ایشیائی یا افغان حل؟

ایشیائی یا افغان حل؟

ستمبر میں افغانستان سے امریکی او ر نیٹو دستوں کے حتمی انخلا سے پہلے طالبان کی افغانستان میں تیز پیش قدمی خطے کے کسی بھی ملک سے زیادہ پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ اسٹبلشمنٹ نے حکومت، حزب اختلاف اور میڈیا کو مشکل صورت حال اور ممکنہ سخت فیصلوں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے اُن سے ”ذمہ دارانہ طرزعمل“ کی توقع کی ہے۔ گویااُن سے کہا گیا کہ وہ مختلف اسٹیک ہولڈر کے درمیان ہونے والی کشمکش میں کسی دھڑے کا ساتھ نہ دیں۔خاص طور پر پاکستان میں امریکا مخالف طبقوں کو خوش کرنے کے لیے افغان طالبان کو ہیرو بنا کر پیش نہ کریں، اور نہ ہی بلوچستان یا سابق فاٹا میں طالبان کی دھشت گردی میں اضافے کو منظر عام پر لائیں۔


اسلام آباد کا اعلانیہ موقف یہ ہے کہ کابل میں شراکت اقتدار کا کوئی فارمولہ طے پاجانا خطے میں امن واستحکام کے لیے ضروری ہے۔ دلیل دی جاتی ہے کہ طالبان کا مکمل کنٹرول ملک میں خانہ جنگی کے بادل گہرے کردے گا۔ ہمسایہ ممالک اور عالمی برادری اپنے اپنے پراکسی دستوں کومتحرک کریں گے، اور افغانستان ایک مرتبہ پھر 2001  ء کے حالات کا شکار ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں خاص طور پر پاکستان کو ممکنہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، جیسا کہ وسیع پیمانے پر مہاجرین کی آمد اور سرحدی علاقوں میں ایک بار پھر طالبان کی دھشت گردی۔  اسٹبلشمنٹ نے بہت دیر بعد احساس کیا ہے کہ اچھے طالبان (افغان) اور برے طالبان(پاکستانی) میں کوئی فرق نہیں۔ کابل میں طالبان کا قبضہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانے رکھنے والے پاکستانی طالبان،القاعدہ اور داعش کے انتہا پسندوں کوپاکستان میں زیادہ شدت سے حملے کرنے کی شہ دے گا۔


مستقبل میں امریکا کا افغانستان میں کردار بھی پاکستان کے لیے بطور خاص تشویش ناک ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام آباد اس حق میں نہیں تھا کہ افغانستان میں شراکت اقتدار کے کسی منصوبے پر عمل درآمد سے پہلے امریکی دستے افغان سرزمین سے انخلا کریں۔ اسلام آباد کو  خدشہ تھا کہ اس کے بعد یہاں غلبہ حاصل کرنے کی پرتشدد جدوجہد شروع ہوجائے گی، جیسا کہ اب دیکھنے میں آرہا ہے۔ انہی خدشات کے پیش نظر پاکستان افغانستان میں طاقت کے کھیل کو فاصلے پر رہتے ہوئے کنٹرول کرنے اور غنی حکومت کی مدد کے لیے طالبان کے ٹھکانوں پر حملوں کی ممکنہ امریکی تجویز کے خلاف ہے۔ ایسی صورت میں امریکا پاکستان کی فضائی حدوداستعمال کرتا۔ امریکی مداخلت کو ایسی سہولت فراہم کرنے پر پاکستان طالبان کے اشتعال کا نشانہ بنے گا۔ اسلام آباد افغان طالبان پر جو تھوڑا بہت اثرورسوخ رکھتا ہے، وہ بھی تحلیل ہوجائے گا۔ ان کی حمایت ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس صورت میں کابل میں طالبان کی اسلامی امارت قائم ہونے سے اسٹبلشمنٹ کے لیے اُن کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا ناممکن ہوجائے گا۔


اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ اسلام آباد نے پاکستانی سرزمین پر امریکا کو اڈے دینے سے قبل ازوقت انکار کیوں کردیا حالاں کہ ابھی امریکا نے باضابطہ طور پر اڈے مانگے ہی نہیں تھے۔ درحقیقت عمران خان کا ”ہر گزنہیں“ ملک میں امریکا مخالف دھڑوں کو خوش کرنے کے علاوہ طالبان کو بھی حمایت کی یقین دہانی کرانے کے لیے تھا۔ تاہم اسٹبلشمنٹ کے لیے مسلہئ یہ ہے کہ امریکا کے ساتھ تعاون کیے بغیر اسلام آباد کو آئی ایم ایف، عالمی مالیاتی اداروں اور ایف اے ٹی ایف سے ریلیف نہیں مل سکتا۔ پاکستانی معیشت مکمل طور پر ان اداروں کی گرفت میں ہے۔ اسٹبلشمنٹ نے حزب اختلاف اور میڈیا کو ایسے پریشان کن معاملات پر پاک امریکا خفیہ مذاکرات کی صورت میں انہیں متنازع بنانے سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔


اس دوران سیاسی مبصرین کے تخیلات کی دنیا افغانستان میں ایک اور گریٹ گیم کے مورچے کھود چکی ہے۔ کئی وجوہ کی بناپر روس، چین، ایران، ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستیں افغانستان میں اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے متحرک ہیں۔ چین روڈاینڈ بیلٹ منصوبے کے تحت اقتصادی راہداری کے سڑک اور ریل نیٹ ورک کو افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیا،اور بعد میں یوریشیا اکنامک یونین تک پھیلانا چاہتا ہے۔چینی کاشغر سے فیض آباد تک فائبر آپٹک کیبل بچھانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، جسے بعد میں چین، قیرغستان اور افغانستان سلک روڈ سسٹم تک وسعت دی جاسکے گی۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ مستقبل کی کوئی افغان حکومت بھی یغور باشندوں کی حمایت رکھنے والے جذبات کو چین کے خلاف نہ بھڑکائے۔


روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں چاہتی ہیں کہ کابل داعش کی خراسان شاخ اور اسلامی ازبک موومنٹ کے جنگجووں کو پناہ نہ دے۔  ایران کی تشویش بھی اپنی جگہ پر ہے۔ ایران کے سرحدی دیہات میں آٹھ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین خیمہ زن ہیں۔ بیس لاکھ کے قریب غیر قانونی مہاجرین اس کے علاوہ ہیں۔اس وقت ہرات صوبے کازیادہ تر حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ ایران نوا ز شیعہ جنگجو سردار، اسماعیل خان نے اپنی ملیشیا فورس کو اہم شہروں اور ہوائی اڈوں کی حفاظت پر مامور کردیا ہے۔ کابل ائیرپورٹ کی حفاظت کے لیے ترکی نے اپنے فوجی دستے تعینات کررکھے ہیں۔ پاکستان بھی گرنو بدخشان(Gorno-Badakshan) میں پامیر ناٹ، جو اسے تاجکستان سے الگ کرتا ہے، کے ذریعے بجلی کی تاریں بچھانے کے لیے رابطہ چاہتا ہے۔


طالبان ایران کے ساتھ، دوحہ میں امریکیوں اور غنی حکومت کے ساتھ، اسلام آباد میں پاکستان کے ساتھ اور تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے شراکت داروں، روسیوں، چینیوں اور بھارتیوں کے ساتھ بات چیت کے لیے متحرک ہیں۔ درحقیقت پاکستان ان تمام مذاکرات کا مرکزی شریک کار ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ افغان دھڑوں کے درمیان مکالمے کے ذریعے شراکت اقتدار کا کوئی فارمولہ طے پاجائے جو خانہ جنگی کے خاتمے اور خطے کے امن اور استحکام کو یقینی بنائے۔


تاہم طالبان ان طاقتوں کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ اُن کی افغانستان پر بلاشرکت غیرے حکومت کسی مذکورہ فریق کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تاہم طالبان اور کئی ایک اسٹیک ہولڈر کے درمیان اعتماد کے فقدان کی وجہ سے تاحال کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہو سکی۔ دھشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کا عفریت خطے کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔


”افغان حل“ کا تصور بنیادی طور پر پاکستان نے پیش کیا تھا۔ امریکا نے شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے اس کی جگہ فوراً ہی ”ایشیائی حل“ کا تصور سامنے رکھ دیا۔ یہ حل سیاسی استحکام کا نقشہ پیش کرتا ہے جو خطے میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے معاشی ترقی لائے گا۔ ا س کے پیچھے چین متحرک قوت ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اس ہفتے ہونے والا اجلاس ایسے ہی سہ جہتی نظام کو فعال بنانے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے وزرائے اعظم کے علاوہ رکن ممالک کے اعلیٰ افسران، بشمول وزرائے خارجہ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان کی شرکت سے مثبت پیش رفت، یا کم از کم خانہ جنگی کا راستہ روکنے کی امید کی جارہی ہے۔ اورخانہ جنگی ہی امریکا کوپاکستان کے کندھے استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں دوبارہ مداخلت پر مجبور کرسکتی ہے۔