پاکستانیت

پاکستانیت

عمران خان نے ”پاکستانیوں“ کو شعوری طور پر خود کو ”پاکستانیت“ کے رنگ میں رنگنے کی تلقین کی ہے تاکہ آزاد اور خود مختار اقوام کی عالمی مارکیٹ میں اُنہیں عزت افزائی حاصل ہو اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔تاہم اس تصور کا کھوج لگانے سے کچھ پریشان کن سوالات اٹھتے ہیں، لیکن کوئی آسان جواب نہیں ملتا۔ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ”پاکستانیت“ کے اندرون اور بیرون ملک کیا منفرد اور ممتاز خواص ہیں؟ وہ غیر ملکیوں کے پاکستانیت کے تصور کے ساتھ کہاں تک مطابقت رکھتے ہیں؟


یقینا ہم انڈین نہیں۔ لیکن یہ بات تو باقی دنیا پر بھی صادر آتی ہے۔ گویا انڈین نہ ہونا کوئی غیر معمولی خوبی نہیں۔


بلاشبہ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن جنوبی ایشیا میں چارسوملین اور باقی دنیا میں ایک بلین مسلمان رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ بھی کوئی خاص شناخت نہیں۔ نہ ہی ہم نے کوئی منفرد ”اسلامی ریاست“ قائم کی ہے جو ہمیں دیگر نیشن اسٹیٹس سے الگ کرتی اور ہماری پہچان بنتی، جیسا کہ مخصوص مسلکی پہچان رکھنے والا ایران یا سعودی عرب۔


ہماری جلد کی رنگت، لباس اور خوراک میں بھی کوئی چونکا دینے والی بات نہیں۔ ہمارا شمار دنیا کے گندمی جلد والے افراد میں ہوتا ہے۔خواتین شلوار قمیض پہنتی ہیں، لیکن یہ کم و بیش تمام انڈیا کی خواتین کا لباس ہے۔ آدمی مختلف ملبوسات استعمال کرتے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے مزیدار کھانے پاکستان سے باہر ”انڈین‘‘ ریستورانوں پر پیش کیے جاتے ہیں۔ ہماری صوفی موسیقی جس پر ہمیں بہت ناز ہے، کا تعلق بنیادی طور پر بر صغیر کے کلاسیکل گھرانوں سے ہے۔


اگر ہم تاریخی یا تہذیبی طور پر اہم ترین دوراہے پر ہوتے تو ہم واضح شناخت یا کسی قدر پذیرائی کا دعویٰ کرسکتے تھے۔ لیکن باقی دنیا کو چھوڑیں، ہم وسطی ایشیا کے قدرتی وسائل یا ایشیا کے تیل کی گزرگاہ بھی نہیں۔ یقینا ہم پرسکون سمندر، ریتلے ساحل،پرشکوہ پہاڑ، عظیم دریا اور قدرتی حسن کا شاہکار، دلفریب وادیاں رکھتے ہیں۔ لیکن پرسکون تفریح گاہیں اورڈالر وں سے بھری جیبوں والے سیاح کہاں ہیں؟


ہم انڈیا کی طرح اعلیٰ تعلیم کا مرکز بننے کی کوشش کرتے، یا بیرونی ممالک کے مریضوں کومناسب پیسوں میں بہترین علاج کی سہولتیں پیش کرتے۔ لیکن ہماری گریجوایٹ ڈگری نری شرمندگی ہے۔ہماری پی ایچ ڈی اسناد کو دنیا میں کہیں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ہمارا مریض کی نگہداشت اور نرسنگ کا معیار دنیا میں پست ترین ہے۔


ہمارا شمار دنیامیں کپاس پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن ہماری صنعت نے اس میں کوئی معیار حاصل نہیں کیا ہے۔ درجنوں دیگر ممالک کے معیاری ملبوسات میں پاکستان کے بنے ہوئے کپڑے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ہم بمشکل ہی ایسی مصنوعات تیار کرتے ہیں جو عالمی مارکیٹ میں مسابقت کے قابل ہوں۔ درحقیقت ہماری تیار شدہ مصنوعات کی درآمدات کم معیار کی برآمدات سے دوگنا زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلسل تجارتی خسارے اور بیرونی قرضوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔


ہماری ساکھ احتساب، جمہوریت اور انصاف کے اداروں کی بنیاد پر نہیں کہ ہمارا شما ر بھی دنیا کی نیک نام اور صنعتی اقوام میں ہو۔ ہماری جی ڈی پی کے حوالے سے ٹیکس کی وصولی کی شرح دنیا میں پست ترین ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم شرافت اور پارسائی کے لبادے اوڑھ کر دھوکہ دہی سے کام لیتے اور کالے دھن کو سفید کرتے ہیں۔ ہماری حکمران اشرافیہ کے مفادات مغرب میں حد درجہ پیوست ہیں لیکن منافقت کی انتہا یہ ہے کہ وہ ملک میں مغرب کی مذمت کرتے نہیں تھکتے۔


خو ش قسمتی سے دیگر قومیتوں، علاقائی اور لسانی رکاوٹوں کے باوجود ہماری زبان اردو بطور قومی زبان پروان چڑھنے میں کامیاب ہوگئی۔ درحقیقت انڈیا اسے جتنا ترک کرتا ہے یا اس میں سنسکرت کے الفاظ شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اتنی ہی اردو کم از کم اپنے ادب اور ثقافت کے اعتبار سے ”پاکستانی“ بنتی جاتی ہے۔ لیکن ریاست کی غلط ترجیحات کی وجہ سے اسے فارسی بنیاد سے ہٹا کر عربی کے تابع کرنے کی کوشش نے اس کے پھیلاؤ کی سکت کو اتنا ہی نقصان پہنچا یا ہے جتنا انگریزی زبان کے الفاظ اور اصلاحات کی اس میں شمولیت نے۔تاہم پاکستان میں بسنے والے پشتون، سندھی اور بلوچ روزمرہ کی گفتگو کے لیے اپنی مادری زبانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اپنی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانیت کا مرکزی عنصر زبان نہیں۔


بدقسمتی سے زیادہ تر بااثر دنیا ”پاکستانیت“ کے بارے میں منفی تاثر رکھتی ہے۔ ہمارے گرین پاسپورٹ کا شمار دنیا میں ناقابل قبول اور ناقابل اعتماد پاسپورٹوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہوتاہے۔ فراڈ اور جرائم کی وجہ سے سالانہ ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کو مغرب اور مشرق وسطیٰ سے ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے حکمران طبقے ریاستی نظریے اور سماجی سوچ کو 1980  ء کی دہائی کی”اسلام پسندی“ کے تابع کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اس لیے ہم انتہا پسندی اور جنگجو نظریات رکھنے والوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ ان عناصر نے نہ صرف پاکستان بلکہ تمام خطے، اس کی قومیتوں، ثقافتوں اور جغرافیائی خدوخال کو متاثر کیا ہے۔ اگر اسامہ بن لادن کو پاکستان میں ”شہید“ قرار دیا جاتا ہے، اگر طالبان کو ”پاکستان ساختہ اثاثے“ سمجھا جاتا ہے، اگر ہم ایف اے ٹی ایف سے حافظ سعید کوبچائے ہوئے ہیں، اگر ہمارے  اسلحہ خانے میں رکھا جوہری ہتھیار ایک اسلامی بم ہے، اگرلندن یا نیوریارک کے سب وے میں پھٹنے والا مواد رکھنے یا بے گناہ راہ گیروں پر چاقو حملہ کرنے والا کوئی مسلم نکلتا ہے جس کا تعلق یا رابطہ پاکستان سے ثابت ہوجاتا ہے تو پھر ”پاکستانیت“ پر کیا کہا جاسکتا ہے؟


ہم میں سے کچھ جن کی عمر پاکستان جتنی ہے کو اس سے بہت مختلف پاکستان یاد ہے جتنا آج دکھائی دیتا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستانی خواتین سادہ سا دوپٹہ سر پر لیتی تھیں، لیکن سیاسی شناخت کے اظہار کے لیے حجاب یا نقاب کا کوئی رواج نہیں تھا۔ایک وقت تھا جب دنیا بھر میں سفر کے لیے پاکستانی پاسپورٹ کو ویزے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک وقت تھا جب پاکستانیوں کو اس کی پروا نہیں تھی کہ اُنہیں کس طرح شناخت کیا جاتا ہے، اور جب شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی مسالک مذہبی جہت رکھتے تھے، نہ کہ سیاسی۔ ایک وقت تھا جب نظریاتی طور پر ریاست غیر جانب دار تھی،ا ور مسلمان، مسیحی، پارسی اور ہندو باہم امن سے مل جل کررہتے تھے۔ ایک وقت تھا جب بی اے کی ڈگری رکھنے والا انگریزی اور اردو، دونوں میں مہارت رکھتا تھا۔ آج یہ دونوں زبانیں اس کے لیے اجنبی ہیں۔ ایک وقت تھا جب پی آئی اے کو عالمی سطح پر ”لاجواب لوگ، باکما ل سروس“ کے طور پر سراہا جاتا تھا۔ اسے جعلی لائسنس رکھنے والے پائلٹوں کی ائیرلائن نہیں سمجھاجاتا تھا۔ ایک وقت تھا جب پاکستانیت کی پہچان رعونت، تکبر، مکر، دھوکا، انتہا پسندی اور جارحیت کی بجائے سادگی، اعتدال اور بقائے باہمی کے تصورات تھے۔ درحقیقت پہلے تین عشروں تک پاکستان میں روشن خیالی اور ترقی پسندی کی شمع روشن تھی لیکن بدقسمتی سے وہ 1980  ء کی دہائی کی سیاہ آندھیوں کی تاب نہ لا سکی۔


اگر سچ پوچھیں تو 1971  کے سانحے میں پرانی پاکستانیت کسی طور اپنا بچاؤ کرپائی تھی۔ لیکن 1980  ء کی دہائی کے بعد کی نئی پاکستانیت نے ملک کو جنونی سیاست اور انتہا پسندی کے آتش فشاں میں دھکیل دیا ہے۔ اس دوران بیرونی دنیا میں ہمیں تنہائی اور دشمنی کا سامنا ہے۔ اگر ہمیں پاکستان سے حقیقی محبت ہے تو ضروری ہے کہ ہم خود کو دھوکہ دینے کی بجائے پاکستانیت کا قبلہ درست کریں۔