قومی مکالمہ یا نرم مداخلت؟

قومی مکالمہ یا نرم مداخلت؟

”2014ء میں تجربہ کار سیاست دان جاوید ہاشمی تحریک انصاف سے الگ ہوگئے۔ اُن کاکہنا تھا کہ عمران خان نے اُنہیں بتایا ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کی طرف سے نرم مداخلت کے لیے تیار رہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ جس طرح 2007  ء میں بنگلہ دیشی سیاست کو بدعنوانی اور نالائقی سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی،یہاں بھی وہی ماڈل آئے گا اور اس کے بعد پاکستا ن استحکام اور ترقی کی راہ پر چل نکلے گا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ 2007  ء کا بنگلہ دیشی ماڈل ایک وسط مدتی حکومت پر مبنی تھاجس کی سربراہی سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کے پا س تھی۔ اس کا چناؤ فوجی اسٹبلشمنٹ نے کیا تھا اور وہی اُسے سہارا دیے ہوئی تھی۔ اس سلیکٹڈ حکومت نے ایمرجنسی کا نفاذ کرکے عام انتخابات کو ملتوی کردیااور مرکزی دھارے کی دونوں سیاسی جماعتوں، جن کی قیادت حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کے پا س ہے،کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت کارروائی شروع کردی۔


”عمران خان کا  2014ء کا دھرنا یاد ہوگا۔ اس کا مقصد نواز شریف حکومت کا گھیراؤ کرکے ختم کرنا اور اس کی جگہ اسٹبلشمنٹ کی ٹکسال کردہ حکومت ملک پر مسلط کرناتھا۔ اس سلیکٹڈ حکومت کی قیادت عمران خان کے پاس ہوتی۔ تاہم نواز شریف کی ثابت قدمی کی وجہ سے وہ سازش ناکام ہوگئی۔نرم مداخلت کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ تاہم اسٹبلشمنٹ بھی تلی ہوئی تھی۔ آخر کار 2018  ء میں موقع مل گیا اور اس نے انتخابات میں دھاندلی کرکے اپنے مہرے، عمران خان کو کرسی پر بٹھا دیا۔


”پاکستان میں بھی بنگلہ دیشی ماڈل کی بازگشت واضح سنائی دی تھی۔ تین مرتبہ کے منتخب شدہ وزیرِاعظم، نواز شریف کو ایک معمولی اثاثہ(وہ تنخواہ جو لے سکتے تھے لیکن نہیں لی) ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں نااہل قرار دینے والے چیف جسٹس آف پاکستان، آصف سعید کھوسہ کا رخصت ہوتے ہوئے بیان ہمیں یاد ہے۔ اُنہوں نے بہت جذباتی انداز میں درخواست کی تھی کہ پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے عدلیہ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مکالمے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ 2007  ء میں بنگلہ دیش کے آئین نے لازمی قرار دیا تھا کہ انتخابات کرانے کے لیے وسط مدتی حکومت کی قیادت کسی ریٹائرڈچیف جسٹس کے پاس ہوگی۔ اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ پاکستان کے رخصت ہوتے ہوئے چیف جسٹس کے دل میں بھی ایسی ہی خواہش پرورش پارہی تھی۔


”اب پاکستان ایک سیاسی اور آئینی جمود کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہے۔ ایک بار پھر پاکستان کو گھمبیر ہونے والے بحران سے نکالنے کے لیے وسیع تر قومی مکالمے کا مطالبہ سنائی دے رہا ہے۔ اگر 2018 ء کا اسٹبلشمنٹ کا تجربہ کامیاب رہتا تو اس زحمت کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر عمران خاں مسلسل یوٹرن لینے اور اپوزیشن کے ساتھ الجھنے کی بجائے اچھی کارکردگی دکھاتے، اگر نیب غیر جانبدار رہتے ہوئے منصفانہ طریقے سے بدعنوان افراد کو سزا دے لیتا، اگر اسٹبلشمنٹ دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نالائق اور نااہل حکومت کا سہارا بننے کی بجائے اس سے دور رہتے ہوئے اپنی ساکھ بچا پاتی، اگر عدلیہ کے دامن پر اتنے داغ نہ ہوتے، اگر کچھ ایسا ہوتا، اے کاش۔ لیکن بمشکل دوسال کا عرصہ ہی گزرا ہے کہ اس تجربے کی ہنڈیا بیچ چوارہے میں پھوٹ گئی ہے۔ اب کیا ہوگا؟


”عمران خان کا دعویٰ کھوکھلا ہے کہ اگر حزب ِ اختلاف نے استعفے دے دیے تو وہ ضمنی انتخابات کرادیں گے۔ استعفوں سے پیدا ہونے والا آئینی بحران اپنی جگہ پر موجود رہے گا یا اس نظام کو بہاکر لے جائے گا۔ صرف یہی نہی، پی ڈی ایم یقینی طور پر احتجاج میں شدت لے کر آئے گی۔ اس کے لیے ہڑتال، دھرنے، مارچ، بائیکاٹ اور گھیراؤ سمیت تمام حربے آزمائے جائیں گے۔ چنانچہ سینکڑوں ضمنی انتخابات کا آزاد اور منصفانہ ماحول میں انعقاد ناممکن ہوجائے گا۔ اگر تحریک انصاف کے پاس اس کا جواب یہ ہے کہ وہ سب کو جیلوں میں ڈال دے گی تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ مرکزی دھارے کی بڑی جماعتوں کو 2018 ء میں تحریک انصاف سے دوگنا ووٹ ملے تھے۔ ان کے بغیر ہونے والے انتخابات جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈموں سے مختلف نہیں ہوں گے۔ نہ ان کی آئینی ساکھ ہوگی اور نہ ہی یہ دیر تک چلیں گے۔ اگر گلیوں میں تشدد تک نوبت چلی گئی جس کا خدشہ موجود ہے توپھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اپنی انتہائی غیر مقبولیت کی وجہ سے تحریک انصاف کو ایسے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے امیدوار بھی مشکل سے ہی ملیں گے۔


”اس حوالے سے دیکھیں تو ممکن ہے کہ وسیع تر قومی مکالمے کے تصور کے پیچھے کسی قدر خلوص اور مثالیت پسندی کا عنصر بھی ہو لیکن مجموعی طور پر یہ اسٹبلشمنٹ کی عدلیہ کی مدد سے نرم مداخلت ہے۔ درحقیقت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کی بات کی جارہی ہے تاکہ اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ سمیت اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بات چیت ہوسکے لیکن پی ڈی ایم اس تجویز کو مسترد کردی گی۔ اسے شکایت ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ اس وقت کھل کر موجودہ بندوبست کے سرپرست بن چکے ہیں۔ اپنی متنازع حیثیت کے ساتھ وہ مسلے کا حل نہیں، اس کا حصہ ہیں۔


”درحقیقت پی ڈی ایم کا مطالبہ وسیع تر قومی مکالمے کی تجویز کے برعکس ہے۔ حزب اختلاف کا مطالبہ ہے کہ مکالمہ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے درمیان ہو تاکہ منتخب شدہ پارلیمنٹ اور حکومت کے آئینی اختیارات اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کی مداخلت سے پاک کیے جاسکیں۔گویا بار بار کی سیاسی انجینئرنگ کا تدارک کرنے کے لیے پی ڈی ایم ایک طرح کا نیا میثاق جمہوریت چاہتی ہے۔


”موجود ہ صورت ِحال خطرناک ہے۔ اگر پی ڈی ایم متحد رہ کر تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے سامنے مزاحمت نہیں کرپاتی تو ملک پر معاشی بدحالی اور سیاسی غیر یقینی پن کی فضا طاری رہے گی۔ اس سے قومی بحران مزید گہرا ہوجائے گا۔ لیکن اگر یہ عمران خان کو کسی نہ کسی طرح گھر بھیجنے میں کامیاب ہوجاتی تو بھی اسے 2007 ء کے بنگلہ دیشی ماڈل کی طرز پر نرم مداخلت کے لیے تیار رہنا پڑے گا جس نے ایمرجنسی بٹن دبا کر اپنا دائرہ کار بڑھالیا تھا۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.