سلیکٹڈ سولین دباؤ

سلیکٹڈ سولین دباؤ

خود کو پنڈی کا آدمی قرار دینے والے شیخ رشید نے خبردار کیا ہے کہ عید کے بعد ٹارزن آئے گا اور دائیں بائیں، سب کاصفایا کردے گا۔ چونکہ اپوزیشن تو پہلے ہی نیب کے نشانے پر ہے، توکیاشیخ صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ اب چیئرمین نیب حکومت میں موجود بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالیں گے؟


بلاشبہ یک طرفہ احتساب نے نیب کی ساکھ کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ چنانچہ ہم توقع کریں گے کہ پی ٹی آئی کے چند ایک بڑے ناموں کے خلاف بھی کچھ بے ضرر قسم کی انکوائریاں کی جائیں گی۔ لیکن کیا اس ”شفافیت“ کے نتیجے میں حکومتی زعما کے ساتھ بھی اپوزیشن جیسا برتاؤہوگا؟ کیا اُنہیں بھی حقِ ضمانت سے محروم کرکے طویل عرصے تک حراست میں رکھا جائے گا؟ مثال کے طور پر کیا نیب سنجیدگی سے پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کرکے مالم جبہ اور بی آرٹی کیسز دوبارہ کھولنے کی استدعا کرے گا؟ اس وقت ان کیسز پر حکم امتناع ہے۔ اس میں خیبرپختوانخواہ حکومت اور نیب کی چشم پوشی شامل ہے۔ ہمیں بہت پر امید نہیں ہونا چاہیے۔ حتیٰ کے گھاگ نشانہ بازوں کو بھی ذاتی حماقتوں پر بلیک میل کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ تاثر دیتے ہیں اُن کا اسلحہ ختم ہوگیا تھا۔


صرف نیب کا ریکارڈ ہی گدلا نہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اسی صف میں ہے۔ 2018 ء کے انتخابات کے دوران آر ٹی سسٹم میں کسی ”خرابی“ نے ”سلیکٹڈ“ وزیرِاعظم کو عہدے پر بٹھانے میں مدد دی۔ جب ناردا نے کہا کہ کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی تھی تو اُسے زبان بند رکھنے کا کہا گیا۔ سابق چیف الیکشن کمیشن سال بھر انکوائری کرتے رہے۔ اپنی ریٹائر منٹ سے پہلے انھوں نے پی ٹی آئی حکومت کو رپورٹ پیش کی جو آج تک سامنے نہیں آئی حالانکہ اپوزیشن اس پر پارلیمانی بحث کامسلسل مطالبہ کرتی رہی ہے۔


پی ٹی آئی کے بدنامِ زمانہ فارن فنڈنگ کیس کے ساتھ بھی یہی کچھ دیکھنے میں آیا۔گزشتہ پانچ برسوں سے پی ٹی آئی اور عمران خان پر آنچ تک نہیں آئی۔ سابق چیف الیکشن کمیشن نے ورق گردانی کی لیکن وہ اُن طاقتوں کے غضب کو دعوت دینے کا خطرہ مول نہ لے سکے جنہوں نے وزیرِاعظم کو چنا ہے۔ نئے سی ای او بھی کچھ شور کریں گے لیکن ہم ریٹائرڈ یا حاضر سروس ججز سے جرات کی توقع نہیں کرسکتے۔


 ایجنسیوں کا ریکارڈ بھی قابل ستائش نہیں۔ جے آئی ٹی کی انتہائی پہنچ متحدہ عرب امارات کا ”اقامہ“ تلاش کرنے اور نواز شریف کو نکال باہر کرنے تک تھی۔ اب یہی ایجنسیاں چینی اور گندم اسکینڈلز کاکھوج لگارہی ہیں۔ یہ ناقابلِ تصور تھا کہ وہ وزیر اعظم اور کابینہ کو قصور وار گردانیں گی کہ ملک میں چینی کی قلت کے زمانے میں برآمدکرنے کی اجازت یا پسندیدہ افراد کو بھاری سبسڈی کیوں دی گئی؟


اس کی بجائے رپورٹ نے نتیجہ نکالا کہ سیاست میں تمام کاروباری افراد، شوگر مل مالکان، اُن کے شراکت دار، حکومتی وزرا، کسان، حکومت، عوام وغیرہ سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ اور یہ کہ اس رجحان کو روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اسد عمر، رزاق داؤد اور خسرو بختیار کو کچھ جملے ناگوار گزرے ہوں گے۔ جہانگیر ترین کو اس رپورٹ میں بہت سی خامیاں دکھائی دی ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ممکن کہ دکھاوے اور تشہیر کی خاطر نیب کچھ مل مالکان کو طلب کرکے اُن کے ہاتھ میں طویل سوالنامہ تھما دے۔ لیکن کیا پی ٹی آئی یا اس کے اتحادیوں میں سے کوئی آنے والے مہینوں میں گرفتار ہوگا یا اُسے ضمانت سے انکار کیا جائے گا؟


اب ایک اور صدارتی آرڈیننس کسی خرابی کا پتہ دیتا ہے۔ کمپنیز ایکٹ 2017 ء میں ترمیم کی گئی ہے جبکہ پاکستانی شہری اور دہری شہریت رکھنے والے افراد جو کسی بھی سمندر پار کمپنی میں دس فیصد سے کم اثاثے رکھتے ہوں، اُنہیں اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی شخص کا خاندان مشترکہ طور پر کسی بھی سمندر پار کمپنی میں سو فیصد شیئرز رکھے تو بھی اُنہیں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں اگر فرداً فرداً اُن کے شیئرز دس فیصد سے تجاوز نہیں کرتے۔ممکن ہے کہ کچھ افراد نے ابھی تک اپنے بیرونی اثاثے ظاہر نہ کیے ہوں اوراُن پر ایسا کرنے کا دباؤ ہو۔ اب یہ آرڈیننس اُنہیں موقع دے گا کہ وہ اپنے اثاثے کاغذی کارروائی کے ذریعے اس طرح تقسیم کرلیں کہ ہر شخص کے اثاثے دس فیصد سے کم ظاہر ہوں۔


ایسا کرنے والے ممکنہ طور پر وہ پاکستانی کاروباری افراد نہیں ہوسکتے جن کی تفصیل پاناما پیپرز میں سامنے آئی تھی کیونکہ وہ اپنا کالا دھن چھپانے کے لیے گزشتہ دو ایمنسٹی سکیموں سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ نہ ہی وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران اور دیگر افسران ہوں گے کیونکہ وہ قانون کے مطابق پہلے ہی اپنی دولت ظاہر کرچکے ہیں۔ لیکن وزیرِاعظم کے خاص مشیران اب تک اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند نہیں تھے۔ کابینہ پر عوامی دباؤ آسکتا ہے کہ وہ بھی ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے اپنے اثاثے ظاہر کریں کیونکہ دیانت داری کا یہی تقاضا ہے۔ تو ایسی صورت میں وزیرِاعظم کو خفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ تو کیوں نہ قانون ہی تبدیل کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری ۔


 وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیران اعلیٰ سطحی فیصلہ سازی میں شریک ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے ایشوز اُن کے سامنے رہتے ہیں، جیسا کہ توانائی اور مالیاتی شعبے کے امور۔ ان معاملات میں مفادات کا ٹکراؤ خارج ازامکان نہیں۔ ان حالات میں آئی پی پی ڈیلز کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سامنے بہت مشکل ہوگی کہ وہ کس طرح وزیرِ اعظم کے چنے ہوئے افراد کی طرف انگشت نمائی کرے۔


گزشتہ دور کی فوجی حکومت کے سوا ہم نے احتساب کے نام پر طاقت اور اختیار اس قدر غلط استعمال کبھی نہیں دیکھاتھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ”سولین دباؤ“ کے سامنے سول اداروں کا دھڑن تختہ ہوتا جارہا ہے ۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.