پابندِ سلاسل

پابندِ سلاسل

گزشتہ بدھ کو حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کسی بحث کے بغیر آٹھ بل زبردستی منظور کرالیے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ تین بل۔۔ اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری وقف پراپرٹیز بل 2020  ، اینٹی منی لانڈرنگ(دوسرا ترمیمی بل) 2020 ، اینٹی ٹیرر ازم (تیسرا ترمیمی بل)  2020، ایف اے ٹی ایف کا مطالبہ، چنانچہ قومی مفاد میں تھے۔ اپوزیشن کا موقف تھا کہ ان بلوں کی کچھ شقوں کا تعلق ایف اے ٹی ایف سے ہرگز نہیں تھا۔ دراصل ان کا مقصد حکومت کے ناقدین کو ہدف بنانا تھا۔ اس سے پہلے یہ تینوں بل قومی اسمبلی نے منظور کیے تھے لیکن سینٹ نے مسترد کیے۔


پارلیمان کا مشترکہ اجلاس سیاسی طور پر بہت اہم تھا۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ رائے شماری کے روز اپوزیشن کے 36  اراکین غیر حاضر تھے جس کی وجہ سے حکومت کے 200   اراکین کے مقابلے میں حزب اختلاف کے 190 اراکین رہ گئے۔کہا جاتا ہے کہ حزب اختلاف کے بہت سے اراکین کو پراسرار فون کالز وصول ہوئیں اور اُنہیں غیر حاضر رہنے کی ہدایت کی گئی۔ اس سے حکومت کی سکت سے زیادہ حزب اختلاف کی لاچاری کا اظہار ہوتا ہے۔ درحقیقت اجلاس کے بعد حزب اختلاف اپنی اکثریت ظاہر کرنے میں ناکامی کی وضاحت کرنے اور غچہ دینے والے ممبران کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے سپیکر کے ”غیر جمہوری رویے“ کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔


ان حالات میں بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی دھمکی محض ایک کھوکھلا بیان ہے کیونکہ قومی اسمبلی میں حکومت اکثریت رکھتی ہے۔ اپوزیشن کل جماعتی کانفرنس بلانے جارہی ہے۔ اس میں حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے بھرپور طریقہ اختیار کرنے پر غور ہوگا۔ لیکن اس میں وہی منفی جذبات غالب دکھائی دیتے ہیں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی، دونوں کمزور ہیں۔ ان کے کچھ اہم رہنما نیب کے شکنجے میں ہیں؛ کچھ دیگر عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے کے ہاتھ پاؤں مارہے ہیں۔


تحریکِ انصاف کی بدانتظامی پر عوامی غصے کے باوجود حزب اختلاف کی کوئی بھی جماعت اُس طرح کی احتجاجی تحریک چلانے کے حق میں نہیں جیسے دھرنوں کی صورت نون لیگ کی حکومت کے خلاف عمران خان نے چلائی تھی۔ صرف مولانا فضل الرحمن کا موڈ کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔اُنھوں نے گزشتہ نومبر کو اسلام آباد کی طرف پرجوش ملین مارچ کیا تھا۔ اگر پیپلز پارٹی اور نون لیگ ان کا ساتھ دیں تو وہ دوبارہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن ناراض ہیں؛ اُن کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی تھی؛ اُنہیں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے مایوس کیا تھا اور وہ جانتے ہیں کہ وہ دوسرے راؤنڈ میں اُن پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ پارلیمنٹ میں افسوس ناک کارکردگی کے بعد اب ان جماعتوں پر کیسے تکیہ کیا جاسکتا ہے؟


 اس دوران عمران خان پوری طاقت دکھارہے ہیں۔ اُن کی حکومت سندھ میں گورنر راج لگانے کی دھمکیاں دی رہی ہے تاکہ پیپلز پارٹی کو قابو میں رکھا جاسکے۔ اب اس نے شریفوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کردی ہے۔ نواز شریف کو قانون سے بھگوڑا قرار دیا جاچکا ہے۔ نواز شریف اور اُن کے خاندان کے خلاف شکنجہ کسا جارہا ہے۔ عمرشیخ کو سی سی پی او لاہور مقرر کرنے کا مقصد مریم نواز اور اُن کے جذباتی حامیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے طاقت استعمال کرنا ہے۔


اپوزیشن کی بدقسمتی ہے کہ مرکزی دھارے کا میڈیا بھی گھٹنے ٹیک چکا۔ ایک طرف پیمراپورے جارحانہ انداز میں ٹی وی چینلوں اور اینکروں کو جرمانے کررہا ہے۔ کچھ پر پابندی لگائی جارہی ہے۔ دوسری طرف حکومت نیب پر بھرپور دباؤ ڈال کر اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس، جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کی حراست دیگر کو سبق سکھانے کے لیے ہے کہ وہ اپنی زبان بندرکھیں۔ صرف یہی نہیں؛ سوشل میڈیا کارکنوں کی باقاعدگی سے ”کھلی گمشدگی“ نے بہت سے ناقدین کو خوفزدہ کردیا ہے۔ جو نوشتہ ئ دیوار سے سرتابی کی جسارت رکھتے ہیں اُنہیں ریاست سے غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔ حکومت یا مسلح افواج کی کسی بھی حوالے سے ہتک کرنے پر سزا تجویز ہوچکی۔انیسویں صدی کے برطانوی راج میں نافذ کیے جانے والے غداری کے قانون کو سی پی سی سے نکالنے کے لیے پیپلز پارٹی کے سینٹر رضاربانی کے سینٹ میں پیش کردہ بل کو حکومتی تجاویز نے دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ ایک پرائیویٹ ممبر کے پیش کردہ بل پر کی گئی قانون سازی کسی بھی ایسے ناقد کو قید اور بھاری جرمانے کی سزا تجویز کرتی ہے۔


 آئین پاکستان آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے تا وقتیکہ ملک کی سلامتی، سکیورٹی اور دفاع کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ لیکن ریاستی اداروں اور افسران پر جائزتنقید اور اظہار رائے پر کہیں بھی پابندی نہیں ہے، خاص طور پر جب اس کے اراکین سیاسی کھیل کھیلتے ہوئے خود کو اور اپنے ادارے کو متنازع بناتے ہیں۔ یہ مجوزہ بل سی پی سی اور پی پی سی میں ترمیم کرتے ہوئے ایسے کسی بھی شخص کے لیے سزا تجویز کرتا ہے جو دانستہ طور پر پاکستان کی مسلح افواج یا اس کے کسی ممبر کا مذاق اُڑاتا یا بدنام کرتا ہے۔


یاد رہے کہ یہ وہ ملک ہے جس پر آزادی سے لے کر اب تک زیادہ تر عرصہ آمروں نے بلااحتساب حکومت کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا کردار اور آئین کی پاسداری سنگین سوالیہ نشانات کی زد میں رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کس طرح یہ قانون ملکی مفاد یامفاد عامہ کا تحفظ کرے گا؟دنیا بھر میں جمہوریتوں نے بلا امتیاز احتساب کے قوانین بناتے اور نافذ کرتے ہوئے قومی اور عوامی مفاد میں توازن کرنا سیکھ لیا ہے۔ لیکن میڈیا اور حز ب اختلاف کو زنجیروں میں جکڑتے ہوئے عمران خان کی حکومت میں پاکستان بدترین فسطائیت کی طر ف بڑھ رہا ہے۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.