اسٹبلشمنٹ کی غیر جانب داری

اسٹبلشمنٹ کی غیر جانب داری

دو سال تک تازہ انتخابات کا مطالبہ کرتے کرتے حزب اختلاف کا گلا بیٹھ گیا لیکن عمران خان نے اس کی پکار پر کان دھرنے سے انکار کر دیا۔ درحقیقت سات مارچ کو تحریک عدم اعتماد کے موقع پراُنھوں نے کہا کہ وہ اس چیلنج کا خیر مقدم کرتے ہیں اور نہ تو استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی پارلیمنٹ کو تحلیل کریں گے۔ لیکن جب چند ہفتوں میں بازی پلٹ گئی تو اُنھوں نے صدر عارف علوی سے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کرانے کا کہا۔ تاہم حزب اختلاف انھیں منصب سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے بعد حزب اختلاف نے فوری انتخابات کرانے کے لیے نہیں بلکہ اگلے سال کے آخر تک برقرار رہنے اور ملک کو پٹری پر ڈالنے کے ارادے سے حکومت بنائی۔ اب عمران خان فوری انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور پی ڈی ایم حکومت گراد یں گے۔


پی ڈی ایم نے فوری انتخابات کی طرف نہ جانے کا فیصلہ چار اہم وجوہات کی بنا پر کیا ہے۔ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں دو خالی اسامیوں کو پُر کرنا چاہتی ہے۔ خالی اسامیوں کی وجہ سے کمزور الیکشن کمیشن نہ تو موثر طریقے سے انتخابات کر اسکتا ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔ یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور دوہری شہریت رکھنے والوں کے خلاف انتخابی قوانین بناناچاہتی ہے جو کہ یا تو ناقابل عمل ہیں یا ان کا نقصان واضح ہے۔ یہ نیب کو بہتر خطوط پراستوار کرنا چاہتی ہے تا کہ یہ تاجروں، سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کی دشمنی پر کمر بستہ نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں نیب نے ایک قابل اعتماد اینٹی کرپشن واچ ڈاگ سے ایک منہ زور اور بے رحم ادارے میں تبدیل ہو کر حکومت یا اسٹبلشمنٹ کے مخالفین کو نشانہ بنایا تھا۔ پی ڈی ایم نے نیب اور ایف آئی اے کے ''کیسز'' کو سمیٹنے کے لیے بھی وقت مانگا ہے۔ یہ وہ کیسز ہیں جن میں عمران خان کی بھرپور کوششوں کے باوجود چار سالوں میں کسی کو کوئی سزا نہیں ملی۔ اب اس کے رہنما ان مقدمات سے آزاد ہوکر تحریک انصاف کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔تاہم حکومت میں ایک ماہ کے بعدبھی پی ڈی ایم اپنے اہداف کے بارے میں یقین سے محروم ہے۔ دوسری طرف عمران خان فوری انتخابات کے یک نکاتی ایجنڈے پر دھمکی آمیز مہم چلائے ہوئے ہیں۔ دریں اثنا، ہر گزرتے دن کے ساتھ معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔موجودہ حکومت کے پاس انتہائی سخت اور غیر مقبول فیصلوں کا وقت پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔


معمول کے حالات میں جب کہ سیاسی استحکام اور تسلسل ہوتا، پی ڈی ایم عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ مل کر ملک کو معاشی مشکلات کے اس گرداب سے نکال سکتی تھی جس میں عمران خان اسے پھینک گئے ہیں۔ لیکن عمران خان نے کھیل بگاڑ دیا ہے۔ انھوں نے کامیابی کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کو تقسیم کیا اور اسے پی ڈی ایم حکومت کی حمایت سے روک دیا۔ درحقیقت، اس بات پر یقین کرنے کے شواہد موجود ہیں کہ اسٹبلشمنٹ پر اپنی ہی صفوں سے دباؤ ہے کہ جلد انتخابات کے عمران خان کے مطالبے کا ساتھ دیا جائے۔ ان حالات میں پی ڈی ایم خودکو ایک مشکل صورت حال میں دیکھتی ہے۔ اگر یہ آئی ایم ایف کے ایجنڈے کو نافذ کرتی ہے تواس کے خلاف عوامی ردعمل کا لاوہ پھوٹ پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کو اسے تازہ انتخابات پر مجبور کرنے کا جواز مل جائے گا اور اسے اس وقت الیکشن میں جانا پڑے گا جب اس کا گراف بہت نیچے ہے۔ اگر یہ آئی ایم ایف کے ایجنڈے کو نہیں نافذ کرتی تو معیشت دیوالیہ ہوجائے گی۔اس پر ملک افراتفری اور ہنگاموں کی لپیٹ میں آجائے گا، اور اس کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔


وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی نصف کابینہ کے ساتھ لند ن میں مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف سے ہنگامی بنیادوں پر ملاقات کی ہے۔اس میں درپیش بحران سے نکلنے کے طریقے پر غور کیا گیا۔ اس دوران فوری انتخابات کے حق میں اور اس کے خلاف دلائل دیے گئے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ دستخط کرنے کے حق میں اور اس کے خلاف بھی آرا پیش کی گئیں۔عمران خان کی دھمکی آمیزمہم کو چیلنج کرنے کے حق میں اور اس کے برعکس سوچ سامنے آئی۔ ہر عمل کے نتائج پر غور کیا گیا۔ حتمی طور پر بال اسٹبلشمنٹ کے کورٹ میں ہے۔اگر پی ڈی ایم اور اسٹبلشمنٹ ایک صفحے پر آجائیں تو ہی عمران خان کا راستہ روکا جا سکتا ہے، آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ حاصل کیاجا سکتا ہے اور اگلے انتخابات سے پہلے 18 ماہ میں ملک اور معیشت استحکام کی طرف قدم بڑھاسکتے ہیں۔ لیکن اگر اسٹبلشمنٹ نے پہلے ہی عمران خان کے دباؤ کے سامنے جھک کر قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل درآمد کرتے ہوئے غیر مقبول ہونے اور آئندہ چند ماہ میں ہونے والے انتخابات میں شکست کا خطرہ مول لینے کا کوئی مطلب نہیں۔


آئیے حقائق کا سامنا کریں۔ گزشتہ چھے ماہ میں اسٹبشلمنٹ کا کردار بہت زیادہ الجھا ہوا اور متضاد رہا ہے۔ گزشتہ سال جب اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کی سرپرستی پر مبنی ایک صفحے سے قدم پیچھے ہٹا لیا تو سابق وزیر اعظم کمزور ہوگئے۔ لیکن حزب اختلاف کی فعال مدد کرنے کے بجائے غیر جانبداربن کر اس نے حزب اختلاف کو پانچ ماہ کے طویل سفر پر مجبور کیا کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو بے دخل کرنے کے لیے درکار نمبروں کو اکٹھا کرے۔ اس طرح معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے وقت اور موقع ضائع ہوگیا۔ اس نے عمران خان کو حزب اختلاف اور اسٹبلشمنٹ، دونوں کے خلاف ایک طاقتور بیانیہ تیار کرنے کے قابل بنادیا جس کا اُنھیں بھرپور فائدہ ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے سامنے صورت حال یہ ہے جس میں عمران خان  اسٹبلشمنٹ سے پی ڈی ایم حکومت کے خلاف مداخلت کا مطالبہ کررہے ہیں، جب کہ پی ڈی ایم حکومت یقین دہانی چاہتی ہے کہ  اسٹبلشمنٹ اپنی غیر جانب داری برقرار رکھے تاکہ یہ اپنا سیاسی نقصان کیے بغیر عمران خان کا پھیلایا ہوا معاشی گندصاف کرسکے۔


یہاں کئی ایک سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اسٹبلشمنٹ نے پہلے غیر جانب دار ہونے میں دانائی دیکھی تھی، تو اب سے غیر جانب دار ہونے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ عمران خان اسٹبلشمنٹ کے قائدین پر کھل کر حملے کیوں کررہے ہیں اگر اسٹبلشمنٹ کے اندر ہی طاقت ور حلقوں کی انھیں آشیر باد حاصل نہیں؟ کیا اسٹبلشمنٹ کے قائدین اتنے ہی کمزور ہوچکے ہیں کہ وہ عمران خان کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ملک اور معیشت کو ایک بار پھر تباہی کی گھاٹی میں پھینکنے کے لیے تیار ہیں؟ اگر وہ عمران خان کو ایک بار پھر اقتدار پر لانے کی سہولت فراہم کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں تو اسے پہلے اقتدار سے ہٹایا ہی کیوں تھا؟ اگر وہ فوری انتخابات چاہتے ہیں تو اُنھوں نے گزشتہ برس نومبر میں عمران خان پر اس کے لیے دباؤ کیوں نہ ڈالا؟ اس کے لیے ایم کیو ایم اور دیگر کو آنکھ کا اشارہ ہی کافی تھا۔ جب وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیتے تو وہ اعتماد کا ووٹ نہ لے سکتے اور پارلیمنٹ تحلیل کردی جاتی؟


بار ہا ہم نے اسٹبلشمنٹ کے سیاسی تجربات بری طرح ناکام ہوتے دیکھے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ تو ملک تباہ کن حالات کا سامنا کررہا ہے۔ لاڈلہ نہ صرف اسٹبلشمنٹ بلکہ آئین اور معیشت، سب کچھ برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پی ڈی ایم کی نئی حکومت کو وقت دیا جائے تاکہ وہ اس قومی بحران سے ملک کونکالنے اور عمران خان کے خطرے سے نمٹنے کے قابل ہوسکے۔اس دوران اسے عہدے سے ہٹانے کے لیے کسی سازش کے خطرے سے مسلسل چوکنا نہ رہنا پڑے۔