افسوس ناک منطقی انجام

افسوس ناک منطقی انجام

حزب اختلاف نے عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے درکار  172  اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قطعی اکثریت ثابت کردی ہے۔ اس نے آزاد میڈیا کو سندھ ہاؤس اسلام آباد میں موجود ایک درجن سے زیادہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی سے آزادانہ طور پر سوالات کرنے کی اجازت دے دی ۔ اس نے اُن کے عزائم کا تعین کردیا۔ اتنی ہی بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی ابھی تک انٹیلی جنس بیورو اور اسلام آباد پولیس کی نظروں سے خود کو چھپائے ہوئے ہیں ۔ توقع کی جاتی ہے کہ  فیصلہ کن دن ہاتھ دکھانے کے لیے میدان میں اترآئیں گے۔  دریں اثنا مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کی قیادت میں تحریک انصاف کے سابق اتحادی باضابطہ طور پر عمران خان کے خلاف صفوں میں شامل ہونے سے پہلے کچھ آخری تفصیلات طے کرنے میں مصروف ہیں ۔ اس طرح آئندہ چند دنوں میں حزب اختلاف کم از کم 200 ووٹ لے کر میدان میں اترے گی۔ تحریک انصاف 140  سے آگے نہیں بڑھ پائے گی ۔ اس میں کچھ ہارس ٹریڈنگ ہو سکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی پالیسیوں سے عوامی سطح پر بیزاری پیدا ہو گئی ہے۔ ان کے لیے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن جیتنا ناممکن ہے۔ لہذا وہ جیتنے والی پارٹیوں کی صفوں میں شامل ہونے کی کوشش میں ہیں۔


ان حالات میں آئینی رویہ تو یہ تھا کہ عمران خان وقار کے ساتھ منصب سے الگ ہوجائیں اور اسلام آباد میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی نئی حکومت کو اقتدار سنبھالنے دیں۔


لیکن مسٹر خان کا ردعمل انتہائی منفی رہا ہے ۔ وہ اپنے سابق اتحادیوں کو گالیاں دے رہے ہیں۔ نیب، ایف آئی اے اور مختلف سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے انہیں ''ٹھیک'' کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے باغیوں کو ووٹ دینے سے روکنا، اور سپیکر اسد قیصر کے دفتر کے ذریعے انہیں نااہل قرار دے کر اُن کے ووٹوں کو مسترد کرنا چاہتے ہیں۔  وہ عدم اعتماد کے عمل کو روکنے اور اپریل اور مئی تک عدالتوں میں گھسیٹنے کے لیے غیر آئینی تجاویز پر بات کر رہے ہیں، جیسا کہ سندھ میں گورنر راج، صدارتی اعلان ایمرجنسی وغیرہ ۔ اورسب سے بڑھ کرافسوسناک بات یہ ہے کہ وہ ڈی چوک میں ہجوم کو جمع کرکے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے اور ووٹنگ کے دن اراکین پارلیمنٹ کو ڈرانے دھمکانے کی تیاری کررہے ہیں۔


غیر آئینی مزاحمت کے اس آخری اقدام نے حزب اختلاف کو مشتعل کر دیا کہ وہ ان ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسی علاقے میں ایک بڑے اور اتنے ہی جارحانہ مظاہرے کا اعلان کرے۔ اس سے بات تصادم اور تشدد کی طرف چلی جائے گی۔


عمران خان نے حزب اختلاف کو ناکام کرنے کے لیے ووٹنگ کے موقع پر ایک ترپ کا پتا ظاہر کرنے کی دھمکی بھی دی ہے ۔ چونکہ اس طرح کے آخری مرحلے میں کوئی دھمکی یا بلیک میل حزب اختلاف کو روکتی یا کمزور کرتی دکھائی نہیں دیتی، اس لیے گمان ہے کہ اس کا مقصد اسٹبلشمنٹ کو تقسیم کرنا اور دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ اپنی ”غیرجانبداری“کو ترک کر کے اس کی پشت پناہی کرے ۔ یہ واضح نہیں کہ عمران خان یہ سب کچھ کیسے کریں گے نہ ہی کوئی اس بات کا یقین کر سکتا ہے کہ جب یہ کارڈ کھیلا جائے گا، تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا۔


تحریک انصاف کے دریچوں سے سرگوشیاں کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران جنرل قمر جاوید باجوہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔اُنہیں برطرف کرکے کسی سینئر غیر متنازع جنرل کا تقرر کر سکتے ہیں جو اُنہیں مشکلات کے اس گرداب سے نکالے۔ یہ ایک بہت خطرناک تجویز ہے۔ 1972 میں ذوالفقارعلی بھٹو نے فوج اور فضائیہ کے سربراہوں کو برطرف کیاتھا۔ وہ صرف اس وجہ سے بچ نکلے کہ انہوں نے یہ خنجر پس پردہ رہتے ہوئے مارا تھا۔ نیز اس وقت دونوں فورسز بنگلہ دیش کے بحران اور جنگ سے گھاؤ زدہ تھیں۔ لیکن اس نے پلٹ کر 1977 میں  وارکردیا۔بھٹو کے اپنے منتخب آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے انہیں اقتدار سے ہٹایا اور بعد میں پھانسی دے دی۔ نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت کو معمولی لغزش پر برطرف کر دیا لیکن جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں اس کا بدلہ چکا دیا اور مسٹر شریف کو ایک دہائی تک تکلیف میں مبتلا کیے رکھا۔ اس بار اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو معلوم نہیں جنرل باجوہ اور ان کے کور کمانڈرز کیا ردعمل ظاہر کریں۔ لیکن ایک بات طے ہے: آج کے کھولتے ہوئے سیاسی ماحول میں ”غیرجانبدار“رہنا اسٹبلشمنٹ کا بطورا دارہ فیصلہ ہے نہ کہ ذاتی۔ اس موقف کی مضبوط وجوہات ہیں۔ اسٹبلشمنٹ نے محسوس کیا ہے کہ”بونسائی خان“ کی قیادت میں اس کا ہائبرڈ تجربہ ناکام ثابت ہوا ہے۔ اس نے ادارے کو بہت زیادہ بدنام کیا ہے۔ اب جب عوامی جذبات کی لہر تحریک انصاف مخالف ہے، جیسا کہ رائے عامہ کے ہر سروے سے پتہ چلتا ہے، وہ خان کو گلے لگانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ عمران خان کے لیے اسٹبلشمنٹ کی ضمانت، نہ کہ غیر جانبداری، کے بغیر اتنا بڑا خطرہ مول لینا بہت بڑی حماقت ہوگی۔ اور شواہد بتاتے ہیں کہ ضمانت اس وقت دستیاب نہیں۔


کچھ قیاس آرائیاں یہ بھی ہیں کہ اس کا مطلب ڈی چوک میں فیصلہ کن دن پر افراتفری اور تشدد کو ہوا دینا ہے۔ اس کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کو لازمی مداخلت کے لیے قدم بڑھاناپڑے گا۔ سوچ یہ ہے کہ ”اگر میں ڈوبوں گا تو اپنے ساتھ اپوزیشن کو بھی لے ڈوبوں گا۔ اگر گھر میں نہ رہ سکا تو اسے جلا کر راکھ کردوں گا۔“ بلاشبہ حزب اختلاف اور حکومت دونوں کا نقصان ہوجائے گا۔ لیکن عمران اور تحریک انصاف کو سب بڑا گھاؤ لگے گا۔ دوسری طرف حزب اختلاف اسٹبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دے کر دوبارہ ایوان میں چلی جائے گی۔


تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی ایک قابل ذکر تعداد صرف وہی نہیں جوحزب اختلاف کی صفوں کا رخ کررہے ہیں۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری، جو کچھ برے مشوروں اور فیصلوں کے لیے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں، نے جلد بازی میں محفوظ چراگاہوں کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ متعدد معاونین خصوصی، مشیر اور وزراء فرار ہونے کے لیے کمر باندھ رہے ہیں۔ کچھ دیگر نے اچانک ہونٹ سی لیں ہیں اور سر پر سلیمانی ٹوپی پہن لی ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے ہر طرف گہری کھائیاں ہیں۔اسلام آباد میں ان کے جو بھی غیر قانونی اور غیر آئینی تاخیری حربے ہوں، پنجاب میں پانی خطرے کے نشان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لانے کے لیے سیاسی حریف مطلوبہ دستخطوں کے ساتھ آستینیں چڑھا چکے ہیں۔ یہ اقدام بروقت ہے کیونکہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے ساتھی پہلے ہی وفاداریاں بدل چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں سپیکر اسد قیصر کے برعکس چوہدری پرویز الٰہی مسئلہ بننے کے بجائے مجوزہ حل کا حصہ ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حزب اختلاف جلد ہی آپس میں لڑنا شروع کردے گی اور خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر جائے گی وہ غلطی پر ہیں۔ عمران خان سے ذاتی نفرت اور تحریک انصاف کی بحالی کا سیاسی خطرہ اس قدر حقیقی ہے کہ وہ ایک نام نہاد ''قومی حکومت'' مائنس ون میں اقتدار کی شراکت کے لیے ٹھوس سمجھوتا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ درحقیقت، اسلام آباد اور چاروں صوبوں میں اس طرح کی طاقت کی تقسیم عام انتخابات تک ہونے کا امکان ہے۔ ہر گروپ تحریک انصاف کے خلاف تمام فریقوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنے اپنے طریقے سے یا ایک دوسرے کے ساتھ سیٹیں ایڈجسٹ کرکے ساتھ ملاتا دکھائی دے گا۔


کچھ ووٹر سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے وعدے زیادہ کرلیے لیکن وہ اتنی کارکردگی نہ دکھا سکے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ گہری فطری خامیوں کا حامل شخص ہے۔ خدشہ ہے کہ ان کی ذاتی ناکامیاں کہیں پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کا باعث نہ بن جائیں۔