• About Us
  • The TFT Story
  • Team
  • Write for TFT
  • Online advertisement tariff
  • Donate To Us
Saturday, June 25, 2022
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us
No Result
View All Result
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us
No Result
View All Result
No Result
View All Result
Home Editorial Urdu

بدھ ۔۔۔ یوم سیاہ

TFT by TFT
November 19, 2021
in Editor's Picks, Editorials, Main Slider
Black Wednesday
632
SHARES
Share on FacebookShare on Twitter

سترہ نومبر کا بدھ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔ اس دن تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے درجنوں بل منظور کرا ڈالے۔ پارلیمانی روایت اور قانونی ضرورت کے تحت ان پر بحث کا تو ذکر ہی کیا، حزب اختلاف کو زیادہ تر بلوں کا متن پڑھنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ ان میں سے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو مسلط کرنے کا انتہائی متنازعہ بل بھی شامل تھا (جس نے پہلے بہت سی درست وجوہات کی بناپر اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا، خاص طور پر اس لیے کہ انتخابات میں دھاندلی کے لیے ان مشینوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے) ۔ ایک بل جس میں 90   لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستان کے انتخابات میں ووٹ دینے کا حق دیا گیا ہے۔ اس اسکیم سے انتخابی نتائج میں دھاندلی اور ردوبدل، دونوں کا خطرہ موجود ہے۔ریپ کرنے والوں کو جنسی طور پر غیر فعال بنانے کا بل۔ جدید تاریخ میں ایسی سزا کی مثال نہیں ملتی، وغیرہ۔ اس پیش رفت سے کئی اہم نکات سامنے آتے ہیں۔

سب سے پہلے، حکومت کی طرف سے مشترکہ اجلاس کو اس وقت ملتوی کر دیا گیا جب اس کے اتحادی شراکت داروں نے حکمران جماعت سے ناراضی کا اظہار کیاتھا۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ وہ اجلاس سے غیر حاضر ہوکر حکومت کو قانون سازی کے لیے درکار تعداد سے محروم کر سکتے ہیں۔ اس پر اسٹبلشمنٹ میدان میں اترآئی۔ اس نے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرنے سے گریز اور حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو جھکنے پر مجبور کردیا۔ ایک ایسی حکومت جو ایوان کا اعتماد کھونے، چنانچہ حق حکمرانی سے محروم ہونے کے دھانے پر تھی،کو غیر فطری سہارا دے کر کھڑا کردیا گیا۔ اس نے تین سال پہلے کی یاد تازہ کردی جب اسی اسٹبلشمنٹ نے آرٹی ایس میں گربڑ کرتے ہوئے انتخابی نتائج تبدیل کردیے اور تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا تھا۔

دوسرا، قانون اور آئین کو روند ڈالا گیا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے اپوزیشن کو بولنے کی اجازت دینے یا ایوان کو تقسیم کرنے اور ووٹوں کی گنتی کرنے سے انکار کردیا۔ ایوان کے غیرجانبدار نگران کے بجائے پی ٹی آئی کے متعصب حامی کا کردار ادا کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا کہ ”ہاں“ کی آواز ”ناں“ سے بلند ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اومنی بس بل پیکج (ایک مسودہ جس میں مختلف قسم کے قوانین شامل کردیے جاتے ہیں) کی منظوری کے لیے ایوان میں موجود افراد کی سادہ اکثریت درکار ہے۔ اپوزیشن کا اصرار تھا کہ دونوں ایوانوں میں منتخب ہونے والوں کی اکثریت ضروری ہے۔ سپیکر نے آئین کی ایک شق پر زور دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سے کسی میں بھی پیش ہونے والے بل کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے وہاں موجود افراد کی سادہ اکثریت کے ذریعے منظور کیا جاسکتا ہے۔ چاہے اسے کسی ایک ایوان میں منظور کرانا ممکن نہ ہو۔ مذکورہ شق کی تشریح اس اہم حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ مشترکہ اجلاس صرف کسی بل کو مسترد کرنے یا ترمیم کرنے کے کسی بھی ایوان کے فیصلے کو ختم کرنے کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔یہ کسی ایسے ایوان کو نظرانداز کرنے کے لیے دستیاب نہیں جس میں بل پیش نہیں کیا گیا ہو، چہ جائیکہ مسترد کردیا گیا ہو۔

دنیا بھر میں دوایوان رکھنے والے پارلیمانی نظام میں، ایوان بالا یا سینیٹ جو بالواسطہ طور پر وفاقی اکائیوں کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، کا مقصد ایوانِ زیریں یا قومی اسمبلی جو براہِ راست منتخب ہوتا ہے، کو چیک کرنا اور توازن قائم کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد قومی اسمبلی کو کمزور کرنا نہیں ہوتا۔ سینیٹ کو قومی اسمبلی سے آنے والے بل کو مسترد کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کو سینیٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے مشترکہ اجلاس بلانے کا حق حاصل ہے۔ لیکن موجودہ معاملے میں سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے والی حزب اختلاف نے بلیک بدھ کے روز مسلط کیے گئے زیادہ تر بلوں کو نہ دیکھا، نہ پڑھا اور نہ ہی ان پر بحث کی۔ یہاں تک کہ ای وی ایم بل بھی سینیٹ میں بحث کے لیے زیر التوا تھا اور اس نے اسے ابھی مسترد نہیں کیا تھا۔ اس طرح، اپوزیشن ممکنہ طور پر اس مخصوص آئینی شق کے لاگو ہونے کے حوالے سے سپیکر کے فیصلے کو عدالتوں میں چیلنج کرے گی کیوں کہ سینیٹ میں یہ بل بھی پیش نہیں کیے گئے تھے۔

تیسرا، اس واقعہ نے ان قیاس آرائیوں کو پھر سے جنم دیا ہے کہ پی ٹی آئی اوراسٹبلشمنٹ کے درمیان ناپاک اشتراک کی سند رکھنے والا ایک پیج کا بیانیہ نہ صرف زندہ، بلکہ پوری توانائی سے فعال بھی ہے۔ اس پر حزب اختلاف کو مایوسی ہوئی ہوگی۔اہم مسائل پر فریقین کے درمیان تناؤ پر بہت سی امیدیں باندھ لی گئی تھیں۔

درحقیقت حزب اختلاف نے اسٹبلشمنٹ سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف کرلیا تھا۔ ان کے سیاسی نقصان کی اصل وجہ تو اسٹبلشمنٹ ہی تھی لیکن انہیں شاید اب سیاسی طور پر غیر جانب دا ر رہنے،اور عمران خان کو نظر انداز کرتے ہوئے دیگر آپشنز پر غور کرنے یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ حزب اختلاف کی اس پالیسی کی وکالت بلاول بھٹو اور شہباز شریف کررہے تھے۔ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی رائے اس کے برعکس تھی۔  اب اپوزیشن کو مل بیٹھ کر یہ طے کرنا ہو گا کہ آیا یہ واقعہ مختلف وجوہات کی بناپر عمران خان کے لیے اسٹبلشمنٹ کی عارضی دست گیری ہے یا پھر اسٹبلشمنٹ نے ان کے ساتھ ایک بار پھر دھوکہ کیا ہے اور اس پر آئندہ بھروسا نہیں کیا جا سکتا؟

تجزیہ کاروں کا اتفاق رائے ہے کہ اسٹبلشمنٹ  اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ موجودہ جھٹکا ان کو دو وجوہات کی بنا پر پٹری سے نہیں اتارے گا:  نمبر ایک، اسٹبلشمنٹ اس اٹل نتیجے پر پہنچ چکی کہ عمران خان اس کے کندھوں پر ایک ایسی ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے نہ صرف بطور ادارہ اس کی ساکھ کو زک پہنچ رہی ہے بلکہ یہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔ اس لیے وہ عمران خان کے علاوہ آپشنز کی تلاش جاری رکھے گی۔ نمبر دو،  اپوزیشن اس بات پر متفق ہے کہ اسے اسٹبلشمنٹ کے قائدین کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے اس کے ادارہ جاتی مفادکے حوالے سے اچھے رویے، اور اس کے ناپسندیدہ لیڈروں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی ضمانت دیناہوگی۔ اس لیے تمام نظریں نواز شریف پر مرکوز ہوں گی جن کے پاس  اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی کنجی ہے۔ اگر وہ مرکزی کردار، چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ کو نشانہ بنانے سے گریز کرتے ہیں تو یہ سمجھا سکتا ہے کہ مذاکرات اس وقت تک پردے کے پیچھے جاری رہیں گے جب تک ”ضمانتیں ” قائم نہیں ہو جاتیں۔ اس سے ایک تبدیلی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ عمران خان کو ملنے والی موجودہ حمایت کو اعتماد شکنی سمجھ کر مشتعل ہوجاتے ہیں اور دوبارہ تنقید کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں توعمران خان کو توقع سے زیادہ طویل مہلت مل سکتی ہے۔

Also Read:

Super Tax: A Bitter Pill Corporate Sector Should Swallow To Help The Country

In A Flux: Exploring The Emotions Of Karachi’s Complex Electoral Politics

Tags: yom e seyahEditorialbudh yom e seyahNajam SethiEditorial UrduNajam Sethi's EditorialEditorialsnajam sethi latesturduBlack Wednesday
Previous Post

The Only Medicine Left

Next Post

Govt Removes Castration Clause In Anti-Rape Bill After CII Terms Punishment ‘UnIslamic’

TFT

TFT

Next Post
Black Wednesday

Black Wednesday

Search

No Result
View All Result

Recent News

Super Tax: A Bitter Pill Corporate Sector Should Swallow To Help The Country

Super Tax: A Bitter Pill Corporate Sector Should Swallow To Help The Country

June 25, 2022
Super Tax Sparks Intense Discussion On Social Media

Super Tax Sparks Intense Discussion On Social Media

June 25, 2022
Ramiz Raja Looking To Develop Ties With PM Shehbaz Sharif After Losing Contact With Imran Khan

Ramiz Raja Looking To Develop Ties With PM Shehbaz Sharif After Losing Contact With Imran Khan

June 24, 2022

Twitter

Donate Us

Subscribe
The Friday Times – Naya Daur

News and views which are not fit to print.


The Friday Times is Pakistan’s first independent weekly, founded in 1989. In 2021, the publication went into collaboration with digital news platform Naya Daur Media to publish under a daily cycle.


Social Media

Latest News

  • All
  • News
  • Editorials
  • Features
  • Analysis
  • Lifestyle
Super Tax: A Bitter Pill Corporate Sector Should Swallow To Help The Country

Super Tax: A Bitter Pill Corporate Sector Should Swallow To Help The Country

by Yousuf Nazar
June 25, 2022
0

A few weeks ago when I wrote about...

Super Tax Sparks Intense Discussion On Social Media

Super Tax Sparks Intense Discussion On Social Media

by News Desk
June 25, 2022
0

Even as Prime Minister Shehbaz Sharif announced that...

Follow Us on Instagram

Follow

    The Instagram Access Token is expired, Go to the Customizer > JNews : Social, Like & View > Instagram Feed Setting, to refresh it.
  • About Us
  • The TFT Story
  • Team
  • Write for TFT
  • Online advertisement tariff
  • Donate To Us

© 2022 All Rights Reserved.

No Result
View All Result
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us

© 2022 All Rights Reserved.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist