نام تو لیا جائے گا

نام تو لیا جائے گا

پاکستانی میڈیا نے اپنی آزادی اور بچاؤ کی ایک طویل اور مشکل لڑائی لڑی ہے۔ اس نے آمرانہ مزاج سول ملٹری حکومتوں، انتہا پسندجنگجووں، نسل پرست شدت پسندوں، بنیاد پرست دھشت گردوں اور فسادی طالبان کے غضب کا سامناکیا، بھاری جرمانے ادا کیے، سرعام کوڑے کھائے، طویل قید وبند کی صعوبتیں کاٹیں، خوفناک روح فرسا تشدد برداشت کیا، پراسرار طریقے سے غائب اور حتیٰ کے دن دیہاڑے قتل کردیے گئے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایسی دھمکیاں میڈیا کا خون خشک کردیتی تھیں ۔ پاکستان کو ”دنیا میں صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک“ ہونے کا مشکوک اعزاز حاصل ہے۔ بدقسمتی سے واقعاتی شہادت سے تصدیق ہوتی جارہی ہے کہ عمران خان کی قیادت میں قائم ہائبرڈ نظام، جسے اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، میں میڈیا غیر معمولی خطرے سے دوچار ہوچکا ہے۔


گزشتہ سات عشروں سے غیر آئینی، غیر محفوظ یا آمرانہ حکومتوں نے میڈیا کو ڈرانے، دھمکانے، دباؤ میں لانے اور کنٹرول کرنے کے لیے بہت سے قوانین بنائے ہیں۔ الیکٹرانک دور کی آمد اور ”لائیو“ نجی ٹیلی وژن چینلوں کے ایک بڑی تعداد میں نمودار ہونے سے میڈیا اس دباؤ کو قدرے پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوگیا۔ انٹر نیٹ اور سائبر سپیس کی دنیا میں آزادی اظہار کا میدان وسیع ہوگیا۔ کمیونی کیشن کی عظیم عالمی تنظیمیں جیسا کہ گوگل، فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ وغیرہ اور ان کی ذیلی شاخوں جیسا کہ یوٹیوب، نے ابلاغ کو غیرمعمولی اٹھان دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کو غیر محفوظ خیال کرنے والا موجودہ ہائبرڈ نظام توانا ہوتے ہوئے آزادی اظہار اور شہری حقوق کو کچلنے کے لیے ٖغیر معمولی تیزی دکھارہا ہے۔


اس وقت میڈیا کو کنٹرول میں لانے کے لیے ہائبرڈ نظام کی نمائندگی کرنے والے دو اداروں کو استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک اسٹبلشمنٹ کا ترجمان ادارہ ہے اور دوسرا سولین حکومت کا ادارہ، پیمرا  ہے ۔ میڈیا کے خلاف دونوں کی مشترکہ مشقیں جاری ہیں۔ اب سوشل میڈیا کارکنوں کو دبانے کے لیے ایف آئی اے کو بھی میدان میں اتارا جارہا ہے۔ ان کے اوپر نظروں سے غائب، احتساب سے بالاتر سول ملٹری انٹیلی جنس ادارے ففتھ جنریشن وارفیئر کا تصورذہن میں بسائے سوچتے ہیں کہ آزاد میڈیا ضرور غیر ملکی آقاؤں کا زر خرید ہے اور وہ دشمن کے ایجنڈے پر کام کررہا ہے۔ چنانچہ ریاستی اداروں کی طرف سے میڈیا کو دھمکیاں، وارننگ، قانونی نوٹس، جرمانے، بندش، جسمانی تشدد، گرفتاریاں اور غائب کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔


ان کارروائیاں کی اطلاعات عالمی میڈیا کو مل رہی ہیں۔ ان کے پاس حقائق کے دفتر جمع ہورہے ہیں۔ صحافی اسد طور پر گزشتہ ہفتے ہونے والے جسمانی تشدد نے ضبط اور احتیاط کے تمام بندھن توڑ ڈالے۔میڈیا کے نسبتاً آزاد دھڑے اور سول سوسائٹی مزاحمت پر اتر آئی۔ میڈیا کے اُن جانبازوں کی فہرست بہت نمایاں ہے جنہوں نے آزادی اظہار اور آئینی حق مانگنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ حیات اللہ(اغوا اور قتل کیے گئے، 2003)،  عمر چیمہ (اغوااور تشدد، 2010)،  سلیم شہزاد (غائب کیا گیا، تشدد زدہ لاش ایک نہر سے ملی، 2011)، حامد میر (فائرنگ سے زخمی ہوئے، 2014)، احمد نورانی(اغوا، تشدد، اب جلاوطن ہیں، 2017)، طحہٰ صدیقی(اغوا، تشدد، جلاوطن، 2018)، گل بخاری، اغوا،  دھمکیاں، جلاوطن، 2018)، مطیع اللہ جان(اغوا اور واننگ، 2020)، ابصار عالم(گولی لگنے سے زخمی ہوئے، 2021)اور اب اسد طور(گھر میں گھس کر تشدد)۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ان تمام واقعات میں ملوث حملہ آوروں یا منصوبہ ساز وں کو وہ طاقت ور اور باخبر ایجنسیاں نہیں پکڑ سکیں جن کی اجازت کے بغیر ایک پتا تک نہیں ہلتا۔


جنگ اور جیوگروپ کے مالک اور چیئرمین، میر شکیل الرحمن نے نیب کی جیل میں سات ماہ تک قید تنہائی کاٹی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نادیدہ ایجنسیوں کی وارننگ کی پروا نہیں کررہے تھے۔ اب حامد میر کو جیوٹی وی سے ہٹا دیا گیا ہے کیوں کہ اُنہوں نے مبینہ جابرقوتوں کے خلاف اپنے جذبات کا برملا اظہار کرڈالا۔ اس دوران بہت سے مشہور صحافی منظر عام سے ہٹادیے گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں پر گمنام مدعیوں کی طرف سے غداری کے مقدمات درج ہیں۔


اب یہ ہاہبرڈنظام ایک صدارتی آرڈیننس لانے کی دھمکی دے رہا ہے جو پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اختلافی آوازوں کا ہمیشہ کے لیے گلا گھونٹ دے گا۔ مجوزہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ کار اور ہدف کے اعتبار سے سفاک قانون ہے۔ اگر یہ مسلط کردیا گیا تو کسی بھی فورم، خاص طور پر ٹی وی، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر ہر قسم کی تنقیدی بحث اور تبصروں کا خاتمہ کر دے گا۔ لیکن ذرا سوچیں کہ وہ معاشرہ جس نے آئینی جمہوریت کا مزہ چکھ لیا ہو اور مزید کا طلب گار ہو، اس کا جب سفاکیت سے گلاگھونٹ دیا جائے گا کیا ہوگا؟


یہ بات یقینی ہے کہ سول سوسائٹی کا ایک بڑا حصہ گھٹنے ٹیک دے گا کیوں کہ ایک تواسے عدلیہ پر اعتماد نہیں کہ وہ اس کا تحفظ کرپائے گی، اور دوسرے اس کے پاس طویل جدوجہد کے لیے وسائل نہیں۔ لیکن آخر کار معاشرے کا ایک اہم حصہ بغاوت کرے گااور اپنے اہداف کے حصول کے لیے جارحانہ ذرائع تلاش اور استعمال کرے گا۔ اور یہ ایک فطری بات ہے۔جب کوئی ریاست اپنے شہریوں کو دیوار سے لگا دیتی ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ جلد یا بدیر اُن میں سے کچھ مایوسی کے عالم میں ضرور اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں، جب آزادی اظہار پر پہرہ لگادیا جائے گا اور جمہوریت کا ایک سیفٹی والو بند ہوجائے تو اس سے جذبات کھولنے لگیں گے، گھٹن میں اضافہ ہوگا اور سیاسی دباؤ بڑھے گا۔ وہ کشمکش پھر ذاتی سطح پر اتر آئے گی جس میں مظلوم شخص ظالم کا نام لینے اور ریاستی اداروں کی ساکھ مجروع کرنے سے گریز نہیں کرے گا اور نہ ہی خائف ہوگا۔


ریاستی اداروں کے ساتھ اس وقت یہی کچھ ہورہا ہے۔ ان کے قائدین اس ہائبرڈ سسٹم میں تیزی سے عوام کی نظروں میں آتے جارہے ہیں۔ ملکی فضا میں بہت دیر سے طاری سکوت کا پردہ نواز شریف نے آخر کار گوجرانولہ جلسے میں چاک کردیا تھا۔ رواں برس کے آغاز میں حزب اختلاف کے اس جلسے میں اُنہوں نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لے کر تنقید کی۔ اب اٹھایا گیا یہ قدم پیچھے نہیں ہٹے گا۔ میڈیا کے ناراض ترجمان کھل کر قصور وار ریاستی عناصر کی بات کرتے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ کے افسران کا نام لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔


ریاست کے غیر نمائندہ، طاقت وراور احتساب سے بالا تر عناصر کو شک ہے کہ اُ ن کی عمل داری، نظریے اورحکمت عملی کو چیلنج کرنے والے صحافی اور سیاست دان غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سول سوسائٹی کے بڑے حصوں کو یقین ہوچلا ہے کہ ریاست کے یہ عناصر ریاست میں آئینی حقوق کے محافظوں، جیسا کہ بار اور بنچ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کے خلاف ففتھ جنریشن جنگ لڑرہے ہیں۔تاہم دلیر صحافی قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ جج حضرات بھی مشکل سے حاصل کردہ آزادی کے تحفظ کے لیے متحرک ہورہے ہیں۔ ہر ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جگہ لینے والے اب دو اور آجائیں گے۔ درحقیقت وہ دن اب دور نہیں جب گھیرے میں آئے ہوئے آئینی ادارے جابراداروں کی جکڑ کو گردن سے اتار پھینکیں گے اور معاشرے کو آزاد ہونے میں مدد دیں گے۔