ہم دیکھیں گے۔۔۔

ہم دیکھیں گے۔۔۔

الیکشن کمیشن آزاد جموں کشمیر کے مطابق 45  میں سے 25  نشستیں جیت کر پاکستان تحریک انصاف گزشتہ اتوار کو ہونے والے ریاستی انتخابات میں کامیاب جماعت قرار پائی ہے۔ گیارہ سیٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر، جب کہ مسلم لیگ ن صرف چھے سیٹیں ہی حاصل کرپائی ہے۔ زیادہ تر سیاسی مبصرین تحریک انصاف کی کامیابی کی پیش گوئی کررہے تھے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ملک کی مقبول ترین جماعت ہے (اس وقت حقیقت اس کے برعکس ہے) بلکہ ماضی کی روایت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا تھا کہ آزاد جموں کشمیر کا ووٹر اسلام آباد کی حکمران جماعت کی ہی حمایت کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ کہ وہ اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ وہ جانتا ہے کہ ریاست کی بہتری اسلام آباد کی حکومت وقت اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہے۔ اسلام آباد کے پاس مالیاتی وسائل ہیں جب کہ اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں ریاست کی انتظامیہ ہے۔


انہی وجوہ کی بنا پر ہم نے بھی مظفر آباد میں تحریک انصاف کی حکومت کی پیش گوئی کردی تھی۔ ”آزاد جموں کشمیر میں طاقت کا توازن اسٹبلشمنٹ اور اس کی حمایت یافتہ تحریک انصاف کی طرف ہے۔ اس کا پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد اس بات کویقینی بنائے گا کہ اگر صورت حال خراب ہوگئی تو وہ کولیشن حکومت بنالیں گے۔“


تاہم کچھ سنجیدہ عوامل ہماری پیش گوئی کی بنیاد تھے۔ اوّل،ہم نے نوٹ کیا تھا کہ آزاد جموں کشمیر کا الیکشن کمیشن اتنا کمزور ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں کراسکتا۔ ہم نے لکھا تھا:  ”حالیہ دنوں پیش آنے والے دو واقعات نے ان انتخابات پر گہرے سائے ڈال دیے ہیں۔ پہلا، تحریک انصاف کے کشمیر اور گلگت کے امور کے وزیر، علی امین گنڈا پورنے انتخابی قواعد وضوابط کو دیدہ دلیری سے پامال کیا ہے۔ درحقیقت وہ آخری وقت تک انتخابی مہم چلاتے رہے حالاں کہ الیکشن کمیشن نے اُنہیں علاقے سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ اس سے الیکشن کمیشن کی کمزوری کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی نافذ کرنے اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد کرانے کے قابل نہیں۔ دوسرا واقعہ آزاد جموں کشمیر میں حساس ادارے کے سٹیشن کمانڈر کے حوالے سے ہے۔ اس پر انتخابات پر اثر اندازہوکر تحریک انصاف کے ایک مخصوص فنانسر کو آزاد جموں کشمیر کا اگلا وزیر اعظم بنانے کی کوشش کا الزام تھا۔“


عملاً ہمارا تجزیہ ہماری توقعات سے بھی زیادہ درست ثابت ہوا۔ تحریک انصاف کی جیت اور مسلم لیگ ن کی شکست کے درمیان فرق کئی ایک ٹھوس وجوہ کی بنا پر ناقابل یقین ہے۔


پہلی، واقعاتی شہادت قابل غور ہے۔ مریم نواز کے انتخابی جلسے بہت متاثر کن تھے توعمران خان کے جلسوں میں بددلی نمایاں تھی۔ بلاول تو انتخابی مہم درمیان میں چھوڑ کر امریکا چلے گئے تھے۔ اب جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ آنکھوں دیکھے حقائق کے برعکس ہیں۔


دوسری، سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیو کسی ایک یاد وسرے طریقے سے دھاندلی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں الیکشن کمیشن کے سٹاف ممبران کے پاس ووٹوں سے بھرے ہوئے تھیلے ہیں اور شکایت کررہے ہیں کہ ریٹرن آفیسر مکمل ریکارڈ کے بغیر ہی غائب ہوگیا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں فوجیوں کی ویگن پر تحریک انصاف کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ ایک ٹی وی شو کا کلپ بہت دلچسپ ہے۔ کراچی سے پیپلز پارٹی کے ایک وزیر، نبیل گبول کھلے الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں کہ ”ہم سے سولہ سیٹوں کا وعدہ کیاگیا تھا لیکن ہمیں صرف گیارہ ملیں۔“جب پوچھا گیا کہ ایسا غیر معمولی وعدہ کس نے کیا تھا تو وہ چھینب گئے اورمسکراتے ہوئے کہا،”بے شک ووٹروں نے کیا تھا“۔ اس پر پینل میں موجود دیگر شرکا نے شرمندگی بھر ا قہقہہ لگایا۔ مسلم لیگ ن کی آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن پر تنقید ریکارڈ پر ہے کہ اس نے بہت اہم حلقوں کے نتائج ایک گھنٹے سے بھی زیادہ وقت کے لیے روکے رکھے۔ اس کا مطلب ہے کہ مخصوص حلقوں کے نتائج تبدیل کیے جارہے تھے۔


اعدادوشمار سے ہدفی دھاندلی کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے۔ تحریک انصاف نے 32 فیصد ووٹ حاصل کیے اور اس کی 25 سیٹیں ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن نے 25 فیصد ووٹ حاصل کیے لیکن اس کی صرف چھے سیٹیں ہیں۔غیر معمولی بات یہ ہے کہ اٹھارہ فیصد ووٹ حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کی گیارہ سیٹیں ہیں (جس کے لیے مسٹر گبول کو مشکور ہونا چاہیے)۔ سادہ اکثریت سے جیتنے کے اصول پر اس غیر معمولی صورت حال کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی۔


انتخابی مہم کے اختتامی لمحات میں نوا ز شریف اور مریم نواز نے ووٹروں کو خبردار کیا تھا کہ اسٹبلشمنٹ الیکشن چرانے کی ویسی ہی کوشش کرسکتی ہے جیسی اس نے 2018 ء میں کی تھی۔ اُنہوں نے زور دیتے ہوئے کہا، ”اپنے ووٹوں کی حفاظت کرنا۔ اگر تمہارے ووٹوں کاتقدس پامال ہوا تو ملک، قوم اور آئین کو زک پہنچے گی۔“ایسا لگتا ہے کہ اس للکار پر واحد ردعمل اسٹبلشمنٹ کی طرف سے آیا جس نے سب رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے تحریک انصاف کو واضح برتری دلادی۔اگر پیپلز پارٹی کو وعدے کے مطابق سولہ سیٹیں دے دی جاتیں تو تحریک انصاف کے ہاتھ بیس سے زیادہ سیٹیں نہ آتیں۔ چنانچہ مظفر آباد میں مخلوط حکومت بنانی پڑتی۔زخموں پرمزید نمک پاشی کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ نے سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں بھی تحریک انصاف کو اس حلقے میں کامیابی دلادی جہاں مسلم لیگ ن 2018  ء میں آسانی سے جیت گئی تھی۔


اس نتیجے نے ایک سنجیدہ بحث چھیڑ دی ہے کہ اب اس ملک، خاص طور پر مسلم لیگ ن کی قسمت میں کیا ہے؟ کیا یہ واضح اشارہ ہے کہ پاکستانیوں کی نظروں میں ساکھ کھونے کے باوجود  اسٹبلشمنٹ عمران خان کا ہر صورت ساتھ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ اس نے سیاست میں غیر جانب دار رہنے کا صفحہ ہمیشہ کے لیے پھاڑ دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 2022-23  کے عام انتخابات بھی دھاندلی زدہ ہوں گے اور مزید پانچ سال کے لیے اقتدار عمران خان کے پاس ہی رہے گا؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو خوش کرنے کا شہباز شریف کا بیانیہ اور چیلنج کرنے کا نواز شریف کا بیانیہ ناکام ہوچکا؟


لیکن،جیسا کہ کہا جاتا ہے، ہنوز دہلی دور است۔ مسلم لیگ ن کے رجائیت پسندوں کو یقین ہے کہ ذاتی مفاد کے اس کھیل میں اسٹبلشمنٹ کی اعلیٰ قیادت کی صفوں میں ضرور دراڑپڑے گی اور یہ سہ فریقی مثلث ضرور ٹوٹے گی جو پاکستان کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس سے یا شہباز شریف،یا نواز شریف کے لیے سیاسی گنجائش نکلے گی۔ کچھ دعائیں کررہے ہیں کہ عمران خان سے ایسی سنگین غلطی سرزد ہوجائے جو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کا بھرم چاک کردے۔ کچھ کو یقین ہے کہ ناکام ہوتی ہوئی معیشت،گلیوں میں عوامی اشتعال، عالمی تنہائی، ابھرتی ہوئی انتہاپسندی، سرحد پار دھشت گردی اور علاقائی طاقتوں کی رقابت بازی کی وجہ سے ر یاست اور معاشرہ سنگین بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صرف مفاہمت پر مبنی جمہوری سولین حکومت ہی ملک کو اس کھائی میں گرنے سے بچا سکتی ہے۔ ابھی کچھ ہی دیر کی بات ہے جب اسٹبلشمنٹ کو یہ بات بھی سمجھ میں آنے لگے گی۔


ان اندازوں، دعاؤں اور امیدوں کے جو بھی مثبت یا منفی نتائج ہوں، ایک بات طے ہے۔ نوازشریف کو پہلے سے کہیں زیادہ یقین ہوچکا ہے کہ اُن کا بیانیہ ہی بالآخر جیتے گا، اور ریاست اور معاشرے کا بڑھتا ہوا بحران اسٹبلشمنٹ کو تاریخی پسائی پر مجبور کرے گا۔


ہم دیکھیں گے۔۔۔