!یہ معاملے ہیں نازک

!یہ معاملے ہیں نازک

گزشتہ ہفتے پنجاب اسمبلی نے ”تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ“ متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ بظاہرا س کا مقصد صوبے میں شائع ہونے والی کتابوں میں ”قابل اعتراض مواد“ کو روکنا ہے۔ ایسا ”قابل اعتراض مواد“جو دھشت گردی، فرقہ واریت، نسل پرستی، بین المذاہب منافرت کو ابھارتا ہو؛ نظریہ  پاکستان، ملکی سلامتی، سا  لمیت اور خودمختاری کے لیے خطرناک ہو؛  اور پیغمبرِ آخر حضرت محمد ﷺ کی توہین کا پہلو لیے ہوئے ہو۔ دیکھا جائے گا کہ کیا یہ مواد اخلاقیات کے روایتی معیار پر پورا اترتا ہے اور کیا اس میں فحاشی اور عریانی تو نہیں؟  لیکن ابھی مسودے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ شدید عوامی ردِ عمل نے پنجاب حکومت کو اسے گورنر پنجاب کے پاس منظوری کے لیے بھجوانے سے روک دیا۔


جہاں تک ”توہینِ رسالت“ رکھنے والے قابلِ اعتراض مواد کا تعلق ہے تو تعزیراتِ پاکستان کی کئی ایک دفعات پہلے ہی اس کو کور کرتی ہیں۔ اس کے بعدقانون کی خلاف ورزی کا تعین کرنے کے لیے ڈائریکٹر جنرل تعلقاتِ عامہ کو اختیار دیا گیا ہے جو خود درمیانے درجے کا سرکاری افسر ہے اور اس کام کی اہلیت سے عاری ہے۔ اُسے اسلام سے لے کر موسیقی کی دھنوں، چارٹس اور نقشوں تک، شائع اور صوبے میں درآمد کی جانے والی ہر کتاب کا جائزہ لینے کا کا م سونپا گیا ہے۔ ان کتابوں کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔


مذکورہ ایکٹ پیغمبرِآخر الزماں ﷺ کے خاندان، اولاد، صحابہ، خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی کے ساتھ مخصوص القاب کی پابندی تجویز کرتا ہے۔ ان میں سے کچھ القاب اہل ِ تشیع کے لیے قابل ِقبول نہیں، چنانچہ اس ایکٹ کے نفاذ سے مسلکی تناؤ شدید تر ہونے کا خدشہ ظاہرکیا جارہا ہے۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کو یہ مسودہ آگے بڑھانے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ جائے حیرت ہے کہ معزز ایوان میں سے کسی نے اس بل کی خامیوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟


 اس کے علاوہ قومی اسمبلی نے بظاہر ایف اے ٹی ایف کی ہدایت پر اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے انسدادِ منی لانڈرنگ بل منظور کیا ہے۔ اپنی اصل شکل میں یہ قانون ریاستی اداروں کو مشتبہ افراد کو 180 دنوں کے لیے حراست میں رکھنے کا اختیار دیتا ہے۔ یہ شق سیاسی مقاصد کے لیے مخصوص اہداف کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔ اپوزیشن کے شور مچانے پر حراست کی مدت 90   تک کردی گئی۔ ابھی بھی یہ قانون مبہم ہے کیونکہ اس میں غیر معیاری تحقیقات کے نتائج پر تکیہ کیا گیا ہے۔


مجوزہ نیب قانون پر حکومت اور حز ب اختلاف کے درمیان تیز و تند بحث جاری ہے۔ حکومت سرکاری افسران اور کاروباری افراد کو کچھ سہولت دینے کے لیے تیار ہے لیکن سیاست دانوں کو نہیں۔ حکومت کی شہ پر نیب پریشانی پیدا کرنے والے سیاست دانوں کا تعاقب کرنے جبکہ حکومتی صفوں میں شامل بدعنوان عناصر سے اغماض برتنے کی پالیسی رکھتا ہے۔ نیز چیئرمین نیب کی پہلے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے سخت الفاظ میں سرزنش کی ہے کیونکہ فاضل عدالت کو نیب کی کارکردگی میں شفافیت، غیر جانبداری اور صلاحیت کا فقدان دکھائی دیا ہے۔


اس دوران بوکھلائی ہوئی حزب اختلاف یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ تحریک ِانصاف کی حکومت کب اور کس طرح ختم کرنی اور اس کے بعد حکومت کون سنبھالے گا؟  پیپلز پارٹی ایوان کے اندر تبدیلی چاہتی ہے تاکہ قومی اتفاقِ رائے سے مرکزمیں حکومت تبدیل ہو لیکن سندھ میں اس کی حکومت بچ جائے۔ مسلم لیگ ن بھی ایوان کے اندر، مرکزاور پنجاب دونوں میں تبدیلی چاہتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام خیبرپختونخواہ خیبرپختونخواہ میں ایوان میں تبدیلی چاہتی ہے تاکہ وہ صوبے میں مخلو ط حکومت بنا سکے۔


اس کے علاوہ ایک الجھاہوا سوال ہے کہ ملک میں تازہ انتخابات کب ہونے چاہییں؟ پاکستان مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ اگلے  برس مارچ میں سینٹ کے انتخابات سے پہلے ہی عام انتخابات ہوجائیں تاکہ وہ اپنی موجودہ مقبولیت کو انتخابی کامیابی میں ڈھال کر سینٹ اور قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرسکے۔ یہ معاملات کسی وسط مدتی حکومت پر اتفاقِ رائے کی راہ میں سخت رکاوٹ ہیں۔


ایک بات یقینی ہے کہ اسٹبلشمنٹ پاکستان تحریک انصاف کی نااہلی اور نالائقی سے تنگ آچکی ہے۔ تمام خرابیوں پر انگشت نمائی اسی کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ یہی اسے اقتدار میں لائی تھی اور اسی نے اسے اب تک سہارا دے رکھا ہے۔ لیکن اسٹبلشمنٹ کو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت پر اعتماد نہیں کہ اگر ان دونوں جماعتوں کو اقتدار میں لایا جاتا ہے تو وہ اس کی مرضی پر چلیں گی یا نہیں۔ درحقیقت اسے خدشہ ہے کہ اگر یہ دونوں جماعتیں یا ان میں سے کوئی ایک جماعت بھی تحریکِ انصاف کی طرح ناکام ہوگئی اور اگر ن لیگ کے پرانے اسٹبلشمنٹ مخالف عناصر ایک بار پھر سامنے آگئے تو اس کے لیے آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی بات ہوگی۔ یہ بھی معلوم حقیقت ہے کہ اسٹبلشمنٹ اس قدرگہرے معاشی اور صحت کے بحران کے دوران تازہ عام انتخابات کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔بھارت اور افغانستان کے ساتھ سرحدی تناؤ اور معیشت اور صحت کے بحرانوں کی وجہ سے ریاست نازک حالات سے دوچار ہے۔ صورت حال کسی بھی وقت دھماکہ خیز ہوسکتی ہے۔


 کیا تحریکِ انصاف کی ٹیم کے اہم اراکین کو برطرف کیا جانا یا اُن کا چھوڑ کر چلے جانا یا مجوزہ کل جماعتی کانفرنس سے آنے والے وقتوں کے اشارے ملتے ہیں؟ تبدیلی ہو یا نہ ہو، وقت نازک بھی ہے اور ہنگامہ خیز بھی۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.