کیا ہتھیار وں کو الوداع کہنے کا وقت آگیا؟

کیا ہتھیار وں کو الوداع کہنے کا وقت آگیا؟

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی سے کور کمانڈر پشاور بناناایک اہم پیش رفت ہے۔ گزشتہ بدھ کو آئی ایس پی آر نے اس کا اعلان کردیا تھا لیکن وزیر اعظم کے دفتر سے اس کے نوٹی فی کیشن کا تاحال انتظار ہے۔ اور یہ نوٹی فی کیشن آئینی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ تبادلہ غیر متوقع نہیں کیوں کہ اُن کے مستقبل کے پیشہ ور عزائم کی تکمیل کے لیے کسی کور کی کمان کرنا ضروری تھا۔ یہ دوسری طرف یہ بھی کوئی راز نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اُنہیں جب تک ممکن ہوتا، آئی ایس آئی کا ڈی جی رکھنا چاہتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نوٹی فی کیشن پر ہونے والی تاخیر پر چہ می گوئیاں ہورہی ہیں۔کیا عمران خان نے کسی وجہ سے اپنا ارادہ تبدیل کیا ہے؟کیا اس ابہام کی وجہ وزیرا عظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمی تھی؟


اگر اس معاملے کو جلد از جلد طے نہ کیا گیا تو ہمیں کچھ سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جنرل فیض حمید کے حوالے سے عمومی تاثرپایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے عمران خان کو اپوزیشن لیڈر سے وزیر اعظم بننے کے لیے مبینہ طور پر اہم معاونت فراہم کی۔ بدقسمتی سے مشترکہ فوائد کے لیے وضع کردہ بندوبست نے دونوں کا دامن داغ دار کردیا۔ اس کی وجہ سے ادارے کی ساکھ مجروع ہوئی اور جی ایچ کیو کی طرف سے ردعمل آیا جو بالآخر اس پیش رفت کا باعث بنا۔


یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ نواز شریف اورمریم نواز نے سیاسی آنچ بلند رکھنے میں اہم کردارادا کیا۔ اسٹبلشمنٹ کو ہدف بناتے اور تواتر سے جنرل فیض کو مبینہ غیر آئینی اقدامات پر نام لے کر تنقید کرتے ہوئے عوامی بیانیہ تبدیل کردیا۔ روایتی طور پر عوامی بیانیہ  اسٹبلشمنٹ نواز ہوتا ہے لیکن اب عوام کے تیوربدل رہے ہیں۔ چناں چہ اسٹبلشمنٹ کو اپنے سیاسی متبادل پر نظر ثانی کرنا پڑرہی ہے۔ گزشتہ سوموار کو مریم نوا زکی اسلام آبادہائی کورٹ میں دی گئی درخواست بھی ایک کاری ضرب تھی۔ درخواست میں جنرل فیض حمید کے مبینہ کردار کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ اُنہوں نے نواز شریف اور مریم نواز، دونوں کو بے بنیاد الزامات کے باوجود سزائیں دلانے کے لیے عدلیہ پر دباؤڈالاتھا۔


ایک دن بعد جب چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان ملاقات کے دوران جنرل فیض کے تبادلے اور اُن کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی نامزد کرنے پربات کررہے تھے، مریم نواز نے جنرل فیض حمید پر پوری شدت سے تنقیدی حملے شروع کردیے۔ شاید اس کی وجہ سے جنرل فیض کو آئی ایس آئی میں رکھنے یا اُن کا جانشین خود چننے کی عمران خان کی ممکنہ کوشش کو جنرل باجوہ نے ناکام بنا دیا ہو۔


اب قیاس کیا جارہا ہے کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی، لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم من وعن اپنے پیش رو کے سیاسی نقش قدم پر نہیں چلیں گے۔ اس کی دو وجوہ ہیں:  پہلی یہ کہ وہ وزیرا عظم کی بجائے جنرل باجوہ کے نامزد کردہ ہیں، اگرچہ یہ نامزدگی وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے آئی تھی۔ دوسری، آرمی چیف آئی ایس آئی کو اپنے اہداف اور ترجیحات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ وزیرا عظم یا جنرل فیض حمید کے اہداف کی تکمیل اُن کی ممکنہ ترجیح نہیں ہوگی۔


ریاست کے ایک طاقت ورعنصر کی تائید سے محروم ہوتے ہوئے عمران خان اپنے قدم مضبوط کرنے اور دیگر ذرائع سے اپنا تحفظ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب قوانین میں ترمیم کا مقصد کابینہ اور حکومت میں موجود اپنے ساتھیوں کو این آر او فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے خود بھی اپنے سر پر این آر او کی چھتری تان لی ہے۔ یہ سب لوگ نیب کی تحقیقات اور تادیب سے محفوظ ہوگئے ہیں۔ اس دوران موجودہ چیئرمین نیب اپوزیشن کے شور شرابے اور احتجاج کے باوجود اپنی مدت میں توسیع حاصل کرچکے ہیں۔اس لیے وہ حسب دستور اپوزیشن کا گرم تعاقب جاری رکھیں گے۔


نئے چیئرمین نیب کے انتخاب کے لیے حکومت اور حز ب اختلاف کے درمیان جمود کی صورت میں مسلہئ حل کرنے کے لیے طرفین کی طرف سے چھے چھے اراکین پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ اس کے لیے رائے شماری کی جاتی ہے۔ اس میں چیئرمین، جو حکومت کا نامزد کرتا ہوتا ہے، کااپنا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس صورت میں ہمیشہ حکومت کی مرضی ہی غالب آئے گی۔ اگراس طرح بھی حل کی راہ نہ نکلے تو پھر لامحدو د مدت کے لیے موجودہ چیئرمین ہی عہدے پر برقرار رہیں گے۔ اور تاثر ہے کہ وہ ایک بلیک میلنگ ویڈیو کے تاریک دباؤ میں کام کرتے ہوئے اپنے تمام تر اختیارات وزیر اعظم کی منشا کے مطابق استعمال کررہے ہیں۔


اگر یہ تحفظ کافی نہیں تھا تو عمران خاں نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے پنڈورا پیپرز میں آف شور کمپنیوں اور ان سے فائدہ اٹھانے والے پاکستانیوں کی تحقیقات کے لیے ایک ”سیل“ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ صادق اور امین کا تعین کرنے کے لیے نہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا، نہ آئی ایس آئی کے نامزدکردہ افسر کی قیادت میں جے آئی ٹی بنی، نہ اعلیٰ عدلیہ کاعقابی نگاہیں رکھنے والا جج جرم کی تلاش میں خم ٹھونک کرمیدان میں آیا۔ یہ تمام کاوش صرف نواز شریف اور مریم کی سزاؤں تک ہی محدود تھیں۔


یہ بات قابل فہم ہے کہ جنرل فیض کی رخصتی سے نواز شریف اور مریم، دونوں خوش ہیں۔ اسٹبلشمنٹ تو پاکستان مسلم لیگ ن میں اپنے حامیوں اور مخالفین کے درمیان دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئی لیکن باپ اور بیٹی نے اپنے ناقدین کی سرکوبی ضرور کرڈالی ہے۔ ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کا وزیر اعظم ہاؤس تک کا راستہ صاف ہوگیا ہے اور وہ جب چاہیں عمران خان کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔لیکن اقتدار حاصل کرنے کے لیے درکار حالات اب سازگار ہوسکتے ہیں۔ اگر عوامی سطح پر یہ تاثر تقویت پاتا گیا کہ اب اسٹبلشمنٹ عمران خان کو تحفظ دینے اور ہر قیمت پر بچانے کے ارادے سے پھر چکی ہے تو ایک بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی یہ اشارہ پڑھ لیں گے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے پرندے اُڑنا شروع ہوجائیں گے۔ وہ مسلم لیگ ن کے پرچم تلے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے اگلی حکومت کا حصہ بننے کی تیاری کرتے دکھائی دیں گے۔ اگر خارجہ پالیسی کی ناکامی یا معاشی بحران کی سنگینی مزید شدت اختیار کرلیتی ہے۔۔۔ جس کے خدشات موجود ہیں۔۔۔ تو اسٹبلشمنٹ یقینا تحریک انصاف کی حکومت کو قربانی کا بکرا بنا تے ہوئے حزب اختلاف کی طرف ہاتھ بڑھائے گی۔


پاکستان مسلم لیگ ن کے قد آور راہ نما۔۔۔ شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، احسن ا قبال، جاوید لطیف اور دیگر کے چہرے پر مسکراہٹ نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ان کی آنکھوں میں اعتماد کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے۔ اُن کا کہنا ہے:  ”اس دسمبر کو نوا زشریف لاہور میں ہوں گے۔“ ان کے کہنے کا مطلب ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات، جو جلد ہونے جارہے ہیں، میں پارٹی کی قیادت خود کریں گے۔ ممکن ہے کہ یہ اعتماد قبل ازو قت اور انتہائی خوش فہمی ہو۔ لیکن پارٹی کی صفوں میں اعتماد بھرنے کے لیے یہ ایک اچھی حکمت عملی ہے کیوں کہ پارٹی میں دونوں بھائیوں کے مختلف بیانیے ابہام پھیلارہے تھے،ا ور ابہام مایوسی کا باعث بنتا ہے۔ اس دوران مولانا فضل اللہ اور نواز شریف اگلے ہفتے ایک مشترکہ پارٹی کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہے ہیں۔ اس میں حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے جلسے، جلسوں کا پروگرام طے کیا جائے گا۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ عمران خان کو بچانے کے لیے کس حد تک جاسکتی ہے؟ اس کے عزائم کیا ہیں؟ کیا ملکی حالات دیکھتے ہوئے اس سے چھٹکارا پانے کا ارادہ کرلیا گیا ہے؟


سیاسی پنڈٹ ایک سرد موسم سرما کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قلت واقع ہوگی۔ توانائی اور اشیائے خورد نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، بے روزگاری، مایوسی، جرائم، عالمی تنہائی، قرضے، صنعتی ہڑتالیں، دھشت گردی، غیر ملکی دھمکیاں اور پابندیاں۔ اس عالم میں ایک چنگاری بھی سرد موسم کو جوالا مکھی میں تبدیل کرسکتی ہے۔