خارجہ پالیسی کی ناکامی

خارجہ پالیسی کی ناکامی

”پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کئی ایک محاذوں پر بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ لیکن ہم اس چیلنج سے نمٹ کر آگے بڑھنے کی اہلیت سے عاری ہیں۔


”صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پاک امریکا تعلقات محض امریکا کی افغان پالیسی کے کھونٹے سے بندھے رہے۔ افغانستان سے ”باعزت“واپسی میں مدد دینے کے عوض امریکا نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا پیکج منظور کرایا اور ایف اے ٹی ایف میں نرمی کی۔ نئے منتخب شدہ صدر، جو بائیڈن ممکنہ طور پر پاکستان سے طالبان پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کریں گے تاکہ وہ غنی حکومت کے ساتھ شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر راضی ہوجائیں۔ اور پاکستان یہ نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سیاسی، انسانی اور میڈیا اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی درست کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ اس پر بھی موجودہ ”ہائبرڈ بندوبست“ مزاحمت کرے گا کیوں کہ یہ جبر کے ذریعے ہی اپنا بچاؤ کیے ہوئے ہے۔ ڈیموکریٹس کا تاریخی طور پر بھارت کی طرف جھکاؤ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب پاکستان کے لیے واشنگٹن میں ہمدردی کا لیول مزید سمٹ جائے گا۔ پاکستان کے سامنے چیلنج ایک مستحکم تزویراتی شراکت داری کا تعین کرنا ہے جو ناہموار، عارضی اور جزوقتی اقدامات سے بلند ہو۔ لیکن اس ضمن میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔


”اس وقت پاک بھارت تعلقات پست ترین سطح پر ہیں۔ پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکوں اور افغانستان سے سرائیت کرکے آنے والے تحریک طالبان پاکستان کے عناصر کی دھشت گردی کے پیچھے بھارتی”ہاتھ“ مزید واضح دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان نے بھارت کی اس ”جارحانہ دفاعی ڈاکٹرائن“ کا ثبوت اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پیش کیا ہے۔اس طرح مسلح تصادم کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ تصادم کی صورت میں بھارت کی نسبت کا پاکستان کا کہیں زیادہ نقصان ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے عمران خان نے نریندر مودی پر ذاتی حملے کرکے پاکستان کی راہ میں مزید کانٹے بودیے ہیں۔


”تاہم پاکستان کی سب سے بڑی ناکامی عمران خان کی مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی ہے۔ حالیہ دنوں پاکستان کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات میں شدید گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ افسوس ناک صورتِ حال پاکستان کے مفادات کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ صرف دوسال پہلے سعودی شہزادے محمد بن سلمان اسلام آباد میں تھے۔ اُنہوں نے گوادر میں دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ کئی بلین ڈالر مالیت کے تیل کی فراہمی پر موخر ادائیگی کی سہولت دی تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے پاکستان کے پاس رقم ڈپازٹ کرائی تھی۔ لیکن گزشتہ چھے ماہ کے دوران ترکی، ایران اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر اوآئی سی مخالف بلاک بنانے کی عمران خان کی تباہ کن کوشش نے تمام خیر سگالی کا خاتمہ کردیا۔ مذکورہ ممالک کے راہ نما نہ صرف پرنس محمد بن سلمان سے مخاصمت رکھتے ہیں بلکہ ان کی پاکستان کے لیے تزویراتی یا مالی اہمیت بھی نہ ہونے کے برابرہے۔


”اب سعودی عرب سے انتہائی قربت رکھنے والی خلیجی ریاستوں نے پاکستان سے افرادی قوت حاصل کرنا موقوف کردیا ہے۔ پاکستانی زرِ مبادلہ کا ایک بڑا حصہ انہی محنت کشوں کی بھجوائی گئی رقوم پرمشتمل ہوتا تھا۔ بہت جلد سعودی عرب اور امارات میں پاکستانی افرادی قوت کی جگہ بھارتی لے لیں گے۔ اور ایسا اس وقت ہونے جارہا ہے جب یہ خطہ ثقافتی پابندیوں کو نرم کرکے اپنی معیشت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول رہا ہے۔ پاکستان کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوسکتی ہے کہ نائیجریا میں اوآئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کی درخواست پر کشمیر پر بحث تو کجا، اسے ایجنڈے پر رکھنے سے ہی صاف انکار کردیا گیا۔


”اچانک اسرائیل اور سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے درمیان خفیہ لیکن اہم سرگرمی شروع ہوچکی ہے۔ یہ سرگرمی کچھ ممکنہ اہم واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب بھی خلیجی ریاستوں اور بحرین کی طرح اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے جارہا ہے۔ گمان ہے کہ اس وقت تمام فریق ٹرمپ انتظامیہ کی سرپرستی میں اپنے اپنے دفاعی اور معاشی امکانات کو تقویت دینے کی کوشش میں ہیں۔ مذہبی قیادت رکھنے والا ایران ان کا مشترکہ دشمن ہے، لیکن بائیڈن انتظامیہ میں ایران کو بھی ریلیف مل سکتا ہے۔ اس سے پہلے ٹرمپ دور میں ایران کو متواتر پابندیوں کا سامنا تھا۔ ان حالات میں اگر سعودیوں کے ساتھ مل کر اسرائیلی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے صدر بائیڈن کی طرف سے ایران کو دیے جانے والے ممکنہ ریلیف کو بے اثر کردیتے ہیں تو یہ خطہ ایک بھیانک صورتِ حال سے دوچار ہوجائے گا۔ پاکستان کے لیے وہ صورتِ حال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہوگی۔ رائے عامہ ایران پر جارحیت کرنے والوں کے خلاف ہونے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی مزیدمشکلات کا شکار ہوجائے گی۔


”اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے لیے پاکستان پر آنے والا دباؤ دراصل دنیا کے اس حصے میں طاقت کے تبدیل ہوتے ہوئے قالب کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ کوئی پاکستانی سیاست دان بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے بارے سوچنے کی جرات نہیں کرسکتا تاوقتیکہ فلسطینی دوریاستی حل پر راضی ہوجائیں، لیکن پاکستانی اسٹبلشمنٹ اس پر زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ رکھتی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے اسرائیل کی طرف سے بھارت کو فوجی ٹیکنالوجی، ٹریننگ اور انٹیلی جنس کے تبادلے کی سہولت کو برہم کیا جاسکتا ہے، نیز اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے نتیجے میں امریکا کی طاقتور یہودی لابی کو بھارت کو یک طرفہ فوائد پہنچانے کی بجائے پاکستان کی امداد کے لیے راضی کیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ آگے چل کر کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر عالمی دباؤ ڈالا جا سکے۔


”لیکن پاکستان کا کشمیر اور اسرائیل کا فلسطین سے جڑا مسلہئ اصل رکاوٹ ہے۔ پاکستان کشمیر پر اصرار کرتے ہوئے فلسطین پر اپنے موقف سے کس طرح دست بردار ہوسکتا ہے؟ 2005 ء میں جنرل پرویز مشرف نے بھارت اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولتے ہوئے کشمیر اور فلسطین پر پاکستان کے موقف کو آگے بڑھایا تھا۔ بدقسمتی سے اُن کی علاقائی امن اور معاشی فوائد کے لیے کی گئی پیش رفت پاکستان اور پھر بھارت میں اٹھنے والے سیاسی طوفان کی نذر ہوگئی۔ آج ہم اپنی انتہائی کمزوری کے لمحے میں ایک طوفان کی طرف بڑھ رہے ہیں اورکوئی نہیں جانتا کہ ا س سے باہر کیسے نکلیں گے۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.