آنے والے سال کا مایوس کن سیاسی منظر نامہ

آنے والے سال کا مایوس کن سیاسی منظر نامہ

پاکستان تحریک انصاف کی مجرمانہ بدانتظامی کے علاوہ کوویڈ 19 نے زندگی کی سرگرمیوں کے شدید متاثر کیا ہے۔ اس کی وجہ سے 2021 ء کا سیاسی منظر نامہ مایوسی سے عبارت دکھائی دیتا ہے۔ ان میں سے کچھ انتہائی تشویش ناک پہلو یہ ہیں:


کوویڈ 19:   اگرچہ 2021 ء کے اختتام تک کئی ایک ویکسین دستیاب ہوجائیں گی لیکن حکومت کی طرف سے درکار فنڈنگ کے فقدان اور نجی شعبے کی منافع خوری کی وجہ سے زیادہ تر پاکستانی اُنہیں حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے کورونا کے پھیلاؤ اور اس کی اثر انگیزی میں تیزی کا خطرہ موجود رہے گا۔ اس کے صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔


معیشت:  جب تک کوویڈ 19 کی وجہ سے عالمی خوراک کی ترسیل ناہموار اور بھارت کے ساتھ تجارت معطل رہے گی، ہمیں کچھ اشیائے خورد و نوش کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں ہم فوری ضرورت کی اشیا نہیں منگوا سکیں گے۔ اس کی وجہ سے دستیاب اشیا کی قیمت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔


معیشت کی بحالی کے حکومتی پراپیگنڈے کے باوجودمعاشی صورت ِحال میں ایسی بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیتے جس سے عام شہریوں کی مشکلات میں کمی آسکے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کی پیش گوئی مایوس کن ہے۔ بہت زیادہ خوش فہمی سے کام لیں تو بھی یہ دو فیصد سے نہیں بڑھے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ آبادی میں بلاروک ٹوک اضافے اور دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت سے بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ اس سے سماجی تناؤ، جرائم اور معاشی بدحالی کی صورت ِحال گھمبیر ہوتی جائے گی۔


حکومت کے لیے گئے بھاری بھرکم مہنگے قرضے معیشت میں جان ڈالنے کی خواہش اور صلاحیت کے درمیان ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ جی ڈی پی کی پست شرح نمو اور ہدف کے مطابق محصولات جمع کرنے میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے حکومت کو مالی وسائل کی قلت کا سامنا رہے گا۔ یہ ٹیکس کے اہداف پر نظر ثانی کرنے پر مجبور رہے گی۔ اس سے سرکاری شعبے میں ہونے والی ترقیاتی اخراجات اور غربت کے خاتمے کے لیے چلائے جانے والے پروگراموں پر منفی اثر پڑے گا۔


آئی ایم ایف کی شرائط نئی مشکلات پیدا کریں گی۔ خسارے میں چلنے والے ادارے ملازمین کو سبک دوش کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ حکومت کو ہینڈ شیک کی مد میں خاطر خواہ فنڈز فراہم کرنے پڑیں گے۔ صنعت اور تجارت کو فائدہ پہنچانے والی ٹیکس مراعات ختم کرنی پڑیں گی۔اس سے ملک میں بہت سے کاروبار بند ہوجائیں گے اور کاروباری طبقے حکومت کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوجائیں گے۔ افسر شاہی کے رویے اور قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے نج کاری میں مشکلات برقرار رہیں گی۔ نیب کے بلاروک ٹوک احتساب اور پکڑدھکڑ کا خوف نج کاری کے شعبے کو دامن گیر رہے گا۔


اوسط سے بھاری شرح سود پر مختصر مدت کے قرضہ جات کے علاوہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آئے گی اور نہ ہی اس کی معاشی شرح نمو میں اضافہ ہوگا۔نہ ہی سمندر پار پاکستانی عمران خان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اپنے وطن میں سرمایہ کاری کریں گے کیوں کہ تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی، ساکھ، استحکام اور دورانیے پر کسی کو اعتبار نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ زیر گردشی قرضے نہ صرف اپنی جگہ پر موجود رہیں گے بلکہ ان میں اضافہ بھی ہوگا۔اس کی وجہ سے سراٹھانے و الے بحران توانائی کے شعبے کو متاثر کریں گے۔ سی پیک کی مد میں چین کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے۔ نئے منصوبے صرف رسمی افتتاحی تقریبات تک ہی محدود ہیں۔


تحریک انصاف کی حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی لانے کے بلند وبانگ دعوے کیے ہیں۔ اس کی وجہ روپے کی قدر گرنے سے درآمدات میں ہونے والی کمی ہے نہ کہ برآمدات میں اضافہ۔ درآمدی بل میں کمی سے ایکس چینج کے نرخوں میں استحکام آنا چاہیے۔ تاہم اس کا عام آدمیوں کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوگا۔ اس کا زیادہ سے زیادہ اثر یہ ہوگا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح دہرے ہندسے تک پہنچ جائے گی۔


خارجہ پالیسی کے امکانات:  پاکستانی خارجہ پالیسی کے امکانات میں اگلے سال بھی بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بھارت کی دشمنی میں کمی نہیں آئے گی اور کسی اچانک اور محدود جنگ کا خطرہ برِ صغیر کے سر پر منڈلاتا رہے گا۔دوسری طرف بھارت کی سرپرستی سے ہونے والی دھشت گردی پاکستان کو لہو لہان کرتی رہے گی۔


افغانستان پر داخلی کشمکش کے بادل گہرے ہوتے جائیں گے۔ وہاں قیام ِامن میں کردار ادا کرنے پر پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ درحقیقت طالبان بتدریج غنی انتظامیہ کے ہاتھ سے اختیار چھین رہے ہیں۔ اس ٹکراؤ میں اضافے سے پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں صورت حال مزید خراب ہوگی۔ افغانستان سے انخلا میں پاکستان کی معاونت کے باوجود امریکیوں کا پاکستان کے بارے میں موقف تبدیل نہیں ہوگا۔ صدر بیڈن کے دور میں امریکا پاکستان کو واشنگٹن کی بھارت کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کی عینک سے دیکھے گاجس کا ہدف بھارت کی مارکیٹ تک رسائی اور چین کو محدود کرنے کی پالیسی ہے۔


اوآئی سی کے لیڈر، سعودی عرب کے ساتھ تنازع کھڑا کرنے کی وجہ سے پاکستان کی مشرق ِوسطیٰ میں تنہائی اس کے معاشی امکانات کو مزید معدوم کردے گی، خاص طور پر افرادی قوت کی کھپت اور اُن کی بھجوائی گئی رقوم میں شدید کمی آئے گی۔ بیرونی ممالک سے بھجوائی گئی رقوم میں حالیہ اضافہ وقتی ہے کیوں کہ کوویڈ 19 کی وجہ سے پاکستان میں موجودہ خاندانوں کو زیادہ رقوم بھیجی جارہی ہیں۔


سیاسی عدم استحکام:  حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والا ٹکراؤ ریاستی جبر یا حزب مخالفت کی مختلف جماعتوں کے اپنے اپنے مفاد کی وجہ سے نہیں ختم ہونے جارہا ہے۔ اگر لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفے دینے کا حربہ تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے میں ناکام ہوگیا تو بھی ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ چونکہ نہ تو معیشت اور نہ ہی یوٹرن پر تکیہ کرنے والی حکومت کی بدانتظامی میں کسی بہتری کا امکان ہے، اس لیے تبدیلی کے لیے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس کی وجہ سے حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک میں شدت آتی جائے گی۔


تحریک انصاف کی غلطیوں پر اسٹبلشمنٹ کو نشانہ بنانے کی اپوزیشن کی پالیسی میں تسلسل کی وجہ سے مقتدر حلقے عمران خان کی حمایت سے دست بردار ہوکر اس بحران کو کسی اور طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وسیع تر قومی سیاسی منظر نامے میں امکانات کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.