جمہوریت، افراتفری اور فسطائیت

جمہوریت، افراتفری اور فسطائیت

”ملک میں تازہ انتخابات کے لیے پی ڈی ایم کی تحریک کا پہلا مرحلہ گزشتہ اتوار کو لاہور جلسے پر تمام ہوا۔ تحریک نے عمران خان کو اکتیس جنوری تک اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی مہلت دی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو احتجاج کا دوسرا مرحلہ شروع ہوجائے گا۔ اس میں گیارہ جماعتی اتحاد قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کرے گا۔ تیسرے مرحلے میں مارچ میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔ حکومتِ وقت کے لیے پی ڈی ایم کی دھمکی کتنی خطرناک ہے؟


”ایک ماہ تک چاروں صوبوں میں کیے جانے والوں کامیاب جلسوں کا نقطہ عروج لاہور کا جلسہ تھا۔ حکومت نے اسے ”ناکام“ قرار دیا ہے۔ پی ڈی ایم کا اصرار ہے کہ یہ کامیاب تھا۔ زیادہ تر مبصرین کی توجہ اس بات پر ہے کہ جلسے میں حاضرین کی تعداد کتنی تھی اور وہ کس قدرپرجوش تھے۔ان عوامل پر پی ڈی ایم کی حکمتِ عملی کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدارتھا۔ چونکہ لاہور کو مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے،یہاں سے ملنے والی حمایت سے پارٹی کے بیانیے کی جانچ ہونی تھی۔ تاہم جلسے کی اہمیت شرکا کی حسابی تعداد اور اچھے کو عظیم یا حیرت انگیز قرار دینے کی خوش بیانی سے کہیں آگے ہے۔


”پی ڈی ایم کے حامیوں کے والہانہ جوش کو قدرے سرد کرنے میں کئی ایک عوامل کارفرماتھے۔ ملتان میں حکومت نے بہت سی رکاوٹیں کھڑی کردیں یہاں تک کہ جلسے کو آخری وقت تبدیل کرناپڑا۔ لاہور میں بھی حکومت نے عوامی جوش کو سرد کرنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی اپنائی۔ اس نے ڈی جے بٹ کو گرفتار کرکے ساؤنڈسسٹم نصب کرنے سے روک دیا، گراؤنڈ میں پانی چھوڑ دیا، کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کا پراپیگنڈا کرکے لوگوں کو جمع ہونے سے خوف زدہ کیا اورکرسیاں فراہم کرنے والوں کوکارروائی کی دھمکی دے کر سروس فراہم کرنے سے منع کردیا۔ اس شام لاہور کے سرد موسم نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ جب نواز شریف نے رات کو تقریر شروع کی تو درجہ حرارت چھے ڈگری تھا۔


”تاہم اس جلسے کی ناکامی کا سب سے کامیاب تاثر اسٹبلشمنٹ نے میڈیا پر معلومات کنٹرول کرکے ابھارا۔ کسی ٹی وی چینل کو جلسہ دکھانے یا پوری تقاریر نشر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ میڈیا مالکان اور نیوز ڈائریکٹرکو جلسے کو ”ناکام“دکھانے کا حکم تھا جس کے لیے اُنہوں نے مختلف سیاسی اور تیکنیکی حربے استعمال کیے۔ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک میر شکیل الرحمن کی طویل حراست اور اُن کے خلاف انتقامی کارروائی اور حکومت سے اختلاف رائے رکھنے والے صحافیوں کی تواتر سے ”گم شدگی“ کے بعد کوئی میڈیا مالک دھمکی آمیز فون کال یا واٹس ایپ پیغام کو نظر انداز کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ کون سا صحافی ہے جو حکم عدولی کرکے اس معاشی ابتلا کے دورمیں اپنی ملازمت سے محروم ہونا چاہے گا۔ درحقیقت چند ایک معزز صحافیوں کو چھوڑ کر ٹی وی پر تجزیہ کاروں،اینکروں اور نمائندوں کی حکومت کی حامی فوج یامتعصب شرکاپی ڈی ایم کی پالیسی کو ناکام قرار دیتے ہوئے اس کے راہ نماؤں پر کڑی تنقید کررہے تھے۔ اس سے تصدیق ہوتی ہے کے اس وقت میڈیا کا بازو کس قدر مروڑا جاچکا ہے۔ پی ڈی ایم کے لاہور جلسے کا 2011  ء کے عمران خان کے جلسے سے موازنہ کرنا بددیانتی ہے کیوں کہ اُس جلسے کو اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل تھی اور اس کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی فری ہینڈ دیا تھا۔ سب سے بڑھ کر، وہ موسم بھی سہانا تھااور فضا میں کسی وائرس کے خطرے کی دھمک نہیں تھی۔


”پی ڈی ایم تحریک کی اہمیت کی وجہ کچھ غیر معمولی حقائق ہیں۔ سب سے پہلا،یہ تحریک پاکستان کی بائیں بازو کی مرکزی جماعت، دائیں بازو، سیکولر، روایتی سوچ رکھنے والی مذہبی اور مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے۔ دوسرا یہ کہ اس تحریک میں شامل تمام جماعتوں کا اصل ہدف حکومت کی بجائے سیاسی عمل میں مداخلت کرنے والی اسٹبلشمنٹ ہے۔ تیسرا یہ کہ اُن کے احتجاج کی اصل سرزمین پنجاب ہے جو اسٹبلشمنٹ کی بھی طاقت کا مرکز ہے۔ چوتھا یہ کہ اسٹبلشمنٹ کی حمایت سے وجود میں آنے والی حکومت کی نااہلی اور نالائقی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی مشکلات کا شکار ہے۔ اس کی وجہ سے ناراض اور مشتعل افراد بھی پی ڈی ایم کے ساتھ شامل ہورہے ہیں۔ تو اب کیا ہوگا؟


”پی ڈی ایم کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔ ایک سال سے اس کی اہم ترین جماعتیں (پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن) لانگ مارچ یا اسٹبلشمنٹ کو اپنے مسائل کی اصل وجہ قرار دے کر اسے ہدف بنانے کے حق میں نہیں تھیں۔ لیکن اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کے حامی شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کے جارحانہ موقف کو پذیرائی مل گئی۔ اس نے پارٹی میں موجود اسٹبلشمنٹ نواز روایتی دھڑوں کو بادلِ نخواستہ اس موقف کی حمایت پر مجبور کردیا، تاہم اُن کے دل مکمل طور پر تبدیل نہ ہوئے۔


”اب پیپلز پارٹی نے بھی رخنہ ڈال دیا ہے۔ یہ استعفے دے کر یا لانگ مارچ کرکے اسٹبشلمنٹ کے خلاف صف آرا نہیں ہونا چاہتی۔ اسے یہ بھی ڈرہے کہ یہ اپنے مضبوط گڑھ، سندھ کو کھو دے گی جبکہ ابھی قومی منظر نامے پر بہتر امکانات کی کوئی ضمانت نہیں۔ اس کے برعکس،پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ اگرتازہ انتخابات ہوتے ہیں تواُنہیں کچھ کامیابی ہی ملے گی، نقصان نہیں ہوگا۔


”پی ڈی ایم کی تحریک کے لیے آنے والے چند ماہ بہت اہم ہیں۔ یا تو یہ متحد رہ کر پوری طاقت سے لانگ مارچ کرے گی اور اسمبلیوں سے استعفے دے کر احتجاج کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ اس دوران حکومت کی ضمنی انتخابات کی کوشش کو بھی ناکام بنانا ہوگاتاکہ اسٹبشلمنٹ اور تحریک انصاف کی طرف سے استحکام کے نام پر طاری کردہ جمود کو برہم کیا جاسکے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ یہ تقسیم ہوتے ہوئے بکھرجائے اور طاقت کھوکر جمہوریت نما آمریت کے جبر کے سامنے سرنگوں ہوتی جائے۔


”پی ڈی ایم تحریک کی روحِ رواں مولانا فضل الرحمن نے خبردار کیا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کے میثاقِ جمہوریت کو پورا نہ کیا گیا تو ملک میں افراتفری پھیل سکتی ہے۔ اس بھی بدتر صورت یہ ہوگی جب اسٹبلشمنٹ اور تحریکِ انصاف کی فسطائیت پاکستانی عوام کی آزادی سلب کرلے گی۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.