!ایک چنگاری کی دیر ہے

!ایک چنگاری کی دیر ہے

پانچ جنوری 1930ء کے واقعات پر ماؤ زے تنگ نے لکھا، ”ایک چنگاری جنگل کو بھسم کرسکتی ہے“۔ وہ نامساعد سیاسی حالات کے مقابلے میں اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ سترہ دسمبر 2010 ء کو تیونس کے ایک پھل فروش نے خود سوزی کرلی۔ اس سے تیونس میں انقلاب برپا ہوگیا۔ انہی واقعات سے اٹھنے والی بہارِ عرب نے خطے کی آمریتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ پچیس مئی 2020 ء میناپولس میں ایک غیر مسلح سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ ایک پولیس آفیسر کے ہاتھوں بے دردی سے ہلاک ہوگیا۔ اس سے امریکا بھر میں غیر معمولی احتجاجی مظاہروں اور ہنگاموں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ احتجاج کسی خاص علاقے، طبقے، جماعت، نسل اورگروہ تک محدود نہیں۔ اس نے امریکی صدارتی انتخابات کے سال طے شدہ سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک چیلنج لاکھڑا کیا ہے۔


ان میں سے کوئی واقعہ بھی بظاہر بھونچال لیے ہوئے نہیں تھا۔ ماؤ کا انقلابِ چین 1948 ء میں کہیں جا کر کامیاب ہوا تھا؛ تیونس پر چوبیس سال سے صدر زین العابدین بن علی کی آمریت مسلط تھی؛امریکا میں پولیس تشدد اور نسلی فسادات 1960ء کی دہائی سے ایک معمول ہیں۔ لیکن جس چیز نے مہمیز دی وہ حالات تھے۔ ہر موقع پر حالات ہنگامہ پرور تھے۔ سلگتا ہوا آتش فشاں پھٹ پڑنے کے لیے تیار تھا۔ بارود کا ڈھیر لگ چکا تھا؛ بس چنگاری کی دیر تھی۔ تو پھر کیا پتہ پاکستان میں بھی کب معروضی حالات کو داخلی عوامل الٹ کر رکھ دیں؟ کوئی چھوٹی سی چنگاری؟


معروضی حالات بن چکے ہیں۔ کوویڈ 19 نے سول ملٹری حکمران اشرافیہ کی نااہلی آشکار کردی ہے۔ اس نظام نے قرضے کی معیشت، عوام کی غربت، علاقائی عدم مساوات اورنسلی تناؤکو بڑھایا اور قوم کے اعتماد، حقوق اور انصاف کے تصورات کو پامال کیا ہے۔  نصف ملک گنوانے کے بعدطے پانے والے 1973 ء کے جمہوری آئین میں یہ سب کچھ ایک غیر معمولی بندوبست کی صورت موجود رہا ہے۔ لیکن ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے داخلی تناؤ کو کبھی بدعنوانی اور کبھی سیاسی موقع پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ مثال کے طور پر ذولفقار علی بھٹو نے 1971-72  کے واقعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ”نئے پاکستان“ کا نعرہ لگایا۔ کہا کہ نئے پاکستان کی بنیاد جمہوریت اور سوشلزم پر ہوگی۔ تاہم اُن کی مطلق العنانی نے محافظوں کو تختہ الٹ کر اُنہیں تختہئ دار پر پہنچانے کا موقع دے دیا۔ 2007 ء میں جج افتخار چوہدری نے اُس وقت کے فوجی آمر کے سامنے حرف ِ انکار بلند کیا۔ اس سے سول سوسائٹی میں ایک ایسی چنگاری پھوٹی جس نے آمر کو ایوان سے باہر نکال کر دم لیا۔ تاہم بعد میں جاہ طلبی اور خود پسندی نے اُسی جج کو خوش فہمی میں مبتلا کردیا کہ وہ خود آئین سے بالا تر ہے۔ اس زعم میں ایک منتخب شدہ وزیرِاعظم کو معزول کردیااور ایسا کرتے ہوئے اُنہی مفادات کے آلہ کار بن گئے جن کے خلاف اُنھوں نے خود مزاحمت کی تھی۔ 2013ء میں جمہوری طریقے سے ایک مرتبہ پھر منتخب ہونے والے وزیرِاعظم نواز شریف میں پرانی اسٹبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کے آثار ہویدا دکھائی دیتے تھے لیکن پھر ایک اور جج نے انصاف کا ترازو گاڈ فادر کی مرضی کی طرف جھکاتے ہوئے اُنہیں چلتا کردیا۔ آخر 2018 ء میں چور اور ڈاکو اشرافیہ کے خلاف ”نیا پاکستان“ کا نعرہ لگاکر عمران خان میدان میں آئے لیکن وہ دراصل اسی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں جمہوری روایات اور سیاسی آزادی کو کچلنے والا مہرہ ثابت ہوئے۔


دونوں سیاسی جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف کسی نہ کسی شکل میں کبھی نہ کبھی مزاحمت دکھائی ہے۔ تاہم اس کی وجہ ان جماعتوں کے انقلابی نظریات نہیں بلکہ ان کی قیادت کی ہنگامی اور جزوقتی سوچ تھی۔ دراصل ان جماعتوں کی سیاسی قیادت نے اسٹبلشمنٹ کی نرسری سے جنم لیا تھااور پھر وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور بد انتظامی کے سیاسی دھارے کے ساتھ بہنا سیکھ لیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے راہ نماؤں پر بھی یہی بات صادر آتی ہے۔چنانچہ خراب تر معروضی حالات داخلی جذبا ت کو بھڑکانے میں ناکام ہیں۔ عدلیہ کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے۔ یہ اسٹبلشمنٹ کی پیہم مداخلت کے سامنے اپنے کردار کی مضبوطی اور راست بازی کی ڈھال نہیں تان سکتی۔


داخلی طور پر بے حسی کا عالم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کی قیاد ت کو اسٹبلشمنٹ کے دباؤ پر نیب اور عدلیہ نے مفلوج کر رکھا ہے۔سیاسی جماعتیں غیر متحرک، بلکہ غیر فعال ہوچکی ہیں۔ وہ عوام کے جذبات بھڑکانے سے قاصر ہیں۔بدقسمتی سے دونوں میں سے کسی جماعت کی عمر رسیدہ اور بیمار قیادت سیاسی کنٹرول نوجوان راہ نماؤں کے ہاتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ نوجوان خاندان سے بھی ہوسکتے ہیں اور باہر سے بھی اوروہ مقتدرہ کو چیلنج کرنے کی قیمت ادا کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ بلاشبہ چور دروازوں سے ہونے والے بچاؤ کے مذاکرات نے اس کی سیاسی سکت ختم کردی ہے۔


اگر ہر کوئی یہ انتظار کررہا ہے کہ کوئی آکر یہ چنگاری گرائے گا اور عوامی جذبات شعلہ بار ہوجائیں گے اور پھر حالات کو سنبھالنے والے بھی آجائیں گے تو پھر یہ راکھ کریدنے اور سیاسی صورت ِحال پر لعن طعن کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہر معاشی اور سیاسی بحران کے موقع پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو غیر ملکی طاقتوں، خاص طورپر امریکا نے سہارا بھی فراہم کیا ہے اور بھاری بھرکم رقوم بھی۔ ان طاقتوں کے پیش نظر اس خطے میں اپنے تزویراتی مفادات کا تحفظ تھا۔


تاہم اب وہ دور ختم ہوا چاہتا ہے۔ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس چیلنج کا اظہار عدم مساوات، نسل پرستی، ماحولیاتی تبدیلی، صحت کی سہولیات اور شخصی آزادیوں کے لیے بلند ہونے والی آوازوں سے ہوتا ہے۔ عالمی سطح پرسامان رسد کا تعطل، تجارتی پابندیاں اورمعاشی انحطاط اسی چیلنج کی داخلی صورت ہے۔


اگر پاکستان نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے تو اسٹبلشمنٹ کو طاقت اور ہوس اقتدار سے گریز کرنا ہوگا۔ ورنہ اب کچھ دیر کی بات ہے جب کورونا کے بعد آنے والا سخت بجٹ کوئی ایک چنگاری گرادے گا اور جنگل میں آگ بھڑک اُٹھے گی۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.