ہوتی اور غیر قانونی اقدامات پر اسے آڑھے ہاتھوں نہیں لیا جاتا۔ فاضل عدالت بھی حیران ہوتی ہے کہ اتنی خرابیوں کے باوجود حکومت اس میں اصلاح کے لیے کیوں تیار نہیں؟


یہ معاملات اپنی جگہ پر، کوویڈ 19اور اس کی تبدیل ہوتی ہوئی اقسام کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ اس کے ہاتھوں انسانوں کی ابتلا ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 230   ملین پاکستانیوں کے لیے صرف گیارہ لاکھ ویکسینز کاآرڈر دیا ہے۔ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ یہ قلیل مقدار کب ملک میں دستیاب ہوگی اور کن افراد کو پہلے لگائی جائے گی۔ لیکن تحریک انصاف کی پراپیگنڈا مشین معاشی بحالی اور سیاسی استحکام کے افسانے گھڑنے میں مصروف ہے۔


سیاسی استحکام کا تو اس وقت پتہ چلے گا جب پی ڈی ایم احتجاج کے اگلے مرحلے میں داخل ہوگی، لیکن معاشی بحالی کے اشاریوں کی تو کڑی جانچ ہونی ہے۔ مثال کے طور پر عالمی بنک کا کہنا ہے کہ 2021 ء کے مالی سال میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 0.5   فیصد رہے گی، لیکن سٹیٹ بنک آف پاکستان کے مطابق معاشی شرح نمو 2   فیصد تک پہنچ جائے گی۔ موڈی کی پیش گوئی کے مطابق یہ 1.5  فیصد تک رہے گی۔ اس دوران آئی ایم ایف بھی نظریں جمائے بیٹھا ہے کہ کیا حکومت اپنے وعدے کے مطابق کفایت شعاری کے پروگرام پرعمل کرتی ہے یا نہیں؟زیادہ تر معاشی ماہرین سوال پوچھتے ہیں کہ کیا منفی 2 فیصد سے مثبت 2 فیصد تک بحالی کو واقعی بحالی کہا جاسکتا ہے جب کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی سے نمٹنے کے لیے کم از کم 6   فیصد معاشی شرح نموضروری ہے؟


اس دوران محصولات کا حجم بڑھنے کی بجائے زیر گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں، مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے جبکہ حکومت کے اخراجات منجمد ہیں۔اب مسلہئ یہ ہے کہ اگر معاشی شرح نمو بڑھتی ہے تو درآمدات میں اضافہ ہوگا۔ اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھے گاکیوں کہ برآمدات نہیں بڑھ رہی ہیں۔ درآمدات بڑھنے سے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی آئے گی تو روپے کی قدر مزید گرے گی۔ اس کے لیے مزید قرض لینا پڑے گا۔یہ درحقیقت انتہائی گھمبیر صورت حال ہے۔


ان مسائل کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کے لیے عمران خان نے اپنے وزرا اور مشیروں اور خصو صی مشیران برائے وزیراعظم کی فوج ظفر موج کو حکم دیا ہے کہ یا تو وہ بلاچون وچراں حکومتی موقف کی پیروی کریں یا گھر جائیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ناکام پالیسیوں کی وجہ سے حکومت کی صفوں میں بھی بے چینی پھیل رہی ہے۔ ایک اچھا مشیر رخصت ہوا، کچھ دیگر بھی پریشانی سے پہلو بدل رہے ہیں۔ تو اس تمام پس منظر میں ہم آئی ایس پی آر کے ترجمان کی مصنوعی سنجیدگی پر کیسے یقین کرلیں کہ ملک میں سب کچھ اطمینان بخش ہے۔