عدلیہ کے پاس انتخاب کا موقع ہے

عدلیہ کے پاس انتخاب کا موقع ہے

سینٹ انتخابات اچانک ایسامیدان جنگ بن گئے ہیں جہاں حز ب اختلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومٹ کے جھنڈے تلے جمع ہے تو دوسری طرف حکومت اور اس کی چھوٹی اتحادی جماعتیں تحریک انصاف کے ساتھ صف بستہ ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کے سائے میں ریاستی اداروں کے غیر سیاسی ہیولے میں منڈلا رہے ہیں۔ ان کا ہدف پی ڈی ایم اور اس کے راہ نما ہیں۔ان میں سب سے نمایاں نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور آئی بی ہیں۔ ان سب کی مشترکہ کاوشوں کا ہدف حزب اختلاف کی تباہی ہے ۔ مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ ”غیر جانبداری“ کے تمام تر دعووں کے باوجود اسٹبلشمنٹ کے ماسٹر سلیکٹر ہی ”مناسب نتائج“ کے  لیے تمام ڈوریں ہلارہے ہیں۔ بالکل جس طرح تین سال پہلے اُنہوں نے چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کو بلیک میل کرکے نتائج حاصل کیے تھے، یا حزب اختلاف کے چودہ سینٹرز کو سمجھا بجھا کر انہی چیئرمین سینٹ کے خلاف پیش کردہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنائی تھی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب 2018 ء میں سینٹ کے انتخابات کا انعقاد ہوا تھا تو عمران خان نے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخواہ کی صوبائی اسمبلی کے کم از کم دو درجن اراکین پررقم لے کر ووٹ فروخت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ووٹ چاہے حزب اختلاف کو بیچے یا اپنی ہی جماعت کے امیدواروں کو، لیکن تحریک انصاف کے لیڈر کے فیصلوں کی خلاف ورزی ضرور کی تھی۔


یہاں سوال پوچھنا برمحل ہوگا کہ آج حکومت اور اس کے اتحادی سینٹ کے ووٹوں کی خریدوفروخت پر اتنے بروفروختہ کیوں ہو رہے ہیں؟ ابھی کل تک وہ خود ایسا کررہے تھے۔ بلکہ اس خریدوفروخت کے قدردان تھے۔ درحقیقت جب گزشتہ سال چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو تحریک انصاف کے سب سے بلند آہنگ ترجمان،شبلی فراز کی خوشی دیدنی تھی۔ تحریک اسی لیے ناکام ہوئی تھی کیوں کہ حزب اختلاف کے کچھ ”باضمیر“ سینٹروں نے حکومت کا ساتھ دیا تھا۔


یہ ایسا لگتا ہے کہ اس دہرے اصول کے پیچھے وہی جانی پہچانی وجوہات ہیں:  اگر مقتدرہ قوتوں کے حق میں ہو تو انتخابی دھاندلی یا ووٹوں کی خریدوفروخت جائزہے۔ اگر مقتدرہ کو اس کا نقصان ہوتو پھر ناجائز ہے۔ اس میں ذرّہ برابر شک نہیں کہ 2018 ء کے عام انتخابات میں ووٹوں کی گنتی کی رات آرٹی سسٹم جان بوجھ کر خراب کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد صرف پاکستان مسلم لیگ ن کو اس اکثریت سے محروم کرنا تھا۔ اس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک پتا تک نہ کھڑکا۔ نہ اسے کسی پراعتراض ہوا، نہ اس نے کسی پر ذمہ داری ڈالی۔ اس کے بعد سے دیگر انتخابی سرگرمیوں میں بھی الیکشن کمیشن کا یہی کردار دیکھنے میں آیا ہے۔


اب سینٹ میں ممکنہ طور پر نئی صورت حال ابھرنے سے ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب کے سرپر کوئی ناگہانی آفت نازل ہوگئی ہو۔ اگر تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کو غیر متوقع طور پر چند نشستوں پر حزب اختلاف کے ہاتھو ں شکست ہوجاتی ہے تو حکومت ایوان بالا میں اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ اس صورت میں قومی اسمبلی میں اکثریت رکھتے ہوئے بھی قانون سازی نہیں کرسکے گی۔ اس کے نتیجے میں گورننس کے مسائل پیدا ہوں گے۔ حکومت اعتماد سے محروم رہے گی۔


اس ممکنہ صورت حال کے پیچھے دو وجوہات ہیں: تحریک انصاف کے اندرونی دھڑے اپنی اعلیٰ قیادت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہیں۔دوسری، حزب اختلاف لانگ مارچ سے پہلے اپنی متحدہ طاقت دکھانے کے لیے کمر بستہ ہے۔ اس میں کامیابی ان ہاؤس تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی(جب ایک مرتبہ پھر وفاداریاں تبدیل کرنے کا موسم ہوگا)۔ لیکن بات صرف یہیں تک محدود نہیں۔ اس وقت اسٹبلشمنٹ کے مسلط کردہ ہائبرڈ سیاسی نظام کی ساکھ ہی نہیں، سکت بھی خطرے میں ہے۔ اسٹبلشمنٹ اس نظام کے ذریعے پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے۔


اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس اکھاڑے میں قدم رکھ دیا ہے۔ اگرچہ سینٹ کے انتخابات کے لیے خفیہ رائے شماری پر آئین بالکل واضح ہے، لیکن حکومت نے فاضل عدالت سے رائے مانگی ہے کیا دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کی آرزو پوری کرنے کے لیے کسی آئینی ترمیم کے بغیر خفیہ رائے شماری کی شرط ختم نہیں کی جاسکتی؟ (اور یہ ایسا نہیں کرسکتی)۔ اس حوالے سے دو باتوں نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ پہلی، صدر مملکت نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے حتمی فیصلے سے پہلے ایک آرڈیننس جاری کردیا ہے جو سینٹ کے انتخابات کے لیے کھلی رائے شماری کی اجازت دیتا ہے۔ دوسری، سینٹ انتخابات سے صرف چند ہفتے پہلے سپریم کورٹ ایسے چونکا دینے والے سوالات پوچھ رہی ہے اور ایسی تشریح کررہی ہے جو آئین کی اُن شقوں کو چیلنج کرتی محسوس ہوتی ہیں جو خفیہ رائے شماری لازمی بناتی ہیں۔ بار اور سول سوسائٹی کی ایک بڑی اکثریت کی رائے ہے کہ چاہے خلاف آئین فیصلہ ہو یا فیصلے کو التوا میں ڈالا جائے، سپریم کورٹ آف پاکستان کی ”سماعتوں“کا محور سینٹروں کو اپنے ماسٹرز سے دامن چھڑا کر بھاگنے سے روکنا ہے تاکہ وہ اس مرتبہ ”اپنے ضمیر کی روشنی“میں ووٹ نہ دے سکیں جس پر کچھ عرصہ پہلے شبلی فراز نے جشن منایا تھا۔


اٹارنی جنرل آف پاکستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کرداربھی لائق تبصرہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے آزاد فیصلے کرنے میں سپریم کورٹ کی معاونت کرنی ہوتی ہے۔ تاہم اس کیس میں وہ اس کے برعکس کام کررہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کھلی رائے شماری کے تصور کے سامنے مزاحمت کی جرات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ناقدین پوچھتے ہیں کہ کیایہی وجہ ہے کہ بنچ چیف الیکشن کمیشن اور اس کی لیگل ٹیم کی سرزنش کررہا ہے؟تو اس صورت میں وہ کب تک مزاحمت کر پائیں گے؟


تاریخ میں عدلیہ کی بحالی کے لیے وکلا کی تحریک کو فخر سے یاد کیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں فوجی آمر کو بھاگناپڑا تھا۔ اس تحریک نے جج صاحبان کوایگزیکٹو کے دباؤ سے آزاد کرادیا۔ تاہم بدقسمتی یہ ہوئی کہ جلد ہی ”آزادی“ بلاروک ٹوک من مانی کی صورت ڈھل گئی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے بے پناہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے محض توہین ِعدالت کے فیصلے میں ایک منتخب شدہ وزیر اعظم کو عہدے سے ہٹا دیا۔ یہ عدالتی تاریخ کاایک نادر فیصلہ تھا۔ بعد میں آنے والے چیف جسٹس، کھوسہ نے اختیارات کی تلوار کچھ اس طرح چلائی کہ عقل و خرد انگشت بدنداں رہ گئے۔ ایک مقبول وزیر اعظم کو معمولی سی تنخواہ نہ لینے پر عہدے سے ہٹا دیا۔ تیسرے چیف جسٹس،ثاقب نثار ایک کوتاہ ظرف انسان تھے لیکن خود کو عدل وانصاف اور حکمت کی علامت، بابا رحمتا سمجھ بیٹھے۔ کسی ہالی ووڈ فلم کے جوکر کی طرح راہ میں آنے والی ہر چیز کا کباڑا کردیا۔ سابق جج سپریم کورٹ، شیخ عظمت سعید نے بھی انتہائی ڈھٹائی سے تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کی حمایت اور اپوزیشن سے تعصب روا رکھا۔


موجودہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے انتخاب کے مواقع ہیں۔ اگر وہ جھوٹ، دھوکا دہی اور جبر کی بنیاد پر وجود میں آنے والے موجودہ ہائبرڈ سیاسی نظام کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اس کی حمایت کرتے ہیں تو شاندار وکلا تحریک کو حتمی طور پر دفن کرنے کا سہرا انہی کے سر جائے گا۔