بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

پی ڈی ایم کی نئی حکومت کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اعتراف کیا ہے کہ یہ حکومت اگلے سال کے آخر میں ہونے والے عام انتخابات تک اپنی مدت پوری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سے دونوں شریف برادران کے درمیان معاملہ طے سمجھاجاناچاہیے۔


نواز شریف دو وجوہات کی بنا پر فوری انتخابات چاہتے تھے: پہلی، انتخابی نتائج پاکستان مسلم لیگ ن کی حمایت میں اور تحریک انصاف کی مخالفت میں آنے کا امکان تھا کیونکہ اسٹبلشمنٹ کی نظر میں اوّل الذکر کام کرنے کا،جب کہ موخر الذکر بدانتظامی کا مایوس کن ریکارڈ رکھتی ہے۔ نیز تحریک انصاف نے اسی بادشاہ گر سے بگاڑ لی جو اسے اقتدار میں لایا تھا۔دوسری، وسط مدت میں معاشی بحران کے گہرا ہونے کی پیش گوئی تھی۔ اس کی وجہ سے نئی حکومت عوام سے دور جب کہ تحریک انصاف دوبارہ اپنی سانسیں بحال کرنے کے قابل ہوسکتی تھی۔


لیکن شہباز شریف اور آصف زرداری کی اپنی ایک سوچ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بحال شدہ پاور پلیٹ فارم استعمال کر کے الیکٹ ایبلز کی مدد سے رائے دہندگان تک اپنی رسائی بڑھا سکتے ہیں۔ اس طرح تحریک انصاف کی نشستوں کی تعداد کم کی جاسکتی ہے۔ ان کی دلیل غالب آئی کہ اگلے انتخابات جیتنے کے لیے موجودہ مدت کوطول دینا ضروری ہے۔


بدقسمتی سے شہباز شریف حکومت ابھی تک اپنی حکمت عملی طے کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی دکھائی دیتی ہے۔ اس نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ عمران خان کے ”چور، امپورٹڈ گورنمنٹ“ کے مقبول بیانیے سے کیسے نمٹا جائے؟ یہ بیانیہ شہری علاقوں کے درمیانی طبقے میں مقبول ہے۔ کیااس کے مقابلے پر کسی طاقت ور بیانیے کو سامنے لا کر عمران خان کے بیانیے کا اثر زائل کیا جائے یا اس میں موجود خامیوں کی بھرپور تشہیر کی جائے؟پی ڈی ایم نے عمران خان کے ہتھکنڈوں پر بھی کوئی موقف اختیار نہیں کیاکہ کیاعمران خان کو حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے دھرنوں اور مظاہروں کو منظم کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے یا اسے قدم اٹھانے سے پہلے روکنے کے لئے پیشگی اقدامات کرنے چاہییں؟ اس کی انتہائی موثر سوشل میڈیا مہم کا مقابلہ کیسے کیا جائے جو نئی حکومت کے خلاف مورچہ زن ہے؟ اسے کس قسم کا جوابی بیانیہ تیار کرنا چاہیے تاکہ ان لوگوں کی سوچ کو اپنی طر ف مائل کیا جاسکے جو عمران خان کے بیانیے کو ناپسند کرتے ہیں؟ قلیل مدتی معاشی حل پر توجہ دینی چاہیے تاکہ عمران خان عوام کی مشکلات کا سیاسی فائدہ نہ اٹھا نے پائیں؟  یا اسے آئی ایم ایف کے ایک مکمل کفایت شعاری پروگرام کے سامنے جھک جانا چاہیے جس سے لوگوں کے مسائل دوچند ہوجائیں گے اور بے چینی پھیل جائے گی؟ اسے اپنے اتحادی شراکت داروں کو کس طرح اپنے ساتھ ملا کر رکھنا چاہئے تاکہ کشتی نہ الٹنے پائے اور نہ ہی نظام کا مذاق بننے پائے؟ کس قسم کی قانونی اور انتخابی اصلاحات کی جانی ہیں اور اس مشق کا ٹائم فریم کیا ہے؟ اور اسی طرح کے بہت سے مسائل۔


دوسری جانب عمران خان کے پاس آگے بڑھنے کی حکمت عملی قطعی اور طے شدہ ہے۔ وہ قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ان کے امکانات تین عوامل کی وجہ سے بحال ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے،عمران خان نے کامیابی سے ”غیر جانب داری“ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کوپچھلے قدموں پر جانے پر مجبور کردیا ہے۔ اور یہ تنقید اسٹبلشمنٹ کی اپنی نچلی اور درمیانی صفوں سے آئی ہے۔ یہ اسٹبلشمنٹ کی غیر جانب داری تھی جو عمران خان کے گھر جانے کا باعث بنی۔درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد، سرکاری افسران اور پیشہ ور افراد اوراسٹبلشمنٹ کے خاندان، جن میں حاضر سروس بھی ہیں اور ریٹائربھی، عمران خان کے ساتھ اور مورثی سیاسی خاندانوں کے خلاف ہیں۔ باپ بیٹے کی حکمران جوڑی تو انہیں ایسے مشتعل کرتی ہے جیسے بیل کو سرخ کپڑا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نئی حکومت سنگین انتظامی یا مالی پریشانی کا شکار ہوجائے تو بھی اسے اسٹبلشمنٹ سے کسی مثبت حمایت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ دوسرا، عمران خان نے عدلیہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا محاصرہ کر رکھا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اس کے مفادات کے خلاف کوئی فوری فیصلہ نہ لیں۔ فارن فنڈنگ کیس کو ختم کرنے میں مسلسل تاخیر اور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صدر پاکستان کی طرف سے پیدا کردہ آئینی بندش نے پنجاب حکومت کی تشکیل اور وفاقی کابینہ کے قانون سازی کے عمل کو روک دیا ہے۔ تیسرا، وہ نئی حکومت کی توجہ معیشت کو مستحکم کرنے اور گڈ گورننس فراہم کرنے کے اہم کام سے ہٹانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ ان کے حامی شہری، نوجوان، پرجوش، دھرنوں، محاصروں، دھرنوں اور لانگ مارچ کے لیے تیار ہیں۔ ایک سیاسی آئینی بحران جس میں اس کے ایک دو شراکت دار اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کا اشارہ پاتے ہی، یا اس کے بغیر حکومت سے الگ ہوگئے تو حکومت گر جائے گی اور تازہ انتخابات کرانے پڑیں گے۔


عمران خان کی حکمت عملی قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنا ہے۔ اگر وہ جیت جاتے ہیں تو خود کوفسطائی آمر کے طور پر ڈھالنے کے لیے جمہوری اصولوں، روایات اور قوانین کومنہدم کرنے کی راہ پر گامزن رہیں گے۔ اگر وہ ہار جاتے ہیں تو ان نتائج کو اسی طرح چیلنج کریں گے جس طرح وہ آج کل موجودہ نظام کو غیر مستحکم کرنے اور اسے غیر قانونی قرار دینے کے لیے کررہے ہیں۔ لہٰذا جب تک کہ اس کے بیانیے کا مقابلہ نہ کیا گیا اور اس کی مقبول بنیاد کا کوئی بندوبست نہ ہوسکا اور جن کو دوبارہ بوتل میں ڈالنے کے لیے کوئی راستہ تلاش نہ کیا گیا، اس وقت تک کسی کو استحکام اور بہتری کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔


مسجد نبوی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لیے چشم کشا ہونے چاہییں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان اپنے بیانیے، ”امپورٹڈ چورحکومت“  کو کس حد تک بڑھا نے پر تلے ہوئے ہیں۔جب جھوٹ کا پول کھلتا ہے تو دفاع کرنے کے بجائے مسلسل پروپیگنڈے کے ذریعے اسے تقویت دیتے رہتے ہیں۔ شیخ رشید کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے قدآور کارکنوں کی سازش کے ثبوت کے سامنے ان کے حامیوں کی حیرت انگیز خاموشی بتاتی ہے کہ ان حالات میں ایک مخالف مذہبی دھماکہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن پی ڈی ایم کی طرف سے ایسا کچھ نہیں کیا جانے والا۔ اس کے بجائے تحریک لبیک پاکستان نے شہباز شریف کی یورپی برادری کو راغب کرنے کی کوشش کی مذمت کی ہے اورمسجد نبوی میں ”امپورٹڈ حکومت“ کے خلاف سامنے آنے والے ردعمل کی وجہ یہی خارجہ پالیسی بیان کی ہے۔


اچانک تحریک انصاف اور اس کے متوسط طبقے کے حامیوں نے ریاست اور معاشرے کے بحران سے نکلنے کے واحد راستے کے طور پر فوری انتخابات کے مطالبے پر اکتفا کیا ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ صرف ایک ماہ قبل وہ اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ”جمہوریت“ کے وسیع تر مفاد میں اپنی مدت پوری کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی جبکہ پی ڈی ایم اس کے بالکل برعکس اصرار کر رہی تھی۔ تاہم، دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ کی حمایت کو یقینی بنانے کی فکر میں تھی(کیونکہ اس کے پاس جیتنے کے لیے ووٹر کی طاقت کی کمی ہے)۔ دوسری طرف پی ڈی ایم جب بھی انتخابات منعقد ہوں، اسٹبلشمنٹ کی غیرجانبداری میں دلچسپی رکھتی تھی (کیونکہ ان کے ساتھ ''الیکٹ ایبلز''ہیں)۔ ڈیموگرافی بھی پی ڈی ایم کی حمایت کرتی ہے۔


یہاں ایک مسلہئ ہے۔ درمیانی درجے کے افسران عمران خان کی صورت ایک صاف ستھرے ہیرو کے رومانس کے اسیر ہیں، گرچہ اس کی فیصلہ ساز قیادت ریاست اور معاشرے پر اس کی غلط حکمرانی کے نتائج سے پریشان ہے۔ نومبر میں اس کی قیادت میں تبدیلی یا تو اس رجحان کو تقویت دے سکتی ہے یا اسے تبدیل کر سکتی ہے۔ اور اس  کے سنگین مضمرات ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع چاہتی ہے جب کہ پی ڈی ایم اس سے چمٹے رہنا چاہتی ہے۔


ایک جوابی بیانیہ ہے جوممکنہ طور پر اسٹبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کو فائدہ پہنچا سکتاہے۔ اس کا تعلق عمران خان کی واپسی کی صورت ریاست اور معیشت کو پہنچنے والے تباہ کن اثرات سے ہے۔ خاص طور پر درمیانے طبقات کے لیے، جو اپنی حیثیت اور تحفظ کے لیے معیشت پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن سوال وہی ہے۔ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟