بیرونی عوامل کا داخلی پالیسیوں پر اثر

بیرونی عوامل کا داخلی پالیسیوں پر اثر

اندرونی ذرائع کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال ہی میں تحریک انصاف کے چھے وفاقی وزرا کو بلا کر اُن سے دوٹو ک لہجے میں کچھ باتیں کی ہیں:  (1)  تحریک انصاف حکومت کی مایوس کن کارکردگی عوامی اشتعال کا باعث بن رہی ہے۔ چنانچہ ایسی حکومت عوام پر مسلط کرنے پر اسٹبلشمنٹ کی ساکھ کو شدید زک پہنچ رہی ہے۔ (2)  پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں وزرائے اعلیٰ تبدیل کرکے حالات بہتری لائی جائے۔ (3) وفاقی حکومت چلانے کے لیے باصلاحیت اور قابل اعتماد ٹیم بنائی جائے تاکہ کم از کم معیشت کو تو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔ وزرا کو سنجیدہ لہجے میں بتایا گیا کہ وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔


اس ”نصیحت“ کے نتائج یہ نکلے کہ عمران خان نے ندیم بابر اور حفیظ شیخ کو بخوشی عہدوں سے فارغ کردیا حالانکہ وہ حال ہی میں ان کی حیرت انگیز کامیابیوں کی تعریف کررہے تھے۔ درحقیقت اُنہوں حفیظ شیخ کو سینٹ کا ٹکٹ بھی دے دیا تھاتاکہ وہ منتخب ہو کر وزارت خزانہ کو باقاعدہ وزیر کے طور پر چلائیں۔ کچھ مزید کانٹ چھانٹ بھی ہونے جارہی ہے۔ تاہم عمران خان کے اپنی ٹیم کے چناؤ کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو کابینہ کے بہتر معیار یا اچھی کارکردگی کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔


پنجاب میں بطور خاص تبدیلی کی کڑوی گولی نگلنا آسان نہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی سفارش ”ہوم“ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ہے۔ اسی لیے وہ تمام تر خراب کارکردگی کے باوجود بچے ہوئے ہیں۔ فی الحال عمران خان اور جنرل باجوہ، دونوں کے لیے قابل قبول امیدواروں کی فہرست خالی ہے۔ عمران خان کو خطرہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش تحریک انصاف کے اتحادیوں کے الائنس کا دھڑن تختہ کردے گی۔ اس کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس صورت میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق کو صوبے میں حکومت بنانے کا سنہری موقع مل جائے گا۔ پنجاب سے اسلام آباد کی طرف چڑھائی کرنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ اب عمران خان ایسا کریں تو مصیبت، نہ کریں تو مصیبت۔


اس دوران فعال اور متحرک چیف آف آرمی سٹاف بھارت کے ساتھ تناؤ کم کرنے اور صورت حال معمول پر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے لیے کشمیر کوفی الحال پس پشت ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیوں کہ اس کی وجہ سے بجٹ اور سکت پر بہت دباؤ ہے۔ لائن آف کنٹرول پر طویل جنگ بہت مہنگی تھی۔ ماہرین کے مطابق روزانہ سینکڑوں گولے فائر کیے جاتے ہیں۔ ان کی مالیت ہزاروں امریکی ڈالر ہوتی ہے۔ طویل سرحد پرفوجی دستوں کو ہمہ وقت چوکس رکھنے پر بھی بھاری خرچ اٹھتا ہے۔ فضائیہ کے سکواڈرنوں کو تیاراور تناؤ کے وقت فضا میں محو پرواز رکھنا ناقابل برداشت حد تک مہنگا کھیل ہے۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ کورنا لاک ڈاؤن، آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور بڑی حد تک عمران خان کے ناقص فیصلوں کی وجہ سے گزشتہ دو سالوں کے دوران معیشت شدید گراوٹ کا شکار ہے۔حکومت کے محصولات میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ سے دفاعی بجٹ میں بھی اضافہ ممکن نہیں۔


چیف آف آرمی سٹاف عمران خان کو سعودی شہزادے، پر نس محمد بن سلمان کے ساتھ روابط بہتر کرنے کی تاکید کررہے ہیں۔ ستمبر 2019 ء میں وزیراعظم کے ترکی، ملائیشیا اور پاکستان پر مشتمل ایک اسلامی بلاک قائم کرنے کے فیصلے نے پرنس محمد بن سلمان کو ناراض کردیا تھا۔مجوزہ اسلامی بلاک سعودی قیادت میں قائم او آئی سی کے مقابلے پرتشکیل دیا جانا تھا۔ درحقیقت سعودی پرنس اُس وقت بھی شدید برہم ہوئے جب عمران خان نے یک طرفہ طور پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالث کا کردارادا کرنے کی پیش کش کی۔ وہ اتنے ناراض تھے کہ 2020  ء میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کو سہارا دینے کے لیے فراہم کردہ مالی مدد بھی واپس لے لی۔ اس کے بعد اُنہوں نے پاکستان میں ایک پائی بھی سرمایہ کاری نہیں کی ہے۔ تناؤ کم کرنے کے لیے سعودیوں اور عرب امارات کو بھارت کے ساتھ مذاکرات کی سہولت کاری پر مائل کرنے کے بعد اب جنرل باجوہ نے سعودی پرنس سے عمران خان کے لیے دعوت نامہ حاصل کیا ہے تاکہ وہ مالی پیکج کے لیے سعودی عرب کا دورہ کرسکیں۔


ہم جانتے ہیں کہ عمران خان بھارت کے ساتھ تجارت پر پابندی پر قائم نہیں ہیں۔ اس سے پہلے اُنہوں نے معاشی،سفارتی اور سماجی تعلقات منقطع کرلینے کے باوجود ادویات کو اس فہرست سے استثنیٰ دیا تھا۔ یہ پابندی 2019 ء میں اس وقت لگائی گئی تھی جب نریندر مودی نے جموں اور کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 ختم کردیا تھا۔ہماری حکومت کی ”ضرورت کی خاطر“ یک طرفہ نرمی نے بھارتی میڈیا کو یہ کہنے کا موقع دے دیا کہ پاکستان کشمیر پر اپنے موقف سے قدم پیچھے ہٹا چکا۔ اب ہائی کمشنرز کی اپنے اپنے دفاتر میں واپسی اور ویزوں کا اجرا بھی شروع ہونے اور تعلقات معمول پر آنے کی توقع ہے۔


پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات اسٹبلشمنٹ نے بطور خاص اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں کیوں کہ امریکا افغانستان سے انخلا کی پالیسی پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اب طالبان پر کسی قدر اثر رکھنے والا واحد ادارہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ ہے۔ تاہم پاکستان کے سامنے کوئی آسان کام نہیں: سب سے پہلے تو اس نے طالبان کوامریکا کے ساتھ جنگ بندی پر قائل کرنا ہے۔ اس دوران وہاں بھارت کے کردار پر کڑی نظر رکھنی ہے کیوں کہ افغانستان میں نئے ابھرنے والے منظر نامے میں امریکا اور غنی حکومت دونوں افغانستان میں بھارت کے کردار کے حامی ہیں۔ امریکا اور بھارت نے مل کر ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی پاکستان کے سر پر لٹکا رکھی ہے۔ پاکستان کو دیوالیہ ہونے اور عالمی تنہائی سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کی بات بھی ماننی ہے۔


ابھرتے ہوئے منظر نامے کاانتہائی ستم ظریفانہ پہلو یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان ایک ایساملک تھا جہاں خارجہ پالیسیاں داخلی سیاست اور معاشی ترقی کو متاثر کرتی تھیں۔ ان خارجہ پالیسیوں کو اسٹبلشمنٹ کا ”قومی سلامتی“ کا خبط کنٹرول کرتا تھا۔ اس کی مرکزی لکیر بھارت کے ساتھ ہمہ وقت دشمنی، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے پر زور، گویا معروضی حالات میں مسلہ کشمیر کا ناممکن حل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حل مزید پیچ دار ہوتا گیا۔ سولین قیادت بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی جتنی کوشش کرتی، اسٹبلشمنٹ قدم پیچھے ہٹا کر سیاست دانوں اور سیاسی پیش رفت کو پٹری سے اتار دیتی۔ سولین حکمرانوں کی جمہوریت اور احتساب کی روایات رکھنے والے ریاستی ادارے قائم کرنے کی ہر کوشش کو اسٹبلشمنٹ نے کنٹرول میں رکھا۔ جب بھی داخلی عوامل کی وجہ سے  اسٹبلشمنٹ کی گرفت ڈھیلی ہوئی، امریکی اس کی مدد کو آگئے۔ اُنہوں نے فوج کو سیاسی حمایت دی، جیسا کہ 1960، 1980 اور 2000 کی دہائیوں میں دیکھنے میں آیا۔ سیاسی حمایت اور مالی معاونت کی وجہ سے فوجی حکومتوں نے سولین اور بھارت مخالف بیانیہ توانا رکھا۔لیکن آج صورت حال اس کے برعکس ہے۔ امریکا سے فوجی اور معاشی امداد ملنے کا دور ہمیشہ کے لیے تمام ہوا۔ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کو رسی کھینچنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ خطے میں چین مخالف طاقت کے طور پر بھارت کے بازو مضبوط کیے جارہے ہیں۔


تاریخ کے اس اہم موڑ پراسٹبلشمنٹ کو ملک میں ایک مقبول سولین شراکت دار چاہیے تھا تاکہ پاکستان کو ایک ایسا ”نارمل“ ملک بنایا جاسکے جہاں ملکی سیاست اور معیشت اس کی بیرونی پالیسیوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ مشکل یہ آن پڑی کہ وہ سولین شراکت دار دور جدید کا شیخ چلی ثابت ہوا ہے۔ جتنی جلدی  اسٹبلشمنٹ اپنی خوش فہمی سے نکل آئے اوراپنے گھر کو درست کرلے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ریاست اور معاشرے اور ہرکسی کے لیے اسی میں بہتری ہے۔