بہتر یا بدتر

بہتر یا بدتر

پاکستان کے نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا بار اور بنچ کے سامنے پہلا خطاب لائق تبصرہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میڈیا کو عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے لیکن حکومت وقت کو اسے ججوں کو بدنام کرنے اور اسکینڈلائز کرنے سے روکنا چاہیے۔ وہ خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عدلیہ کے بارے میں بالعموم اور بعض ججوں کے بارے میں آزادانہ اور بعض اوقات ذاتی تبصروں سے بالخصوص ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جج صاحب کو فوری نتیجے پر پہنچنے سے پہلے کچھ نکات پر غور کرناچاہیے۔


پاکستان کی عدلیہ کسی طور اچھائی اور انصاف کا نمونہ نہیں ۔ ایک حالیہ عالمی سروے نے پاکستانی عدلیہ کو بدعنوانی اور نااہلی کے بین الاقوامی انڈیکس میں 145ویں نمبر پررکھا ہے ۔ ناقدین اسے ”ایگزیکٹوکا آلہ کار“ بھی قرار دیتے ہیں، اور شاید اس میں کچھ مبالغہ بھی نہیں کیوں کہ وہ سول ملٹری اسٹبلشمنٹ کی خدمات بجالاتی رہی ہے۔ عوامی سطح پر یہ بات کہتی جاتی ہے کہ وہ ماتحت عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے لیے وکیل کی بجائے جج کی خدمات حاصل کرلینا بہتر سمجھتے ہیں۔


اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں نے مشکوک ”نظر یہ ضرورت“ کے تحت ملک میں لگنے والے تمام مارشل لاؤں کی توثیق کی جب منتخب وزرائے اعظم کو بدعنوانی یا بدانتظامی کے الزامات لگاکر عہدے سے ہٹایا گیا۔ اس دوران بے جا مراعات اور پلاٹوں کے پلاٹ سمیٹتے وقت اُن کے ضمیر نے شاید ہی کبھی اُنھیں بے چین کیا ہو۔ ایک موقع پر تنک مزاج چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک آمر کے خلاف عوامی جمہوری احتجاجی تحریک چلائی۔ لیکن ”انقلابی بیداری“ کی لہر جلد ہی ذاتی انا کی تسکین، بڑھتے ہوئے عزائم اور اندھا دھندسوموٹو کا سونامی بن گئی۔


حالیہ دنوں دو چیف جسٹس، آصف کھوسہ اور ثاقب نثار نے بہت سے ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے سپریم کورٹ کو آزادی کے بعد  کسی بھی دور سے زیادہ بدنامی اور تضحیک کا نشانہ بننا پڑا۔ درحقیقت سپریم کورٹ کو تابناک کرنے والی جسٹس عمر عطابندیال کی ”نت نئی قانونی رائے“ کے باوجود سیاسی تاثر کی تقسیم عدالت کے اندر افراتفری اور بار اور بنچ کے درمیان جارحانہ دھڑے بندی کا خطرہ بڑھا رہی ہے۔


چیف جسٹس بندیال نے ایگزیکٹو پر زور دیا ہے کہ عدلیہ کی ساکھ کو میڈیا کے تنقیدی حملوں سے بچایا جائے۔ یہ دووجوہ کی بنیاد پر معاملات درست کرنے کی غلط کوشش ہے۔ یہ بات اکثر کی جاتی ہے لیکن میں یہاں ایک بار پھر اسے دہرانا چاہتا ہوں کہ جج حضرات اپنا دفاع دیانت دار ی اور اپنے درست فیصلوں کی طاقت سے کرتے ہیں، نہ کہ ایگزیکٹو حکم ناموں کے ذریعے۔آج کے دور میں اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ غریب اور پسماندہ افراد کے مفادات کا تحفظ کریں۔ ان طبقات کو انصاف اور داد رسی کی فوری ضرورت ہے، نہ کہ گدلی اشرافیہ کو جو خود ہی قانون بناتی اور توڑتی ہے۔مزید یہ کہ اگر عدلیہ خود کو ریاست کا آزاد ستون سمجھتی ہے تو اسے میڈیا کو وہی حیثیت دینی چاہیے جو آئین کہتا ہے۔ اس حوالے سے ایگزیکٹو کو میڈیا کے پرکترنے کا کہنا ناقابل قبول ہے۔ پاکستانی میڈیا کی حالت زار پر کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز کی حالیہ رپورٹ کا لب لباب بیان کرنا ضروری ہے تاکہ ایسے تصورات کا بھرم چاک کیا جاسکے۔


2021ء میں پانچ صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کردیا گیا۔دو نے خود کشی کر لی کیوں کہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت نہیں کرسکتے تھے۔ سات ٹارگٹ حملوں میں زخمی ہوگئے۔چار شدید زخمی ہوئے۔ اٹھائیس پر حملے کیے گئے۔ چار ”گم“ ہوگئے۔ بہت سوں کو حکومت کے میڈیا ٹرولز نے آن لائن ہراساں کیا۔ دس پر ایف آئی آر کٹوائی گئیں اور اُنہیں پولیس اسٹیشنوں میں لے جایاگیا۔ میڈیا ہاؤسز، ٹی وی چینلوں کو زبردستی بند کیاگیا، اُنہیں پیمراکی طرف سے نوٹس بھجوائے اور بھاری جرمانے کیے گئے اور خبریں سنسر کرنے پر مجبورکیاگیا۔ کئی ایک صحافی پاکستان سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ اُن میں سے دو کاتعاقب کرکے بیرون ملک جان سے مار دیاگیا، جب کہ ایک کا ”کنٹریکٹ“ ابھی فعال ہے جو قاتلانہ حملے سے بال بال بچاہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ممکن ہے کہ محترم چیف جسٹس اپنے تصورات پر نظر ثانی کرناچاہیں کہ حکومت یا اسٹبلشمنٹ کو ”کیچڑ اچھالنے اور اختلاف کرنے“ والوں کی زبان بند کردینی چاہیے۔


جسٹس بندیال بہت پریشان کن حالات میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کا اعلیٰ ترین منصب سنبھال رہے ہیں۔ اب تک عدلیہ نے کھل کر عمران خان کا تحفظ کیا ہے۔ اس کے فیصلوں سے موجودہ وزیرا عظم کی حمایت کا تاثر مضبوط ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو شریف اور بھٹو خاندانوں کی بدعنوانی کا پھیلایا ہوا تاثر ہے۔ ایک وجہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کا باریاں لینے کا فسانہ ہے۔ اورایک وجہ یہ ہے کہ شاید ”مسٹرکلین“سے بھرپور امید لگالی گئی تھی کہ وہ ”نیا پاکستان“ تعمیر کرتے ہوئے تمام وعدے پورے کردیں گے۔تاہم کم وبیش چار سال گزرنے کے بعد آج اس مقبول عام نتیجے سے صرف نظر کرنا ناممکن ہے کہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی بدعنوانی اور احتساب کے بیانیے کی جگہ موجودہ ہائبرڈ بندوبست کی بدعنوانی اور نااہلی نے لے لی ہے۔ اس کی وجہ سے عمران کے حامیوں کے نزدیک اُن کی چمک ماند پڑ چکی ہے اور اُن کے ناقدین کے نزدیک اُن کے چہرے سے مزید نقاب اُتر گیا ہے۔ اس صورت حال نے اسٹبلشمنٹ کو مجبور کیا ہے کہ وہ ایک صفحے پر ہونے کے بیانیے کو خاموش کرا کر منظر عام سے پیچھے ہٹ جائے۔ اس نے ریاستی اداروں کو اپنی آئینی خود مختاری دکھانے کا حوصلہ دیا ہے۔


حالیہ دنوں سپریم کورٹ کے رویے میں بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی جب جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کے فیصلے کو تبدیل کردیا گیا۔ جسٹس بندیال کاشمار اُن ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دونوں مرتبہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے ابھی تک جسٹس عیسیٰ کو سپریم کورٹ سے نکال باہر کرنے کی کوششیں ترک نہیں کیں۔ اس لیے اب تمام نظریں جسٹس بندیال پر مرکوز ہوں گی۔ پشاور ہائی کورٹ بھی کم و بیش دوسال بعد جاگی ہے۔ اس نے تحریک انصاف کی حکومت کی مالم جبہ، بلین ٹری منصوبے،خیبر بنک، بی آرٹی، وغیرہ پر بے پناہ بدعنوانی کے کیسز کو دوبارہ کھولا ہے۔ اسلام آباد ہائی کور ٹ نے چیئرمین نیب کو توہین کے الزامات کا جواب دینے کا حکم دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کیس کی دستاویز آہستہ آہستہ جاری کررہا ہے۔ عمران خان اس کیس کے نتیجے میں نااہل ہوسکتے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے عمران خان کے من پسند، دریائے راوی منصوبے کی اہم ڈویلپمنٹ کو معطل کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے کچھ اہم رہنماؤں کی الیکشن کمیشن کے ہاتھوں نااہلی نوشتہ دیوار دکھائی دیتی ہے۔ یہ پیش رفت حنیف عباسی کی عمران خان کے خلاف 2018ء کی نااہلی کی درخواست اور اس کے نتائج سے مختلف ہے۔اس وقت اسلام آبادہائی کورٹ نے حنیف عباسی کی درخواست کو ”صادق اور امین“ کے تزارو پر تول کر مسترد کردیاتھا کہ شادی کے بغیر کسی بچی کا باپ بننا اور اسے اپنی بیٹی تسلیم نہ کرنا ”ذاتی معاملہ“ ہے، نہ کہ قانونی۔ خیر اس سودے بازے میں بھی قانون شکنی ہوئی تھی۔


ریاست کا موجودہ بحران سیاسی جماعتوں کی ساکھ یا ہائبرڈ سیاسی نظام کی بقا تک محدود نہیں۔ اس نے اسٹبلشمنٹ کی قومی سلامتی کی پالیسیوں پر بھی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ سپریم کورٹ عوام کی مرضی سے بیگانہ رہتے ہوئے ان کی مخالفت سمت نہیں جاسکتی۔ ان حالات میں چیف جسٹس، عمرعطا بندیال کادورتاریخی نتائج کا حامل ہوگا:  بہتر یا بدتر۔