ٹروجن ہارس

ٹروجن ہارس

ایک مرتبہ پھر پاکستان کو سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی پن کا سامنا ہے ۔ اپنی پانچ سالہ آئینی مدت کا نصف مکمل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی ہائبرڈ حکومت کو اپنے بقا کا مسلہ درپیش ہے۔ اس نے معیشت کا دھڑن تختہ کردیا، کوویڈ پر سنگین لاپرواہی برتی اور حزب اختلاف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا لیکن عوام کے نزدیک اس کی ساکھ مجروع نہ کرسکی۔ اسٹبلشمنٹ نے تحریک انصاف کو سہارا دے کر اقتدار تک پہنچایا تھا۔ لیکن شدید عوامی تنقید کا نشانہ بننے پر اب اسٹبلشمنٹ اس دلدل سے نکلنے کا چارہ کررہی ہے۔


تاہم موجودہ بحران کی نوعیت ماضی میں بظاہر ایسے ہی دکھائی دینے والے مسائل سے مختلف ہے۔ اُس وقت سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ آج ملک کی سب سے مقبول جماعت، مسلم لیگ ن اورکچھ چھوٹی قومیت پرست علاقائی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کی سیاسی عمل داری کو چیلنج کررہی ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ اس کی صف میں کھڑی ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں کے تاریخی کردار کا الٹ پھیر ہے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن کو ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کی آشیر باد حاصل رہی تھی کیوں کہ دونوں کی حمایت کا مرکز وسطی پنجاب ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی خود کو ہمیشہ اسٹبلشمنٹ مخالف جماعتوں کے طور پر پیش کرتی تھیں۔ اس ”تبدیلی“ کے نتیجے میں نمودار ہونے والی اختیار کی نئی تقسیم پاکستان کے طے شدہ سول ملٹری بندوبست کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے۔


تاہم گہرے تضادات اور کشمکش اس عمل کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ موجودہ غیر یقینی پن اور عدم استحکام کی وجہ یہی ہے۔


جب نوازشریف اسٹبلشمنٹ کی عمل داری کو چیلنج کرنے لگے تو اس نے اُنہیں اقتدار سے چلتا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔پاکستان  پیپلز پارٹی کو ناقابل اعتماد اور نالائق اتحادی قرار دے کر مسترد کرنے کے بعد اسٹبلشمنٹ کی نظر کرم عمران خان پر پڑی۔ اس نے تحریک انصاف کو سیاسی میدان میں قد کاٹھ نکالنے میں مدد دی، بالکل جس طرح ماضی میں اپنے اغراض ومقاصد کے لیے سیاسی جماعتوں کو مرضی سے ڈھال کر میدان میں اتارا اور کامیاب بنایا جاتا تھا۔


بدقسمتی سے اسٹبلشمنٹ کا تازہ ترین تجربہ نہ صرف اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ اس کی نالائقی اسٹبلشمنٹ کے لیے ندامت اور پریشانی کا باعث بنی ہے۔ اس کی ساکھ اوربالا دستی کے تصور کو زک پہنچ رہی ہے۔ ایک صفحے پر ہونے کے بیانیے کو چھوڑیں، اب تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ خارجہ پالیسی، معاشی بحالی، انتظامی امور، احتساب، حکومت کی صفوں میں ہونے والی بدعنوانی پر ایک دوسرے کے متعلق اس قدر شکوک و شبہات کا شکار ہوچکے ہیں کہ بچاؤ اورتبدیلی کے لیے متبادل حکمت عملی پر غور کیا جارہا ہے۔


مزیدیہ کہ پنجاب اور اسلام آباد میں تحریک انصاف کے ناراض اور مایوسی کا شکار اراکین پارلیمنٹ کی وجہ سے بھی عمران خان کی پریشانی بڑھی ہے۔ وہ اراکین زیادہ مراعات اور حقوق کے لیے جمع ہوچکے ہیں۔  اسٹبلشمنٹ کے پرانے اثاثے، جہانگیر ترین نے 2018 ء میں پنجاب اور اسلام آباد میں حکومت سازی کے لیے اراکین کے نمبر پورے کرکے تحریک انصاف کو حکومت سازی کے قابل بنایا تھالیکن بعد میں اُن کے عزائم دیکھتے ہوئے عمران خان نے اُنہیں خود سے پیچھے ہٹا دیا۔اب اگر ضرورت پڑی تو جہانگیر ترین ہارس ٹریڈنگ کی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ہاؤس تبدیلی کے لیے تیارہوں گے۔


دوسری طرف سوچ، ہدف اور عمل میں ہم آہنگی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم)  کی بنیادرکھی گئی تھی۔ اس کا مقصد تحریک انصاف کواقتدار سے ہٹانا اور اسٹبلشمنٹ کو مجبور کرنا تھا کہ وہ سیاسی عمل کو اپنی گرفت سے آزاد کر دے۔لیکن اس وقت پی ڈی ایم کا اپنا شیرازہ بکھر رہا ہے۔


پاکستان مسلم لیگ ن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی مایوس کن کارکردگی جو اگلے انتخابات میں اسے سندھ میں حکومت سازی سے محروم کرسکتی تھی، کو دیکھتے ہوئے آصف زرداری دباؤ میں آگئے۔ اُنہوں نے اسٹبلشمنٹ کی صف میں کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ اقدامات، جیسا کہ بلوچستان میں من مرضی کی حکومت قائم کرنا، اسٹبلشمنٹ کے آدمی کو چیئرمین سینٹ منتخب کرانا اور سینٹ میں اپنے آدمی کو اپوزیشن لیڈر بنانا حالاں کہ اس عہدے کے لیے ن لیگ سے وعدہ کیا گیا تھا، اُن کے ارادوں کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہنے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ مریم اور نواز شریف پیپلز پارٹی کو ٹروجن ہارس سمجھتے ہیں اور وہ ان چالبازیوں کے شدید ناقد ہیں۔


لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کو بھی نواز شریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف موقف سے اختلاف ہے۔ درحقیقت شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے بہت سے مرکزی راہ نما اور حامی اسٹبلشمنٹ سے براہ ِراست تصادم کے حق میں نہیں جس کی وکالت نوازشریف اور ان کی بظاہر سیاسی وارث مریم کرتے ہیں۔ن لیگ کے روایت پسند سیاست دان بغاوت کی نئی پالیسی سے خائف ہیں۔ تاہم وہ اپنے تصورات کو الفاظ دینے سے اس لیے گھبراتے ہیں کیوں کہ مسلم لیگ کا ووٹ نواز شریف کے پاس ہے جب کہ مسلم لیگ ن کے نوجوان حامیوں کو مریم کی قیادت میں کشش دکھائی دیتی ہے۔ جب بھی آزاد اور منصفانہ انتخابات ہوں گے، مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے جیت جائے گی اور نواز شریف اور مریم اقتدار میں آجائیں گے۔یہی سب سے بڑا مسلہئ ہے۔


اسٹبلشمنٹ تہیہ کرچکی ہے کہ اس کی نوبت نہیں آنے دینی۔ یہ مسلم لیگ ن کی فتح گوارا کرسکتی ہے بشرطیکہ اس کا کنٹرول نوازشریف اور مریم کی بجائے شہباز شریف کے پاس ہو۔ اس دوران یہ عمران خان کو سہارا دیے ہوئے ہے لیکن آصف زرداری اور شہباز شریف کے ساتھ بھی رومانس جاری ہے۔اس لیے جب شہباز شریف مسلم لیگ ن کا اختیار سنبھالنے اور پیپلزپارٹی اور اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مریم، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، پرویز رشید اور دیگر اُنہیں ناکام بنا دیتے ہیں۔ یہ نوا زشریف کی غیر اعلانیہ پالیسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف کو پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو واپس پی ڈی ایم میں شامل کرنے سے روک دیا گیا کیوں کہ ایسا اقدام پی ڈی ایم کو اسٹبلشمنٹ مخالف محاذکی بجائے اسٹبلشمنٹ نواز دھڑا بنا دے گا۔


پارٹی کے درمیان اور پارٹیوں کے اندر کے یہ مسائل اس لیے ہیں کہ”متبادل“ پاکستان مسلم لیگ ن نے نواز شریف کے تصور کے مطابق سول ملٹری تعلقات میں انقلابی تبدیلی کے لیے درکار پالیسی فریم ورک ترتیب نہیں دیا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی حمایت یا کسی مقبول عام پرتشدد تحریک کے بغیر مسلم لیگ ن تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹنا تو کجا آزاد اور منصفانہ عام انتخابات بھی یقینی نہیں بنا سکتی کہ وہ اقتدار میں واپس لوٹ آئے۔ نہ ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ سول ملٹری توازن کو اپنے حق میں جھکا لے گی۔ ان حالات میں شہباز شریف اور آصف زرداری کا اسٹبلشمنٹ کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھانا عملی طور پر معقول قدم دکھائی دیتا ہے۔ صرف اسی طرح یہ جماعتیں میدان میں اتر کرکھیل میں شریک ہوسکتی ہیں۔


اسٹبلشمنٹ تزویراتی پالیسی سے معاشی پالیسی کی طرف جلدازجلد آنا چاہتی ہے کیوں کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے معاشی خوشحالی ناگزیر ہے۔ یہ عالمی برادری، خاص طور پر امریکا اور مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں کو خوش کرتے ہوئے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اسٹبلشمنٹ کی یہ کوشش تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن ناکام بنا رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی غیر مقبول حکومت کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے جب کہ ”متبادل“ مسلم لیگ ن اس کے ساتھ محاذ آرائی پر تلی ہوئی ہے۔ جلد ہی کسی نہ کسی کو پیچھے ہٹنا پڑے گا، یا کچھ کرنا پڑے گا۔ اب دیر کی گنجائش نہیں ہے۔