مائنس ون

مائنس ون

تجزیے کیے جارہے تھے کہ آگے بڑھنے کے لیے مائنس ون فارمولے یا متبادل کی ضرورت خارج ازامکان نہیں کہ تردید کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اس تجزیے کی ساکھ بڑھا دی ہے۔ایوان کے اندر سے تبدیلی آئے گی جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوجائے یا وزیر اعظم کو گھر کا راستہ دکھا کر   ”قومی“، یا ”وسط مدتی“ یا ”اتفاق رائے“ سے وجود میں آنے والی حکومت اور وزیراعظم اقتدار سنبھال لیں گے؟ ایک مرتبہ پھر ایسی سیاسی انجینئرنگ کی ضرورت اس لیے پیش آرہی ہے کیونکہ ریاست کے اہم حلقوں اور معاشرے میں یہ احساس گہرا ہوتا جارہا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی میں صلاحیت کا انتہائی فقدان ہے۔  پاکستان کو درپیش پیچیدہ مسائل سے نمٹنا اُن کے بس کی بات نہیں۔ نیز جب سے پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی ہے، پاکستان مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔


پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی دکھانے میں ناکامی کئی ایک عوامل سے منسوب کی جارہی ہے۔ پہلا تو عمران خان کا دو مرکزی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کے قائدین کو تباہ کرنے کا جنون ہے۔ یہ دونوں جماعتیں اُس سے دگنے ووٹ رکھتی ہیں جو پاکستان تحریک انصاف گزشتہ انتخابات میں لینے میں کامیاب ہوئی تھی۔ عمران خان کی یہ سوچ اندرونی اور بیرونی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے درکار قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے راستے میں رکاوٹ ہے۔


دوسرا یہ کہ عمران خان باصلاحیت پیشہ ورماہرین کی ایسی ٹیم میدان میں نہیں اتار سکے جو معیشت، انتظامیہ، گورننس اور کوویڈ 19  جیسے مسائل کا حل نکال پاتی۔ تیسرا عامل یہ ہے کہ عمران خان سامنے آکر قیادت کرنے اور اپنی ٹیم کو حوصلہ دیتے ہوئے متحد رکھنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ چوتھا،کپتان اور اُس کے سلیکٹرز کے درمیان جسم وجان کا رشتہ کبھی ”ایک صفحے پر ہونے“ کے ورد سے مضبو ط ٹیم کا تاثر دیتا تھا،لیکن اب یہ رشتہ ادھڑنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ عوام میں گہرا ہونے والا تاثر ہے کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے کی ذمہ داری سلیکٹرز پر عائد ہوتی ہے۔ وہ اپنی کٹھ پتلی سے دستبردار ہوتے ہوئے کسی اور متبادل کو موقع دینے پر مجبور ہورہے ہیں۔


اس دوران عمران خان کا اصرار ہے کہ سلیکٹرز کے پاس اُن کے سواکوئی اور متبادل نہیں۔ جواز یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ اور اُن کے رہنما عوام کی نظروں میں اتنے بے وقعت ہوچکے ہیں (اس کی ایک وجہ عمران خان کا اپنے حریفوں کے خلاف کیا گیا بے پناہ پراپیگنڈا ہے)کہ سلیکٹرز کی نگاہ میں اُن کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ گویا سلیکٹرز مسائل کو ان کا حل سمجھنے کی غلطی کرتے رہیں۔


عمران خان کو یقین ہے کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت میں ایسا کوئی نہیں ہے جو اگروفاداری تبدیل کرتے ہوئے خود کو وزارت اعظمیٰ کا امیدوار قرار دے تو اُن کے نوجوان حامی اُس پر اعتماد کرلیں۔ اُنہیں اس بات کی بھی فکر نہیں ہے کہ حزب مخالف اُن کے خلاف کوئی احتجاج کرے گی کیونکہ وہ نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے کسی بھی رہنما کو اُٹھاکر جیل میں پھینک سکتے ہیں۔


اس کے علاوہ اسلام آباد میں ایوان کے اندر سے آنے والی تبدیلی کے راستے میں ابھی بہت سے ناقابل حل مسائل باقی ہیں۔ کیا نئی حکومت وسط مدتی ہوگی جو صرف چند ماہ کے آکر تازہ انتخابات کرائے گی؟ یا وہ موجودہ پارلیمنٹ کی آئینی مدت کے تین سال پورا کرے گی؟ اتفاق رائے سے وزیر اعظم کون بنے گا؟ کابینہ کیسے تشکیل پائے گی؟ پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی حکومتوں کا کیا بنے گا؟ تازہ انتخابات جب بھی ہوں گے کس طرح شفاف ہوں گے؟ سلیکٹرز کے ساتھ کھیل کے نئے اصول کس طرح طے کیے اور مانے جائیں گے؟ اگر عمران خان خود کو نکالے جانے یا حکومت تبدیل کرنے کو قبل از وقت بھانپ گئے تو کیا وہ ملک کو مزید سنگین بحران سے دوچار تو نہیں کردیں گے؟ بلاشبہ جس وقت بھارت لائن آف کنٹرول پر آنکھیں دکھارہاہے اور ملک کوکوویڈ 19 نے بے دم کررکھا ہے، تو مقام فکر ہے کہ کیا ابھی حکومت کو تبدیل کرنا بہتر ہوگا یاکوئی اور مناسب وقت دیکھ کر ایسا کیا جائے۔ فواد چوہدری کے مطابق وقت یقینا عمران خان کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ بقول فواد چوہدری اُن کے پاس معاملات درست کرنے کے لیے صرف چھے ماہ بچے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو نتائج کاسامنا کرنا پڑے گا۔


اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون صرف عمران خان کی رخصتی کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے کسی اور قابل ِاعتماد رہنما کے ساتھ کام کرلیں گے۔ تاہم قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے وقت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا۔ نیز انتخابات کے بعد شراکت اقتدار اورطرز حکمرانی پر بھی سلیکٹرز کی طرف سے کوئی فریم ورک تجویز نہیں کیا گیا ہے۔


یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان ایک اچھا سیاست دان بننے کے لیے تیار ہیں؟ کیا وہ ملک کو اس کثیر جہتی بحران سے نکالنے کے لیے قومی اتفاق رائے کی خاطر پی پی پی اور نون لیگ کے احتساب کے خبط پر قابو پانے کے قابل ہوجائیں گے؟کیا وہ توہم پرستی، عقیدے اور جن بھوت کی دنیا سے باہر نکل کر سیاسی فیصلے کرنے کے قابل ہیں؟کیا وہ اپنے کان بھرنے والے قریبی ساتھیوں سے جان چھڑا کر ملک کے بارے میں سوچ پائیں گے؟ کیا اُن کا اپنی صلاحیتوں پر اندھا اعتماد حقائق آشنا ہوسکے گا؟ اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے پھر یہ طے ہے کہ وہ اپنے ووٹروں اور اپنے سلیکٹروں کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہیں گے۔


دوبرسوں میں عمران خان نے دوعشروں کا سیاسی سرمایہ ضائع کردیا ہے۔ یہ سیاسی سرمایہ اُنھوں نے لگن، عزم اور موقع پرستی سے جمع کیا تھا۔ وہ اپنی چمک دمک کھو چکے ہیں جو اُن کے نوجوان حامیوں کے لیے باعث کشش تھی۔ اُن میں سے بہت سے تو عمران خان پر اعتماد کرنے اور اُنہیں ووٹ دینے کی دانائی پر سوال اُٹھارہے ہیں۔ سب سے ہم یہ کہ وہ اپنے سلیکٹر ز کی حمایت کھو بیٹھے ہیں۔ وہ اُن کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کی باتیں سن سن کر تنگ پڑنے لگے ہیں۔ ان حالات میں پلوں کے نیچے سے بہنے والا پانی اپنا مائنس ون کا دھارا خود ہی متعین کرسکتا ہے۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.