• About Us
  • The TFT Story
  • Team
  • Write for TFT
  • Online advertisement tariff
  • Donate To Us
Sunday, July 3, 2022
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us
No Result
View All Result
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us
No Result
View All Result
No Result
View All Result
Home

بیانیے

TFT by TFT
August 6, 2021
in Editorial Urdu
46
SHARES
Share on FacebookShare on Twitter

کیا، جیسا کہ شیخ رشید کی پیش گوئی ہے، نوا زشریف اور شہباز شریف کے درمیان اختلافات کی دراڑ نمودار ہوچکی جو پاکستان مسلم لیگ ن کو تقسیم کردے گی؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا اسٹبلشمنٹ اورتحریک انصاف ہمیشہ ایک صفحے پر رہیں گے؟ نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔

شریف برادران کے درمیان حکمت عملی کی حد تک فرق البتہ موجود ہے کہ پارٹی میں کس بیانیے کو آگے بڑھایا جائے اور دوبارہ اقتدار کیسے حاصل کیا جائے؟شہباز شریف کا خیال ہے کہ نواز شریف کی طاقتوراسٹبلشمنٹ سے ٹکراؤ اور مخالفت کی سیاست ن لیگ کی مشکلات کی وجہ ہے۔ چناں چہ وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کی جانشین مریم نواز اپنے بیانیے کی حدت کم رکھیں اور کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر رہیں تاکہ اس دوران وہ اسٹبلشمنٹ کو رام کرتے ہوئے اسے غیر جانب رکھ پائیں۔ لیکن نواز شریف کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے مسائل کا ایک حصہ ہے، ان کا حل نہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے گزشتہ تین عشروں کے دوران تین مرتبہ حکومت کی قربانی دی۔ جیل اور جلاوطنی کاٹی۔ کیا صرف اس لیے کہ اب وہ ہار مان لیں تاکہ اُن کے بھائی شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان بننے کی بے سود کوشش کردیکھیں؟

مسلہئ کافی پیچیدہ ہے۔ الجھن یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے انتخابی وزن رکھنے والے زیادہ تر راہ نما  اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت چاہتے ہیں جب کہ اس کے ووٹروں کی اکثریت مریم اور نواز شریف کے مزاحمت کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہے۔ اور یہ مزاحمت اسی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ہے۔ گویا ”حقیقت پسندی“ اور ”آئین پسندی“ کی کشمکش اس وقت دونوں بھائیوں کے درمیان اختلا ف کی لکیر بنتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنے مفاہمت کے بیانیے کی حمایت میں شہباز شریف کے حالیہ دنوں سامنے آنے والے بیانات بہت جلد ٹوئیٹر پر نواز شریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف جذبات کی آندھی میں ہوا ہوگئے۔ نوا زشریف نے وہ بحث ہی ختم کردی جس نے حالیہ دنوں مسلم لیگ ن میں ابہام اور مایوسی پھیلا رکھی تھی۔ بات واضح ہوچکی۔ اب شہباز شریف پر منحصر ہے کہ کیا وہ کھلی بغاوت کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کو تقسیم کرتے ہیں یا اپنے لیڈر کے بیانیے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں؟

اگر وہ بغاوت، یعنی مسلم لیگ کی تقسیم کی طرف جاتے ہیں تو اس میں بہت سی مشکلات ہیں۔ سب سے پہلی یہ کہ مقبول عام ووٹ نواز شریف اور مریم کے ساتھ ہے۔ انتخابی میدان کے پہلوان بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں۔اس لیے شہباز شریف کے نام کی مناسبت سے پاکستان مسلم لیگ ش کی کوئی اہمیت نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اسٹبلشمنٹ شہباز شریف کے الگ ہوتے ہوئے دھڑے کو عمران خان کی دوبارہ ابھرتی ہوئی تحریک انصاف پر ترجیح نہیں دے گی کیوں کہ اس نے اب تک اسٹبلشمنٹ کی نگاہ میں کافی اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ درحقیقت پاکستان مسلم لیگ ن میں پڑنے والی دراڑ تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کو تقویت پہنچائے گی۔ اس کا شہباز شریف کے بیانیے کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

نوازشریف کے بیانیے کے ساتھ بھی دومسائل ہیں۔ اسٹبلشمنٹ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی اجازت دے کر نواز شریف کو اقتدار میں آنے کا موقع کیوں دے گی جب نوا زشریف اعلانیہ طور پر اس کے پرکتر کراسے سیاسی میدان سے باہر کرنے کے لیے پرعزم ہیں؟ نیز کسی واضح اور ٹھوس حکمت عملی کی غیر موجودگی میں اسٹبلشمنٹ اور تحریک انصاف کا راستہ روکنے کی کوشش میں نواز شریف محض اندھیرے میں تیر تو نہیں چلارہے؟ بلاشبہ، اگر آزاد کشمیر کے موجودہ انتخابات کو ایک پیشگی وارننگ کے طور پر لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے گمنامی کی دھند میں کھوجانے کے امکانات واضح ہیں۔

تاہم کچھ ابھرنے والے عوامل ایسے حقیقت پسندانہ اعدادوشمار کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان میں سب سے اوپر اسٹبلشمنٹ کے اہم کھلاڑیوں کے ذاتی عزائم کی کشمکش ہے۔ ان میں سے صرف ایک کے عزائم اگلے سال پورے ہوسکتے ہیں، او ر اس کی قسمت یا مقدر کا فیصلہ عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والی کوئی بھی کشمکش حزب مخالف کے لیے پاؤں رکھنے کی جگہ پیدا کردے گی۔ اس کے سامنے بھی ایک یا دو آپشن ابھر آئیں گے۔ دوسرا عامل ریاست اور معاشرے میں بحران کے گہرے ہوتے ہوئے بادل ہیں۔ جب یہ صورت حال کنٹرول سے باہر ہوئی تو دھماکہ خیز نتائج کی صورت اختیار کرلے گی۔

موجودہ بحران غیر معمولی بھی ہے اور کثیر پہلو بھی۔ ماضی میں معیشت یا داخلی سیاست میں اٹھنے والے بحرانوں پرقابو پانے کے لیے یا تو اسٹبلشمنٹ امریکی امداد سے معیشت کی سانسیں بحال کرادیتی تھی۔ اس کے عوض غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنا پڑتا تھا۔ یا پھر یہ اپنی طرف جھکاؤ رکھنے والے کسی اور سولین دھڑے کو اقتدار میں لے آتی تھی۔ لیکن اب ایسے امکانات کا دروازہ بند ہوچکا۔ تزویراتی معاملات پر اسٹبلشمنٹ کے امریکا کے ساتھ سنگین مسائل ہیں۔ جس کے منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ نیز اس سے پہلے اسٹبلشمنٹ کو کبھی مشرقی اور مغربی سرحدوں سے بیک وقت اتنے دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا جتنا آج۔لیکن اس کی معیشت کے عالمی سرمایہ دارانہ نظام (تجارت، امداد، نجی سرمایہ کاری، بیرونی ممالک سے آنے والی رقوم، قرضوں کی ادائیگی، زرمبادلہ کے نرخ اور پابندیاں)سے جڑے ہونے کی وجہ سے چین کا آپشن کام نہیں دے گا۔ عمران خان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بیک وقت ختم کرنے کاعزم رکھتے ہیں۔ اس صورت میں اسٹبلشمنٹ کے پاس بھی کوئی متبادل مقبول جماعت موجود نہیں۔ بدترین بات یہ ہے اسٹبلشمنٹ کو سیاسی چالبازیوں کی وجہ سے اپنے ”ہوم ٹاؤن“ پنجاب سے جس قدر تنقید کانشانہ بنایا جارہا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔جلد ہی یہ تناؤ اور الجھنیں اس کی ساکھ اور صلاحیت کو گھائل کردیں گی۔ اس کے لیے اندرونی اور بیرونی طور پر موجودہ سیاسی سمت برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

نوازشریف کا کہنا ہے کہ طاقت ور صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتا ہے، اس لیے اسٹبلشمنٹ مخالف جارحانہ بیانیہ ہی آخر میں کامیاب ہوگا۔ بظاہر پیپلز پارٹی کی راہیں الگ کراتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کا کامیابی سے پی ڈی ایم کو توڑنا ویسا ہی تھا جیسا اب شہباز شریف کو چکما دے کر پاکستان مسلم لیگ ن کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرنا۔

اب جب کہ برطانوی حکومت نے نواز شریف کی قیام بڑھانے کی درخواست مسترد کردی ہے، تحریک انصاف کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہیں۔ لیکن اس دھماکہ خیز پیش رفت سے کئی ایک سوالات اٹھتے ہیں۔ برطانوی حکومت کو اس کیس کا فیصلہ کرنے میں دوسال کیوں لگے؟ اگر وہ برطانوی فیصلے کے سامنے مزاحمت کرتے ہیں تو کیا اندرون ملک اُن کی مقبولیت کو زک پہنچے گی؟

پاکستان میں نوازشریف پر تین سالوں کے دوران کون سا ہتھیار ہے جو نہیں آزمایا گیا لیکن اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس لیے برطانوی حکومت سے اپیل کرنا اُن کے حامیوں کو مایوس نہیں کرے گا۔ یقینا وہ جانتے تھے کہ حالات کا رخ اختیار کررہے ہیں۔ اگروہ خائف ہوتے تو ابھی دو دن پہلے اسٹبلشمنٹ پر اس قدر شدید تنقید نہ کرتے۔ اُنہوں نے یقینا اپنے وکلا اور سیاسی مشیروں کے ساتھ مل کرکوئی حکمت عملی طے کررکھی ہوگی۔کیا اُن کے خیال میں عدالت اُنہیں عالمی پلیٹ فورم پر طویل موقع دے گی کہ وہ پاکستان میں اسٹبلشمنٹ، حکومت او ر عدلیہ کے ہاتھوں انتقامی کارروائی اور ناانصافی کا نشانہ بننے کا کیس پیش کرسکیں، خاص طور پر جس وقت خطے میں طوفان کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں؟

نوازشریف یقینا ایک روز پاکستان واپس آجائیں گے۔ لیکن کن شرائط پر؟ اس کا سب سے اچھا موقع اگلے انتخابات سے قبل رضاکارانہ طورپر واپس آکر عدالت کے حکم کی تعمیل کرناہوگا۔

Also Read:

جج اور جنرل

اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

Tags: Editorial Urdu
Previous Post

SUCH GUP

Next Post

!نواز شریف کا ویزا اور اہل دربار کا جشن مسرت

TFT

TFT

Next Post
About Time Pakistan Established Transgender Persons’ Right To Education

About Time Pakistan Established Transgender Persons’ Right To Education

Comments 1

  1. Ahmed Zeb says:
    11 months ago

    It’s a question of the rule of law ___ not the whim of a convicted person when it politically suits him to return ! He should return immediately and face the courts ! The rule of law , Mr Najam Sethi , is practiced the courts of a country __ not on the alter of political expediency ! _____ & you call yourself a proponent of democracy & the rule of law __ what a contradiction !!!!!

Search

No Result
View All Result

Recent News

Generals and Judges

Generals and Judges

July 3, 2022
Generals and Judges

جج اور جنرل

July 3, 2022
Pakistan’s Financial Woes: The Bottom-Line

Pakistan’s Financial Woes: The Bottom-Line

July 3, 2022

Twitter

Donate Us

Subscribe
The Friday Times – Naya Daur

News and views which are not fit to print.


The Friday Times is Pakistan’s first independent weekly, founded in 1989. In 2021, the publication went into collaboration with digital news platform Naya Daur Media to publish under a daily cycle.


Social Media

Latest News

  • All
  • News
  • Editorials
  • Features
  • Analysis
  • Lifestyle
Generals and Judges

Generals and Judges

by Najam Sethi
July 3, 2022
0

Last Friday, Ayaz Amir, a respected columnist/tv commentator,...

Generals and Judges

جج اور جنرل

by TFT Features Desk
July 3, 2022
0

گزشتہ ہفتے دنیا ٹی وی کے دفتر کے...

Follow Us on Instagram

Follow

    The Instagram Access Token is expired, Go to the Customizer > JNews : Social, Like & View > Instagram Feed Setting, to refresh it.
  • About Us
  • The TFT Story
  • Team
  • Write for TFT
  • Online advertisement tariff
  • Donate To Us

© 2022 All Rights Reserved.

No Result
View All Result
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us

© 2022 All Rights Reserved.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist