• About Us
  • The TFT Story
  • Team
  • Write for TFT
  • Online advertisement tariff
  • Donate To Us
Friday, July 1, 2022
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us
No Result
View All Result
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us
No Result
View All Result
No Result
View All Result
Home

ہم دیکھیں گے۔۔۔

TFT by TFT
July 30, 2021
in Editorial Urdu
74
SHARES
Share on FacebookShare on Twitter

الیکشن کمیشن آزاد جموں کشمیر کے مطابق 45  میں سے 25  نشستیں جیت کر پاکستان تحریک انصاف گزشتہ اتوار کو ہونے والے ریاستی انتخابات میں کامیاب جماعت قرار پائی ہے۔ گیارہ سیٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر، جب کہ مسلم لیگ ن صرف چھے سیٹیں ہی حاصل کرپائی ہے۔ زیادہ تر سیاسی مبصرین تحریک انصاف کی کامیابی کی پیش گوئی کررہے تھے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ملک کی مقبول ترین جماعت ہے (اس وقت حقیقت اس کے برعکس ہے) بلکہ ماضی کی روایت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا تھا کہ آزاد جموں کشمیر کا ووٹر اسلام آباد کی حکمران جماعت کی ہی حمایت کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ کہ وہ اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ وہ جانتا ہے کہ ریاست کی بہتری اسلام آباد کی حکومت وقت اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہے۔ اسلام آباد کے پاس مالیاتی وسائل ہیں جب کہ اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں ریاست کی انتظامیہ ہے۔

انہی وجوہ کی بنا پر ہم نے بھی مظفر آباد میں تحریک انصاف کی حکومت کی پیش گوئی کردی تھی۔ ”آزاد جموں کشمیر میں طاقت کا توازن اسٹبلشمنٹ اور اس کی حمایت یافتہ تحریک انصاف کی طرف ہے۔ اس کا پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد اس بات کویقینی بنائے گا کہ اگر صورت حال خراب ہوگئی تو وہ کولیشن حکومت بنالیں گے۔“

تاہم کچھ سنجیدہ عوامل ہماری پیش گوئی کی بنیاد تھے۔ اوّل،ہم نے نوٹ کیا تھا کہ آزاد جموں کشمیر کا الیکشن کمیشن اتنا کمزور ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں کراسکتا۔ ہم نے لکھا تھا:  ”حالیہ دنوں پیش آنے والے دو واقعات نے ان انتخابات پر گہرے سائے ڈال دیے ہیں۔ پہلا، تحریک انصاف کے کشمیر اور گلگت کے امور کے وزیر، علی امین گنڈا پورنے انتخابی قواعد وضوابط کو دیدہ دلیری سے پامال کیا ہے۔ درحقیقت وہ آخری وقت تک انتخابی مہم چلاتے رہے حالاں کہ الیکشن کمیشن نے اُنہیں علاقے سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ اس سے الیکشن کمیشن کی کمزوری کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی نافذ کرنے اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد کرانے کے قابل نہیں۔ دوسرا واقعہ آزاد جموں کشمیر میں حساس ادارے کے سٹیشن کمانڈر کے حوالے سے ہے۔ اس پر انتخابات پر اثر اندازہوکر تحریک انصاف کے ایک مخصوص فنانسر کو آزاد جموں کشمیر کا اگلا وزیر اعظم بنانے کی کوشش کا الزام تھا۔“

عملاً ہمارا تجزیہ ہماری توقعات سے بھی زیادہ درست ثابت ہوا۔ تحریک انصاف کی جیت اور مسلم لیگ ن کی شکست کے درمیان فرق کئی ایک ٹھوس وجوہ کی بنا پر ناقابل یقین ہے۔

پہلی، واقعاتی شہادت قابل غور ہے۔ مریم نواز کے انتخابی جلسے بہت متاثر کن تھے توعمران خان کے جلسوں میں بددلی نمایاں تھی۔ بلاول تو انتخابی مہم درمیان میں چھوڑ کر امریکا چلے گئے تھے۔ اب جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ آنکھوں دیکھے حقائق کے برعکس ہیں۔

دوسری، سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیو کسی ایک یاد وسرے طریقے سے دھاندلی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں الیکشن کمیشن کے سٹاف ممبران کے پاس ووٹوں سے بھرے ہوئے تھیلے ہیں اور شکایت کررہے ہیں کہ ریٹرن آفیسر مکمل ریکارڈ کے بغیر ہی غائب ہوگیا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں فوجیوں کی ویگن پر تحریک انصاف کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ ایک ٹی وی شو کا کلپ بہت دلچسپ ہے۔ کراچی سے پیپلز پارٹی کے ایک وزیر، نبیل گبول کھلے الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں کہ ”ہم سے سولہ سیٹوں کا وعدہ کیاگیا تھا لیکن ہمیں صرف گیارہ ملیں۔“جب پوچھا گیا کہ ایسا غیر معمولی وعدہ کس نے کیا تھا تو وہ چھینب گئے اورمسکراتے ہوئے کہا،”بے شک ووٹروں نے کیا تھا“۔ اس پر پینل میں موجود دیگر شرکا نے شرمندگی بھر ا قہقہہ لگایا۔ مسلم لیگ ن کی آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن پر تنقید ریکارڈ پر ہے کہ اس نے بہت اہم حلقوں کے نتائج ایک گھنٹے سے بھی زیادہ وقت کے لیے روکے رکھے۔ اس کا مطلب ہے کہ مخصوص حلقوں کے نتائج تبدیل کیے جارہے تھے۔

اعدادوشمار سے ہدفی دھاندلی کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے۔ تحریک انصاف نے 32 فیصد ووٹ حاصل کیے اور اس کی 25 سیٹیں ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن نے 25 فیصد ووٹ حاصل کیے لیکن اس کی صرف چھے سیٹیں ہیں۔غیر معمولی بات یہ ہے کہ اٹھارہ فیصد ووٹ حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کی گیارہ سیٹیں ہیں (جس کے لیے مسٹر گبول کو مشکور ہونا چاہیے)۔ سادہ اکثریت سے جیتنے کے اصول پر اس غیر معمولی صورت حال کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی۔

انتخابی مہم کے اختتامی لمحات میں نوا ز شریف اور مریم نواز نے ووٹروں کو خبردار کیا تھا کہ اسٹبلشمنٹ الیکشن چرانے کی ویسی ہی کوشش کرسکتی ہے جیسی اس نے 2018 ء میں کی تھی۔ اُنہوں نے زور دیتے ہوئے کہا، ”اپنے ووٹوں کی حفاظت کرنا۔ اگر تمہارے ووٹوں کاتقدس پامال ہوا تو ملک، قوم اور آئین کو زک پہنچے گی۔“ایسا لگتا ہے کہ اس للکار پر واحد ردعمل اسٹبلشمنٹ کی طرف سے آیا جس نے سب رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے تحریک انصاف کو واضح برتری دلادی۔اگر پیپلز پارٹی کو وعدے کے مطابق سولہ سیٹیں دے دی جاتیں تو تحریک انصاف کے ہاتھ بیس سے زیادہ سیٹیں نہ آتیں۔ چنانچہ مظفر آباد میں مخلوط حکومت بنانی پڑتی۔زخموں پرمزید نمک پاشی کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ نے سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں بھی تحریک انصاف کو اس حلقے میں کامیابی دلادی جہاں مسلم لیگ ن 2018  ء میں آسانی سے جیت گئی تھی۔

اس نتیجے نے ایک سنجیدہ بحث چھیڑ دی ہے کہ اب اس ملک، خاص طور پر مسلم لیگ ن کی قسمت میں کیا ہے؟ کیا یہ واضح اشارہ ہے کہ پاکستانیوں کی نظروں میں ساکھ کھونے کے باوجود  اسٹبلشمنٹ عمران خان کا ہر صورت ساتھ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ اس نے سیاست میں غیر جانب دار رہنے کا صفحہ ہمیشہ کے لیے پھاڑ دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 2022-23  کے عام انتخابات بھی دھاندلی زدہ ہوں گے اور مزید پانچ سال کے لیے اقتدار عمران خان کے پاس ہی رہے گا؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو خوش کرنے کا شہباز شریف کا بیانیہ اور چیلنج کرنے کا نواز شریف کا بیانیہ ناکام ہوچکا؟

لیکن،جیسا کہ کہا جاتا ہے، ہنوز دہلی دور است۔ مسلم لیگ ن کے رجائیت پسندوں کو یقین ہے کہ ذاتی مفاد کے اس کھیل میں اسٹبلشمنٹ کی اعلیٰ قیادت کی صفوں میں ضرور دراڑپڑے گی اور یہ سہ فریقی مثلث ضرور ٹوٹے گی جو پاکستان کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس سے یا شہباز شریف،یا نواز شریف کے لیے سیاسی گنجائش نکلے گی۔ کچھ دعائیں کررہے ہیں کہ عمران خان سے ایسی سنگین غلطی سرزد ہوجائے جو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کا بھرم چاک کردے۔ کچھ کو یقین ہے کہ ناکام ہوتی ہوئی معیشت،گلیوں میں عوامی اشتعال، عالمی تنہائی، ابھرتی ہوئی انتہاپسندی، سرحد پار دھشت گردی اور علاقائی طاقتوں کی رقابت بازی کی وجہ سے ر یاست اور معاشرہ سنگین بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صرف مفاہمت پر مبنی جمہوری سولین حکومت ہی ملک کو اس کھائی میں گرنے سے بچا سکتی ہے۔ ابھی کچھ ہی دیر کی بات ہے جب اسٹبلشمنٹ کو یہ بات بھی سمجھ میں آنے لگے گی۔

ان اندازوں، دعاؤں اور امیدوں کے جو بھی مثبت یا منفی نتائج ہوں، ایک بات طے ہے۔ نوازشریف کو پہلے سے کہیں زیادہ یقین ہوچکا ہے کہ اُن کا بیانیہ ہی بالآخر جیتے گا، اور ریاست اور معاشرے کا بڑھتا ہوا بحران اسٹبلشمنٹ کو تاریخی پسائی پر مجبور کرے گا۔

ہم دیکھیں گے۔۔۔

Also Read:

اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

جی ایچ کیو کو سلام

Tags: Editorial Urdu
Previous Post

HBL delivers strong performance for H1 2021; Profit up by 21% to Rs 31.2 billion as the Bank accelerates its Digitalization Journey.

Next Post

PIA and HBL partner to bring exclusive discounts to their customers

TFT

TFT

Next Post
Akbar Bugti’s Son Who Leaked Wife’s Nude Photos After Trying To Kill Her Being Protected By Ex-FIA Officer

Akbar Bugti’s Son Who Leaked Wife’s Nude Photos After Trying To Kill Her Being Protected By Ex-FIA Officer

Comments 1

  1. Asif says:
    11 months ago

    Biased Article. When PMLN won bye election you called it “vote ko izzat”. IF PTI won you call it a trend/traditional. Reality is that PMLN not say a single word against Modi in whole compaign. Who is a real criminal of kashmiris.

Search

No Result
View All Result

Recent News

HBL Hosts The Second Regional Agricultural Coordination Committee Meeting

HBL Hosts The Second Regional Agricultural Coordination Committee Meeting

July 1, 2022
Microsoft For Startups MEA Celebrates Graduation Of Second Cohort Of GrowthX Accelerator Program

Microsoft For Startups MEA Celebrates Graduation Of Second Cohort Of GrowthX Accelerator Program

July 1, 2022
Former IG Sends Legal Notice To Rao Anwar Over ‘False Allegations’

Former IG Sends Legal Notice To Rao Anwar Over ‘False Allegations’

July 1, 2022

Twitter

Donate Us

Subscribe
The Friday Times – Naya Daur

News and views which are not fit to print.


The Friday Times is Pakistan’s first independent weekly, founded in 1989. In 2021, the publication went into collaboration with digital news platform Naya Daur Media to publish under a daily cycle.


Social Media

Latest News

  • All
  • News
  • Editorials
  • Features
  • Analysis
  • Lifestyle
HBL Hosts The Second Regional Agricultural Coordination Committee Meeting

HBL Hosts The Second Regional Agricultural Coordination Committee Meeting

by News Desk
July 1, 2022
0

Press Release HBL as a designated champion bank...

Microsoft For Startups MEA Celebrates Graduation Of Second Cohort Of GrowthX Accelerator Program

Microsoft For Startups MEA Celebrates Graduation Of Second Cohort Of GrowthX Accelerator Program

by News Desk
July 1, 2022
0

Press Release LAHORE, 30th June 2022: Microsoft for...

Follow Us on Instagram

Follow

    The Instagram Access Token is expired, Go to the Customizer > JNews : Social, Like & View > Instagram Feed Setting, to refresh it.
  • About Us
  • The TFT Story
  • Team
  • Write for TFT
  • Online advertisement tariff
  • Donate To Us

© 2022 All Rights Reserved.

No Result
View All Result
  • Home
  • Editorials
  • News
  • Analysis
  • Features
  • Spotlight
  • Videos
  • Citizens’ Voice
  • Lifestyle
  • Editor’s Picks
  • Good Times
  • More
    • About Us
    • Team
    • Write for TFT
    • The TFT Story
    • Donate To Us

© 2022 All Rights Reserved.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist