• About Us
  • The TFT Story
  • Team
  • Write for TFT
  • Online advertisement tariff
  • Donate To Us
Thursday, June 30, 2022
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us
No Result
View All Result
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us
No Result
View All Result
No Result
View All Result
Home Editorial Urdu

بہتر یا بدتر

TFT Features Desk by TFT Features Desk
February 4, 2022
in Editorials, Features, Main Slider
Justice Bandial arrives at the apex of the apex court in troubled times.
308
SHARES
Share on FacebookShare on Twitter

پاکستان کے نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا بار اور بنچ کے سامنے پہلا خطاب لائق تبصرہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میڈیا کو عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے لیکن حکومت وقت کو اسے ججوں کو بدنام کرنے اور اسکینڈلائز کرنے سے روکنا چاہیے۔ وہ خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عدلیہ کے بارے میں بالعموم اور بعض ججوں کے بارے میں آزادانہ اور بعض اوقات ذاتی تبصروں سے بالخصوص ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جج صاحب کو فوری نتیجے پر پہنچنے سے پہلے کچھ نکات پر غور کرناچاہیے۔

پاکستان کی عدلیہ کسی طور اچھائی اور انصاف کا نمونہ نہیں ۔ ایک حالیہ عالمی سروے نے پاکستانی عدلیہ کو بدعنوانی اور نااہلی کے بین الاقوامی انڈیکس میں 145ویں نمبر پررکھا ہے ۔ ناقدین اسے ”ایگزیکٹوکا آلہ کار“ بھی قرار دیتے ہیں، اور شاید اس میں کچھ مبالغہ بھی نہیں کیوں کہ وہ سول ملٹری اسٹبلشمنٹ کی خدمات بجالاتی رہی ہے۔ عوامی سطح پر یہ بات کہتی جاتی ہے کہ وہ ماتحت عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے لیے وکیل کی بجائے جج کی خدمات حاصل کرلینا بہتر سمجھتے ہیں۔

اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں نے مشکوک ”نظر یہ ضرورت“ کے تحت ملک میں لگنے والے تمام مارشل لاؤں کی توثیق کی جب منتخب وزرائے اعظم کو بدعنوانی یا بدانتظامی کے الزامات لگاکر عہدے سے ہٹایا گیا۔ اس دوران بے جا مراعات اور پلاٹوں کے پلاٹ سمیٹتے وقت اُن کے ضمیر نے شاید ہی کبھی اُنھیں بے چین کیا ہو۔ ایک موقع پر تنک مزاج چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک آمر کے خلاف عوامی جمہوری احتجاجی تحریک چلائی۔ لیکن ”انقلابی بیداری“ کی لہر جلد ہی ذاتی انا کی تسکین، بڑھتے ہوئے عزائم اور اندھا دھندسوموٹو کا سونامی بن گئی۔

حالیہ دنوں دو چیف جسٹس، آصف کھوسہ اور ثاقب نثار نے بہت سے ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے سپریم کورٹ کو آزادی کے بعد  کسی بھی دور سے زیادہ بدنامی اور تضحیک کا نشانہ بننا پڑا۔ درحقیقت سپریم کورٹ کو تابناک کرنے والی جسٹس عمر عطابندیال کی ”نت نئی قانونی رائے“ کے باوجود سیاسی تاثر کی تقسیم عدالت کے اندر افراتفری اور بار اور بنچ کے درمیان جارحانہ دھڑے بندی کا خطرہ بڑھا رہی ہے۔

چیف جسٹس بندیال نے ایگزیکٹو پر زور دیا ہے کہ عدلیہ کی ساکھ کو میڈیا کے تنقیدی حملوں سے بچایا جائے۔ یہ دووجوہ کی بنیاد پر معاملات درست کرنے کی غلط کوشش ہے۔ یہ بات اکثر کی جاتی ہے لیکن میں یہاں ایک بار پھر اسے دہرانا چاہتا ہوں کہ جج حضرات اپنا دفاع دیانت دار ی اور اپنے درست فیصلوں کی طاقت سے کرتے ہیں، نہ کہ ایگزیکٹو حکم ناموں کے ذریعے۔آج کے دور میں اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ غریب اور پسماندہ افراد کے مفادات کا تحفظ کریں۔ ان طبقات کو انصاف اور داد رسی کی فوری ضرورت ہے، نہ کہ گدلی اشرافیہ کو جو خود ہی قانون بناتی اور توڑتی ہے۔مزید یہ کہ اگر عدلیہ خود کو ریاست کا آزاد ستون سمجھتی ہے تو اسے میڈیا کو وہی حیثیت دینی چاہیے جو آئین کہتا ہے۔ اس حوالے سے ایگزیکٹو کو میڈیا کے پرکترنے کا کہنا ناقابل قبول ہے۔ پاکستانی میڈیا کی حالت زار پر کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز کی حالیہ رپورٹ کا لب لباب بیان کرنا ضروری ہے تاکہ ایسے تصورات کا بھرم چاک کیا جاسکے۔

2021ء میں پانچ صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کردیا گیا۔دو نے خود کشی کر لی کیوں کہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت نہیں کرسکتے تھے۔ سات ٹارگٹ حملوں میں زخمی ہوگئے۔چار شدید زخمی ہوئے۔ اٹھائیس پر حملے کیے گئے۔ چار ”گم“ ہوگئے۔ بہت سوں کو حکومت کے میڈیا ٹرولز نے آن لائن ہراساں کیا۔ دس پر ایف آئی آر کٹوائی گئیں اور اُنہیں پولیس اسٹیشنوں میں لے جایاگیا۔ میڈیا ہاؤسز، ٹی وی چینلوں کو زبردستی بند کیاگیا، اُنہیں پیمراکی طرف سے نوٹس بھجوائے اور بھاری جرمانے کیے گئے اور خبریں سنسر کرنے پر مجبورکیاگیا۔ کئی ایک صحافی پاکستان سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ اُن میں سے دو کاتعاقب کرکے بیرون ملک جان سے مار دیاگیا، جب کہ ایک کا ”کنٹریکٹ“ ابھی فعال ہے جو قاتلانہ حملے سے بال بال بچاہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ممکن ہے کہ محترم چیف جسٹس اپنے تصورات پر نظر ثانی کرناچاہیں کہ حکومت یا اسٹبلشمنٹ کو ”کیچڑ اچھالنے اور اختلاف کرنے“ والوں کی زبان بند کردینی چاہیے۔

جسٹس بندیال بہت پریشان کن حالات میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کا اعلیٰ ترین منصب سنبھال رہے ہیں۔ اب تک عدلیہ نے کھل کر عمران خان کا تحفظ کیا ہے۔ اس کے فیصلوں سے موجودہ وزیرا عظم کی حمایت کا تاثر مضبوط ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو شریف اور بھٹو خاندانوں کی بدعنوانی کا پھیلایا ہوا تاثر ہے۔ ایک وجہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کا باریاں لینے کا فسانہ ہے۔ اورایک وجہ یہ ہے کہ شاید ”مسٹرکلین“سے بھرپور امید لگالی گئی تھی کہ وہ ”نیا پاکستان“ تعمیر کرتے ہوئے تمام وعدے پورے کردیں گے۔تاہم کم وبیش چار سال گزرنے کے بعد آج اس مقبول عام نتیجے سے صرف نظر کرنا ناممکن ہے کہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی بدعنوانی اور احتساب کے بیانیے کی جگہ موجودہ ہائبرڈ بندوبست کی بدعنوانی اور نااہلی نے لے لی ہے۔ اس کی وجہ سے عمران کے حامیوں کے نزدیک اُن کی چمک ماند پڑ چکی ہے اور اُن کے ناقدین کے نزدیک اُن کے چہرے سے مزید نقاب اُتر گیا ہے۔ اس صورت حال نے اسٹبلشمنٹ کو مجبور کیا ہے کہ وہ ایک صفحے پر ہونے کے بیانیے کو خاموش کرا کر منظر عام سے پیچھے ہٹ جائے۔ اس نے ریاستی اداروں کو اپنی آئینی خود مختاری دکھانے کا حوصلہ دیا ہے۔

حالیہ دنوں سپریم کورٹ کے رویے میں بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی جب جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کے فیصلے کو تبدیل کردیا گیا۔ جسٹس بندیال کاشمار اُن ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دونوں مرتبہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے ابھی تک جسٹس عیسیٰ کو سپریم کورٹ سے نکال باہر کرنے کی کوششیں ترک نہیں کیں۔ اس لیے اب تمام نظریں جسٹس بندیال پر مرکوز ہوں گی۔ پشاور ہائی کورٹ بھی کم و بیش دوسال بعد جاگی ہے۔ اس نے تحریک انصاف کی حکومت کی مالم جبہ، بلین ٹری منصوبے،خیبر بنک، بی آرٹی، وغیرہ پر بے پناہ بدعنوانی کے کیسز کو دوبارہ کھولا ہے۔ اسلام آباد ہائی کور ٹ نے چیئرمین نیب کو توہین کے الزامات کا جواب دینے کا حکم دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کیس کی دستاویز آہستہ آہستہ جاری کررہا ہے۔ عمران خان اس کیس کے نتیجے میں نااہل ہوسکتے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے عمران خان کے من پسند، دریائے راوی منصوبے کی اہم ڈویلپمنٹ کو معطل کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے کچھ اہم رہنماؤں کی الیکشن کمیشن کے ہاتھوں نااہلی نوشتہ دیوار دکھائی دیتی ہے۔ یہ پیش رفت حنیف عباسی کی عمران خان کے خلاف 2018ء کی نااہلی کی درخواست اور اس کے نتائج سے مختلف ہے۔اس وقت اسلام آبادہائی کورٹ نے حنیف عباسی کی درخواست کو ”صادق اور امین“ کے تزارو پر تول کر مسترد کردیاتھا کہ شادی کے بغیر کسی بچی کا باپ بننا اور اسے اپنی بیٹی تسلیم نہ کرنا ”ذاتی معاملہ“ ہے، نہ کہ قانونی۔ خیر اس سودے بازے میں بھی قانون شکنی ہوئی تھی۔

ریاست کا موجودہ بحران سیاسی جماعتوں کی ساکھ یا ہائبرڈ سیاسی نظام کی بقا تک محدود نہیں۔ اس نے اسٹبلشمنٹ کی قومی سلامتی کی پالیسیوں پر بھی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ سپریم کورٹ عوام کی مرضی سے بیگانہ رہتے ہوئے ان کی مخالفت سمت نہیں جاسکتی۔ ان حالات میں چیف جسٹس، عمرعطا بندیال کادورتاریخی نتائج کا حامل ہوگا:  بہتر یا بدتر۔

Also Read:

Spoke Too Soon: PTI Vows To Challenge LHC Verdict In SC Moments After Celebrating It

Yet Another Constitutional Crisis In Punjab As LHC Orders Recounting Of Votes For CM Election

Tags: Najam SethiEditorial UrduNajam Sethi's Editorialnajam sethi latest editorialnajam sethi latest todayurdu editorialthe friday times editorialbehtar ya badtar
Previous Post

Rising Terror Attacks Due To PTI’s Disregard For National Action Plan: Opposition

Next Post

Govt Accepts Former CJ Gulzar’s Request For Security

TFT Features Desk

TFT Features Desk

Next Post
Justice Bandial arrives at the apex of the apex court in troubled times.

Justice Bandial arrives at the apex of the apex court in troubled times.

Search

No Result
View All Result

Recent News

Explained: Party Position In Punjab Assembly After LHC Verdict

Explained: Party Position In Punjab Assembly After LHC Verdict

June 30, 2022
Spoke Too Soon: PTI Vows To Challenge LHC Verdict In SC Moments After Celebrating It

Spoke Too Soon: PTI Vows To Challenge LHC Verdict In SC Moments After Celebrating It

June 30, 2022
Govt Urged To Legislate Against Torture

Govt Urged To Legislate Against Torture

June 30, 2022

Twitter

Donate Us

Subscribe
The Friday Times – Naya Daur

News and views which are not fit to print.


The Friday Times is Pakistan’s first independent weekly, founded in 1989. In 2021, the publication went into collaboration with digital news platform Naya Daur Media to publish under a daily cycle.


Social Media

Latest News

  • All
  • News
  • Editorials
  • Features
  • Analysis
  • Lifestyle
Explained: Party Position In Punjab Assembly After LHC Verdict

Explained: Party Position In Punjab Assembly After LHC Verdict

by News Desk
June 30, 2022
0

The Punjab Assembly has a total of 371...

Spoke Too Soon: PTI Vows To Challenge LHC Verdict In SC Moments After Celebrating It

Spoke Too Soon: PTI Vows To Challenge LHC Verdict In SC Moments After Celebrating It

by News Desk
June 30, 2022
0

The Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) leadership's reaction to the...

Follow Us on Instagram

Follow

    The Instagram Access Token is expired, Go to the Customizer > JNews : Social, Like & View > Instagram Feed Setting, to refresh it.
  • About Us
  • The TFT Story
  • Team
  • Write for TFT
  • Online advertisement tariff
  • Donate To Us

© 2022 All Rights Reserved.

No Result
View All Result
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us

© 2022 All Rights Reserved.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist