• About Us
  • The TFT Story
  • Team
  • Write for TFT
  • Online advertisement tariff
  • Donate To Us
The Friday Times - Naya Daur
Monday, February 6, 2023
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us
No Result
View All Result
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us
No Result
View All Result
The Friday Times - Naya Daur
No Result
View All Result
Home Editorial Urdu

حکومت تبدیل ہوگی یا طرز عمل ؟

TFT Features Desk by TFT Features Desk
November 6, 2022
in Editorials, Editorial Urdu, Features, Main Slider
Regime or Course Change Najam Sethi Editorial
793
SHARES
Share on FacebookShare on Twitter

کیا یہ عمران خان کی مقبولیت کومہمیز دینے کے لیے بوسٹر شاٹ تھا یا انھیں لانگ مارچ اور اسٹبلشمنٹ پر تنقید سے روکنے کے لیے دی گئی وارننگ تھی؟ یا اگر یہ ان دونوں امکانات سے جڑی ہوئی سازش نہیں تھی تو کیا تحریک لبیک پاکستان کے کسی حامی کا انفرادی فعل تھا؟ ہر امکان کی وضاحت میں بہت سے جھول ہیں۔ اس واقعے سے وابستہ جوشیلے جذبات اور بہت بڑے مفادات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جیوری کسی نتیجے پر بمشکل ہی پہنچ پائے گی۔ جیسا کہ ایسے معاملات میں اکثر ہوتا ہے۔

یہ حقیقت بوسٹر شاٹ اور وارننگ کی تھیوری کو تقویت دیتی ہے کہ عمران خان کی ٹانگ میں گولیاں نہیں بلکہ صرف چار کنکریاں لگی ہیں۔ اگر کوئی واقعی عمران خان کو قتل کرنا چاہتا تو وہ اتنی آسانی سے بچ نہ پاتے۔ اُن کے اعتراف کے باوجود کہ اُن کے اپنے سکیورٹی ذرائع نے اُنھیں اس روز ممکنہ حملے سے خبردار کیا تھا، کنٹینر پر اُن کے سامنے کوئی بلٹ پروف شیلڈ نہیں تھی،سکیورٹی ماہرین کا حفاظتی حصار بھی اُن کے گرد نہیں تھااور نہ ہی اُنھوں نے بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔

لیکن اگر بوسٹر تھیوری پر یقین کرلیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس سازش میں اسٹبلشمنٹ سمیت ان کے اپنے حامی شامل تھے۔ اگر وارننگ تھیوری پر کان دھرا جائے تو پھر اسے اسٹبلشمنٹ کی طرف منسوب کیا جائے گا جو عمران خان کے مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ دونوں امکانات کے ذیل میں اسٹبلشمنٹ مشترک ہے۔ اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ عمران خان کیوں آئی ایس آئی کے ایک ٹوسٹار جنرل کانام ایف آئی آر میں شامل کرنے پر مُصر ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب، چوہدری پرویز الہی جو  اسٹبلشمنٹ کے ایک دیرینہ اثاثے رہے ہیں، خان کی خواہش کی تعمیل سے گریزاں ہیں۔ درحقیقت عمران خان اسی جنرل کو ”ڈرٹی ہیری“ کہ نام سے پکارتے رہے ہیں کیوں کہ انھوں نے خان کے حامیوں پر سختی کرتے ہوئے انھیں خوف زدہ کررکھا ہے۔

اس واقعے کو ایک حملہ آورکے انفرادی فعل سے منسوب کرنا حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے لیے سازگار ہے کیوں کہ اس طرح دونوں ہی بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں اس مبینہ مذہبی انتہا پسندکو فوراً ویڈیو اعتراف کی سہولت فراہم کی گئی تاکہ وہ بتا سکے کہ اس نے کیوں اور کس طرح خان کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ یہ ماضی کے کچھ واقعات سے مماثلت بھی رکھتاہے جن میں اہم شخصیات، جیسا کہ سلمان تاثیر، احسن اقبال اور خواجہ آصف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

کچھ اور شکوک و شبہات بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اُن پر سامنے اور کنٹینر کے نیچے سے گولی چلائی گئی۔ گویا قاتل دو تھے جن میں سے ایک نے سامنے کسی بلندمقام سے رائفل سے برسٹ مارا۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو عقل حیران ہے کہ عمران خان اور کنٹینر کی چھت پر موجود دیگر افراد کی کمر سے اوپر زخم کیوں نہ آئے۔ اس صورت میں وہ فوراً جاں بحق ہوجاتے۔ لیکن واحد حملہ آور اس امکان کو مسترد کرتاہے۔ اس کا اصرار ہے کہ اس نے آٹھ کے قریب گولیوں کابرسٹ مارا لیکن پھر اس کے پستول میں گولی پھنس گئی۔زمین سے کنٹینر کی چھت تک گولیوں کا رخ بھی اس بیان وضاحت کرتا ہے کہ کیوں عمران خان کی ٹانگوں پر زخم آئے اور دیگر افراد بھی گولیوں یا کنکریوں سے زخمی ہوئے۔ لیکن اس سے اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ پولیس کو جائے وقوعہ سے گولیوں کے کم از کم گیارہ خول ملے ہیں، تاوقتیکہ یہ پتہ چلا کہ کنٹینر پر سے گارڈ نے حملہ آور پر گولی چلائی جو ایک معصوم شہری کی جان لے گئی جو چار بچوں کا باپ تھا۔

ممکن ہے کہ گرفتار ہونے والے شخص نے اکیلے ہی فائرنگ کی ہوجسے مہمیز دینے یا وارننگ دینے والے عامل نے فاصلے پر رہتے ہوئے استعمال کیا تھا۔ دنیا بھر میں ہونے والے سیاسی ہلاکتوں کا یہ ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ اس کا کوئی سراغ باقی نہیں رہتا۔ ایک سادہ سی وضاحت کوقبول کرتے ہوئے کیس بند کردیا جاتاہے۔

اس کیس کے پیچھے جو بھی حقائق ہوں، ممکن ہے سچ کبھی بھی سامنے نہ آسکے۔ یا آبھی جائے تو مخالف فریق یقین نہ کریں۔ اشتعال کی اس لہر نے عمران کی مقبولیت بڑھا دی ہے۔ ا س کے معجزانہ طور پر بچ جانے کو بھی تائید غیبی سمجھاجارہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ مخالف صحافی، ارشد شریف کے کینیامیں ہونے والے قتل، جس کی تاحال کوئی وضاحت سامنے نہیں آسکی، سے لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا۔ اب جان لینے کی اس ناکام کوشش نے عمران خان کی مقبولیت کے سکڑتے ہوئے غبارے میں مزید ہوا بھر دی ہے۔ دونوں واقعات میں ان کے حامیوں نے  اسٹبلشمنٹ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

عمران خان اپنے ردعمل میں تیز رفتار اور یکسو ہیں۔اُنھوں نے اپنے زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں  اسٹبلشمنٹ اور حکومت پر اپنی جان لینے کی سازش کرنے کا الزام لگادیا۔ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور ایک انٹیلی جنس افسر کانام لے کر الزام لگاتے ہوئے اُنھوں نے بیک وقت ”حکومت کی تبدیلی“ اور  اسٹبلشمنٹ سے اپنا ”طرزعمل تبدیل کرنے“ کا مطالبہ کردیا ہے۔

اہم بات البتہ یہ ہے کہ عمران خان ویل چیئر سمیت کنٹینر کی چھت پر چڑھ کر لانگ مارچ نہیں کرنے جارہے۔ نہ ہی اُنھوں نے اپنے حامیوں کو حکومت اوراسٹبلشمنٹ پر ٹوٹ پڑنے کی ہدایت کی ہے۔ سڑکوں اُن کے چند ایک حامیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔  عمران خان نے تاحال یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ قبل ازوقت انتخابات کے لیے دباؤ ڈالنے کے اپنے اس منصوبے کو کب شروع کرنے جارہے ہیں۔تو کیا وہ فکرمند ہیں کہ اسلام آباد جانے والی سڑک پر اُن کی جان لینے کی کوئی اور بھی کوشش ہوسکتی ہے؟ کیا وہ اسٹبلشمنٹ میں موجود اپنے ہینڈلر کی مزید ہدایت کا انتظار کررہے ہیں؟ کیا وہ کسی قسم کا بیک چینل حل قبول کرنے کا آپشن اختیار کرنے جارہے ہیں؟

یہ بات یقینی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی نچلی صفوں میں عمران خان کی خاطرخواہ حمایت موجود ہے۔ لیکن زیادہ تر جنرلوں اور جی ایچ کیو میں کمانڈروں نے ان کا چار سالہ بدعنوان اور خبط زدہ دور حکومت دیکھا ہے۔ نیز وہ عمران خان کے ذاتی اور ادارے پر بے رحمانہ حملوں کا نشانہ بھی بنے ہیں، وہ اُنھیں واپس اقتدار میں آنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سب اندرونی اور بیرونی اختلافات اور عدم استحکام کا خاتمہ کرنے کے لیے متحد ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت بھی اپنے قدم جماچکی۔ اسے بھی فوری طور پر آسانی سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ اس صورت حال میں موڑ البتہ چوٹی کے جنرلوں کے درمیان ہونے والی جدو جہد کی صورت دکھائی دے رہا ہے۔ انتیس دسمبر کو ہونے والی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اس اہم عہدے کے لیے کوشاں ہیں۔ رخصت ہوتے ہوئے چیف کے اپنے پسندیدہ کی نامزدگی اور حکومت کے اپنے پسند کے افسر کے چناؤ نے اس صورت حال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

آنے والے تین ہفتے بہت اہم ہیں۔ عمران خان اپنے لانگ مارچ پر دوبار کب نکلیں گے؟ ا ب وہ کتنی طاقت دکھا سکتے ہیں؟ کیا تشدد اور خونریزی کی نوبت آسکتی ہے؟ کیا جنرل حکومت کا ساتھ دے کر مزید تنقید اور بیگانگی کا خطر ہ مول لیں گے؟اگر وہ عمران خان یا حکومت، دونوں سے گریز کریں گے تو پھر وہ قانون اپنے ہاتھوں میں کیسے لے سکیں گے؟ اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس کے سیاسی اور اقتصادی نتائج کیا ہوں گے؟ یا پھر مثبت طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ، پی ڈی ایم اور تحریک انصاف ریاست اور معاشرے کی خاطر کسی سمجھوتے پر پہنچتے ہوئے نئے سال میں داخل ہوسکتے ہیں؟

جلد ہی یہ سب کچھ ہمارے سامنے آجائے گا۔ لیکن تب تک کچھ پریشان کن راتیں اور ڈرا دینے والے موڑ ضرورآئیں گے۔

Also Read:

Tackling Pakistan’s Polycrisis Requires Clarity And Consensus. Both Are Missing.

Polarization In Broadcast Media Eroding Credibility

Tags: EditorialNajam SethiEditorial Urdunajam sethi editorial urdu
Previous Post

Searching For Civil War Memorabilia In Georgia

Next Post

Nuggets From The Urdu Press

TFT Features Desk

TFT Features Desk

Next Post
COP 27: Talking Shop Or Commitment To Climate Justice?

COP 27: Talking Shop Or Commitment To Climate Justice?

Comments 2

  1. خرم ایوب says:
    3 months ago

    مثبت طرز عمل کہ لیۓ بنیادی طور پہ عمران خان کی شخصیت مانع ہے ۔ عمران خان ایک نرگسی شخصیت کے حامل ہیں ۔
    ان کی اس شخصیت کا اندازہ ان کی اپنی ناکامیوں کے اعتراف اور رویہ کی تبدیلی کی بجاۓ ان حالات و واقعات کو اپنی ذہنی تناظر میں دیکھنے اور اپنے چاہنے والوں کیلیئے بیان کرنے سے ظاہر ہوتا ہے ۔ اس شخصیت کو ڈینا کریگ کی نظم ایک
    نرگسی شخص کا ترانہ سے سمجھا جا سکتا ہے ۔

    ایسا نہیں ہوا تھا
    اور اگر ایسا ہوا تھا تو یہ اتنی بری بات نہیں ہوتی
    اور اگر برا بھی تھا تو یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہوتی
    اور اگر ایسی بڑی بات ہے تو اس میں میری غلطی نہیں تھی
    اور اگر یہ میری غلطی تھی بھی تو میرا مطلب یہ نہیں تھا
    اور اگر میں نے ایسا ہی کیا تو آپ ضرور اس کے مستحق تھے

    ایسا شخص اگر بزنس یا کھیل میں ابھرے تو بے حد کامیاب ہوتا ہے مگر یہی شخصیت اگر سیاست میں آۓ تو اس کو چاہنے والے اس کی سحر بیانی کے چنگل میں آنے کے باعث اس کے نفس کو تقویت پہنچانا شروع کر دیتے ہیں اور وہ توازن کھو بیٹھتا ہے ۔ اور یہ بالکل حکومت کہ قابل نہیں ہوتا کیوں کہ یہ کسی کی بات نہیں سنتا ۔ صرف اپنی بات منواتا ہے اپنی نا تجربہ کاری کے باوجود کیونکہ وہ اس ذعمُ میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ سب سے بہتر سوچ کا حامل ہے ۔ اچھے لیڈر کی سب سے بڑی خوبی دوسروں کی بات کو سننا اور سمجھنا ہوتا ہے ۔

    ایک متوازن شخصیت کا قاتلانہ حملہ میں معجزانہ بچ جانے کے بعد طرز عمل محتاط اور حقائق پر مبنی ہوتا ہے مگر ایک نرگسی بیمار کا طرز عمل اس موقع سے بھی اپنا فائدہ اٹھانے کا ہو گا کیونکہ وہ دھن کا پکا ثابت ہونا چاہے گا تا کہ اس کہ چاہنے والے اس کو پھر ہاتھوں ہاتھ لیں اور ثنا خوانی کا سلسلہ وہیں سے جڑے جہاں سے ٹوٹا تھا – سو قصہ مختصر دیکھ لیجئے گا کہ قافلہ عنقریب اپنے منتقی انجام کی جانب پھر بڑھے گا ۔

  2. Latafat Ali Siddiqui says:
    3 months ago

    Only an insane person can hope of staging a comeback after abusing the military establishment and the United State of America. Contrary to his own idealogy, he appointed an expensive team of American experts to lobby for him and his PTI party in the US. IK is certainly a confused person.

Recent News

We Should All Be Worried About Democratic Backsliding

We Should All Be Worried About Democratic Backsliding

February 6, 2023
Maryam Nawaz

 Imran Must Be Removed From Pakistan’s Politics, Says Maryam

February 6, 2023
APC on terrorism

Govt Postpones APC On Terrorism, Reschedules For Feb 9

February 6, 2023

Twitter

Newsletter



Donate To Us

The Friday Times – Naya Daur

THE TRUTH WILL OUT


The Friday Times is Pakistan’s first independent weekly, founded in 1989. In 2021, the publication went into collaboration with digital news platform Naya Daur Media to publish under a daily cycle.


Social Media

Latest News

  • All
  • News
  • Editorials
  • Features
  • Analysis
  • Lifestyle
We Should All Be Worried About Democratic Backsliding

We Should All Be Worried About Democratic Backsliding

by Maheen Rasul
February 6, 2023
0

When Winston Churchill said, ‘democracy is the worst...

Maryam Nawaz

 Imran Must Be Removed From Pakistan’s Politics, Says Maryam

by News Desk
February 6, 2023
0

Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) Senior Vice President Maryam...

Social Feed

  • About Us
  • The TFT Story
  • Team
  • Write for TFT
  • Online advertisement tariff
  • Donate To Us

© 2022 All Rights Reserved.

No Result
View All Result
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us

© 2022 All Rights Reserved.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist