نیشنل ایکشن پلان؟

نیشنل ایکشن پلان؟

ایک ارب تیس کروڑ سے زائد آباد ی رکھنے والے ستاون ممالک کی تنظیم اسلامی تعاون (OIC) کی قیادت کرنے والے سعودی عرب نے شہزادہ محمد بن سلمان کی راہ نمائی میں ریاست اور معاشرے کی اصلاحی تبدیلی کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ کیا اس میں پاکستان کے لیے کوئی سبق ہے؟ غور کیجیے۔


وہابیت، بنیاد پرست اسلامی نظریہ اور عمل کی وہ شاخ جو طویل عرصے سے ہاؤس آف سعود کے تحت سعودی عرب کی فکری اساس رہی ہے۔اب اسے شعوری طور پر ریاستی پالیسی کے تحت پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔اس مملکت کی جغرافیائی اور نظری سرحدیں عالمی معیشت کے لیے کھولی جارہی ہیں۔ یہ اُس وقت کے لیے تیاری ہے جب کم ہوتی ہوئی تیل کی آمدنی اس کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا نہیں کر سکے گی۔ تین اہم اقدامات نئے سعودی عرب کی نشانی ہیں۔


سعودی خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اسلحے اور سیکورٹی کے لیے امریکہ پر انحصار تیزی سے کم کیا جا رہا ہے۔ فرانس اور روس دسیوں اربوں مالیت کے جدید ترین لڑاکا طیارے اور میزائل سسٹم بیچ رہے ہیں۔ ریاض اب ایران، قطر اور یمن کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرنے کے لیے تیار ہے جن کے ساتھ وہ کئی دہائیوں سے تنازعات کا شکار رہا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے جارہا ہے۔ یہ قدم مسلم دنیا کے سیاسی نقطہ نظر اور منظر نامے کو ہمیشہ کے لیے بدل سکتا ہے۔


سعودی سیاسی اسلام کو بھی پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ دنیا بھر میں وہابی مساجد اور ملاؤں کے لیے سعودی فنڈنگ ختم ہو رہی ہے۔ ملکی قوانین کو تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ سعودی خواتین کو عبایا،مرد ملازموں کے بغیر سفر کرنے اورگاڑی چلانے کی اجازت ہو۔ وہ بھی ان تبدیلیوں کا جشن منانے کے لیے آزاد ہوں۔


اس گوناں گوں پیش رفت کا مقصد ثقافتی، سماجی اور سیاسی ماحول کو تبدیل کرنا ہے۔ ایسا ماحول جس میں بحیرہ احمر کے ساحل پر چار سو بلین ڈالر کا اقتصادی منصوبہ شروع ہو سکے اور پھل پھول سکے۔ اس منصوبے کا ہدف عالمی معیشت کے سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی سروسز (بینکنگ، فنانس، سیاحت، مہمان نوازی، وغیرہ) میں سے اپنا حصہ لینا ہے۔ان سروسز کا حجم کم و بیش 23 بلین ڈالر ہے۔ یہ عالمی تجارت کا 25 فیصد ہے۔ اس کا حجم سالانہ تقریباً 10 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ یہ اقدامات دبئی کی قدرے تاخیر سے کی گئی نقل ہیں۔ دبئی حالیہ دنوں بہت سے اخلاقی قوانین(خاص طور پر شادی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے) اور شہریوں کی اخلاقیات پر نگاہ رکھنے والے ضوابط میں نرمی کرتا دکھائی دیا۔


یہ تمام پیش رفت اپنی جگہ پر، لیکن اس دوران پاکستان یقینی طور پر مخالف سمت میں گامزن ہے۔اسلام ازم کی بحالی کا براہ راست تعلق ان پالیسیوں سے ہے جنہوں نے 1980 کی دہائی میں مجاہدین، 1990 کی دہائی میں جہادیوں، 2000 کی دہائی میں طالبان اور اب 2020 کی دہائی میں تحریک لبیک کو جنم دیا۔


اس عمل نے پاٍکستان کے افغانستان اور بھارت سے تعلقات بگاڑ دیے۔ اسے دہشت گردی کا خوفناک دھچکا لگا جس نے ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ ان پالیسیوں نے قلیل معاشی وسائل کو پیداواری سرمایہ کاری، ترقی، تعلیم، صحت اور غربت کے خاتمے پر خرچ کرنے کی بجائے فوجی دفاع اور سکیورٹی کی طرف موڑ دیا۔ ان گمراہ کن ریاستی پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر دیوالیہ اور سیاسی طور پر ناکام ریاست تصور کیا جاتا ہے۔


اس ہائبرڈ حکومت کے پچھلے تین سالوں میں پیسہ کہاں گیا؟ یقینا کوئی مثبت تصویر سامنے نہیں۔ تیل اور گیس کی کوئی بڑی پائپ لائن نہیں بچھائی گئی۔ کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔ کراچی، تجارت اور کامرس کی لائف لائنز کا مرکز ہے۔ لیکن شہر ابھی تک پانی صاف کرنے والے پلانٹ یا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے بغیر ہے۔ عوامی سہولیات اور کارپوریشنز پر ریاست کے وسائل پانی کی طرح بہائے جارہے ہیں۔ خطے میں مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ اب گوادر، جسے کبھی وسطی ایشیا کا گیٹ وے کہا جاتا تھا، بلوچ علیحدگی پسندوں کا ہدف ہے۔ وہاں عوام روزگار، تعلیم، بجلی، ماہی گیری وغیرہ جیسے روزمرہ کے حقوق سے محرومی پر غصے سے کھول رہے ہیں۔


سب سے زیادہ ممکنہ طور پر دھماکہ خیز پیش رفت کا تعلق بنیاد پرست ''اسلام پسند'' عناصر کو خوش کرنے کی ریاستی پالیسیوں سے ہے۔ ان کا عملی اظہار تحریک لبیک پاکستان کے دھماکہ خیز عروج سے ہوتا ہے۔ گزشتہ کچھ ماہ کے دوران پنجاب پولیس پر کیا جانے والا تشدد اور سیال کوٹ کا حالیہ واقعہ انہی پالیسیوں کا حاصل ہیں۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ گمراہ کن واحد قومی نصاب مذہب کو عوامی گفتگو میں مقدم رکھتا ہے۔ عمران خان کی طرف سے ریاست مدینہ کے حوالے، کئی ایک نام نہاد اسلامی قوانین جدید دنیا کی روز مرہ کی زندگی اور شہری آزادیوں کے برعکس ہیں۔


آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان مسائل میں سے کچھ کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان کے تزویراتی اہداف پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیا۔ اصولی طور پر اس کا مقصد ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو معمول کی سطح پر لانا اور مغرب اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ منسلک ہونا جن کے ساتھ پاکستان تجارتی روابط رکھتا ہے۔ جن سے پاکستان اپنی بقا کے لیے بہت زیادہ قرضہ لیتا ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے ہائبرڈ حکومت میں ان کے شریک کار عمران خان اس اصلاح کو قبول کرنے سے قاصر ہیں، یا اس کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ اس کی وجہ سے عوام کی طرف سے شدید ردعمل آسکتا ہے۔ اور ان عوام کو اسٹبلشمنٹ نے ہی گزشتہ کئی دہائیوں سے برین واش کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی۔ اب یہی اسٹبلشمنٹ یوٹرن چاہتی ہے۔


اب اس میزان میں ایک اور افسوس ناک باٹ رکھا جاچکا۔ امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے پر تلا ہوا ہے۔ لہٰذا  اسے طالبان حکومت کو تسلیم کرکے اسلام آباد کی مدد کرنے یا اس کے اثاثے بحال کرکے اسے بیل آؤٹ کرنے کی کوئی جلدی نہیں۔ درحقیقت، واشنگٹن پاکستان پر افغانستان میں القاعدہ اور داعش کے خلاف اپنی جنگ میں اتحادی بننے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان دھشت گردی کے خوف ناک ردعمل کا سامنے کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دریں اثنا، امریکہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کررہا ہے۔اب وہ اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ، خاص طور پر اقلیتوں کی حقوق سے محرومی، جابرانہ مذہبی قوانین، گمشدگیوں، میڈیا سنسرشپ اور کریک ڈاؤن وغیرہ کو مانیٹر کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔


وقت آگیا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کچھ تلخ حقائق کو تسلیم کریں۔ پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہا ہے۔ اسے داخلی ٹکراؤ اور تصادم نے نڈھال کررکھا ہے۔ اس کا سیاسی نظام تنزلی کا شکار ہے۔ اس کی سول ملٹری قیادت کمزور،اورجمود کو تبدیل کرنے کی ہمت اور وژن سے محروم ہے کیونکہ وہ اپنی مراعات قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کاغذ کا ایک بے کار پرزہ ہے۔ کیونکہ اس پر عمل درآمد کسی کی مرضی نہیں۔ ہمیں پہلے بھی خبردار کر دیا جا چکا ہے۔غیر تعلیم یافتہ اورغیر ہند مند عوام مینار سے نشر ہونے والی صدا سننے اور اپنے غیض و غضب کا اظہارکرنے کے لیے کمر باندھ رہے ہیں۔