کہیں چال الٹی نہ پڑ جائے

کہیں چال الٹی نہ پڑ جائے

ایک غیر متوقع تیز و تند بیان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلامی ممالک کی تنظیم، اوآئی سی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اس نے کشمیر پر ہمارے موقف کی حمایت نہیں کی۔ اُنھو ں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سعودی قیادت میں اس تنظیم نے کشمیر کاز کی حمایت سے گریز جاری رکھا تو وہ وزیرِاعظم عمران خان کو اسلامی ممالک کی ایک الگ تنظیم کے قیام کا مشورہ دیں گے۔ وزیرِ خارجہ نے ایران، ترکی، ملائیشیا وغیرہ کا ذکر کیا کہ یہ ممالک کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔


یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ گزشتہ سال کے اختتام کے قریب اسلامی ممالک کے ایسے ہی اجتماع میں پاکستان نے سعودی دباؤ کی وجہ سے شرکت نہیں کی تھی۔ اُس وقت عمران خان کو سعودی دباؤ بہت ناگوار گزرا تھا۔ گزشتہ سال اگست میں کشمیر پر بھارت کے قبضے کے بعد اسلام آباد کو شدید مایوسی ہوئی کیونکہ اوآئی سی نے اس مسلے پر وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس بلانے سے انکار کردیاتھا۔


چونکہ پاکستان کی سکیورٹی اسٹبلشمنٹ کی سعودی عرب پر تنقید کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قریشی صاحب نے بلاسوچے سمجھے بیان داغ دیا ہے۔ تاہم پس ِ منظر میں پیش آنے والے واقعات کا حقیقت پسندانہ جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ وزیر اعظم کی مرضی شامل تھی کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پہلے ہی انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ تعلقات میں بگاڑ وزیرِخارجہ کے بیان کی وجہ سے نہیں بلکہ بیان کی وجہ سعودی عرب کی سرد مہری پر جھنجلاہٹ ہے۔


جولائی 2018  ء میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد اسٹبلشمنٹ نے اُنہیں فوراً سعودی شاہی خاندان کو سلام کرنے اور مالی امداد کی درخواست کرنے کے لیے ریاض جانے کا مشورہ دیا تھا۔ عمران خان قدرے تذبذب کا شکار تھے لیکن اُنہیں احساس ہوگیا کہ یہ ضروری ہے۔ سعودیوں نے اس ہچکچاہٹ کو محسوس ضرورکیا تھا لیکن چند ارب ڈالر پاکستان کے خزانے میں ڈال دیے۔ فروری 2019  ء میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اسلام آباد کا دورہ کرتے ہوئے بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیش کش کی۔ اس میں گوادر پر تیل صاف کرنے والا کارخانہ لگانے کا وعدہ بھی شامل تھا۔


درحقیقت عمران خان نے سعودی ولی عہد سے درخواست بھی کی کہ وہ ستمبر 2019 ء کو اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر اُن کی صدر ٹرمپ سے مختصر ملاقات کا اہتمام کردیں۔ سعودیوں نے صدر ٹرمپ کے داماد جیراڈ کشنور کے ذریعے یہ پیغام پہنچا دیا۔ ذاتی طور پر تعاون کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان نے نیویارک جانے کے لیے عمران خان کو اپنا ذاتی جہازبھی فراہم کردیا۔


بدقسمتی سے جس وقت پاک سعودی تعلقات بہتری کی طرف گامزن تھے،عمران خان کو ایران، ترکی اور ملائیشیا کی محبت ستانے لگی۔ سعودی مخالف کیمپ سے قربت، خاص طور پر او آئی سی، جس کی قیادت سعودی عرب کے پاس ہے، کے مقابلے میں ایک اور اسلامی تنظیم قائم کرنے کے تصورسے منفی تاثر چلا گیا۔ ولی عہد محمد بن سلمان عمران خان کی سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کی یک طرفہ کوششوں کے دعووں سے بھی ناراض تھے۔ سعودی شاہی طیارہ جو عمران خان اور اُن کے ذاتی رفقا کو نیویارک لے کر گیا تھا اُس کا واپسی پر راستے سے رخ موڑ کر ان سے لے لیاگیا۔ چنانچہ تمام وی آئی پی مسافروں کو ایک اور نجی طیارے میں واپس آنا پڑا۔ اس کے بعد سعودیوں نے پاکستان پر کوالا لمپور میں مجوزہ اسلامی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا اورعمران خان کو گھٹنے ٹیکنا پڑے۔اس پسپائی نے عمران خان کا مزاج بھی برہم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں نے سعودیوں کو اُس وعدے کی یاد دہانی نہیں کرائی جس کے مطابق اُنھوں نے ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی تھی۔


ایک سال پہلے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داوں کو باضابطہ طور پر مسترد کردیا۔ سات عشرے پہلے سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرار دادیں کشمیر میں استصواب رائے کی تجویز پیش کرتی ہیں تاکہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جاسکے کہ کیا وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ کشمیر پر قبضے کے ایک سال بعد آج مودی نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مندر کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے اُنھوں نے بھارتی سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرہونے والے چیف جسٹس کو انعام کے طور پر پارلیمان کی راجیہ سبھا میں شامل کیاکیونکہ اُس چیف جسٹس نے مودی کو یہ کچھ کرگزرنے کا قانونی جواز فراہم کیا تھا۔


نریندر مودی نے کئی ایک قوانین منظور کرائے ہیں، جیسا کہ شہریت بل اور نیشنل رجسٹر ایکٹ۔ یہ قوانین اُنہیں بھارت کو ایک ہندو ریاست بناتے ہوئے ملک کی اہم ترین اقلیت، مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کے قابل بناتے ہیں۔ اس دوران مودی نے لائن آف کنٹرول کو گرم رکھتے، سٹریٹیجک اسٹرائیک کی دھمکی دیتے اوراپنی فضائیہ کو مزید طاقتور بناتے ہوئے پاکستان کو دفاعی قدموں پر جانے پر مجبور کردیا۔ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف اور پراکسی دھشت گردی کے ذریعے بھی دباؤ ڈال رکھا ہے۔ اسی طرح پرنس محمد بن سلمان کے ذریعے کشمیر کو او آئی سی کے ایجنڈے سے نکال دیا گیا ہے۔


بدقسمتی سے پاکستان پریشانی اور مایوسی کا شکار ہے۔ پریشان اس لیے کہ وہ بھارت کے اقدامات کا جارحانہ جواب نہیں دے سکتا۔ مایوس اس لیے کہ مغربی دنیا تو ایک طرف، اوآئی سی بھی کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کی مذمت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ پاکستان بس یہی کچھ کرسکتا تھا کہ گھر بیٹھ کر پاکستان کا نیا نقشہ تیار کرنے کو علاقے کی فتح قرار دے اور خوش ہوجائے۔ زیادہ سے زیادہ چین سے درخواست کرسکتا تھا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا کشمیر پر ’دیگر امور کے تحت‘ پندرہ منٹ کا ایک اجلاس بلا لے۔


شاہ محمود قریشی کے جچے تلے غصیلے جذبات کے اظہار سے پہلے یہ بات علم میں آچکی تھی کہ پاکستان نے سعودی عرب کو اس کے ایک بلین ڈالر واپس کردیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے تازہ ترین پیغام سے کچھ فائدہ ملتا ہے یامعاملات میں مزید بگاڑ آتاہے۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.