سب شکست خوردہ ہیں

سب شکست خوردہ ہیں

”تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے اقتدار نے جمہوری اور آئینی حقوق کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے، اس کی ایک جھلک گزشتہ بدھ کو گلگت  بلتستان  میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سے ملتی ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے۔


”اب تک دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ گلگت  بلتستان کے انتخابات میں وہ پارٹی جیتتی تھی جس کی اسلام آباد میں حکومت ہوتی تھی۔اور اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔پی پی پی نے اپنے دور حکومت میں گلگت  بلتستان میں اکثریت حاصل کی۔ اسی طرح جب مسلم لیگ ن اقتدار میں تھی تو اسی نے گلگت  بلتستان میں حکومت بنائی۔ لیکن اس مرتبہ تحریک انصاف نے 23 میں صرف 9 سیٹیں حاصل کی ہیں۔اس طرح یہ حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کرپائی۔ یہ نتائج کسی بھی حکمران جماعت کی ناقص کارکردگی کا مظہر ہیں۔ بہرحال آزاد اراکین سات نشستوں کے ساتھ دوسرا بڑا بلاک بناتے ہیں؛ اور دکھائی دیتا ہے کہ وہ مناسب پیش کش کے بعد تحریک انصاف کے ساتھ مل جائیں گے۔ تاہم جس طریقے سے یہ انتخابی عمل ہوا، اس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے افسران کی کارکردگی پر سنگین تحفظات پیدا ہوگئے ہیں۔


”انتخابی قوانین کے برعکس، ”وزیر اعظم“عمران خان کو رائے دہندگان پر اثر انداز ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ اُنہوں نے ایک الگ صوبے کا وعدہ کرڈالا جو کہ اس علاقے کا دیرینہ مطالبہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی آئینی ترمیم سامنے نہیں آئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ پاکستان کے سب سے طاقت ور شخص کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ نئے صوبے کے قیام کی بحث اس علاقے میں انتخابات کے بعد ہی ہوگی۔الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف وزری کرتے ہوئے وفاقی وزرا کا ایک ٹولہ سرگرم عمل رہا۔درحقیقت یہ کارروائی نگران حکومت کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی جس نے انتخابات کا انعقاد کرانا تھا۔ نگران حکومت کے قیام کے لیے حکومت اور حز ب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے قانونی ضرورت ہے۔ تاہم اتفاق رائے تو درکنار، یہاں حز ب اختلاف سے مشاورت یا بحث تک نہ کی گئی۔


”اسی ڈھٹائی کے ساتھ الیکشن کمشنر کی تعیناتی بھی یک طرفہ طور پر عمل میں لائی گئی؛ مطلوبہ نتائج یقینی بنانے کے لیے انتخابات التوا میں ڈالے گئے اور مسلم لیگ ن کے آٹھ اہم سیاسی ممبران کو اسی طرح وفاداری تبدیل کرنے کے لیے قائل کیا گیا جس طرح 2018ء کے عام انتخابات میں درجنوں الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں شامل کرایا گیا تھا۔ پھر انتخابات کے بعد آزاد اراکین کو سبز باغ دکھاکر تحریک انصاف میں شامل کرکے پنجاب اور اسلام آباد کی حکومتیں بنائی گئی تھیں۔ اب مسلم لیگ ن کے احسن اقبال چیف الیکشن کمیشن اسلام آباد کی طرف مارچ کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو کا بھی کہنا ہے کہ انتخابات ”چرا“ لیے گئے ہیں کیوں پیپلز پارٹی نے پچیس فیصد جبکہ تحریک انصاف نے چوبیس فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔


”اسی طرح تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کی حکومت اگلے دو ماہ کے دوران حز ب مخالف کے جلسے جلسوں اور ممکنہ لانگ مارچ کا توڑ کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ پنجاب کے انسداد بدعنوانی کے محکمے نے اچانک کروٹ لے کر آنکھیں کھولتے ہوئے گزشتہ دور حکومت کے دوران ہونے والی مبینہ بدعنوانی کی پاداش میں مسلم لیگ ن کے درجنوں سیاست دانوں، بشمول قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کے خلاف ”تحقیقات“ کی منظوری دی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو رہنما ن لیگ کے دسمبر اور جنوری میں ہونے والے جلسوں کی حمایت کریں گے اور ان میں شرکت کریں گے، اُنہیں ”احتساب“ کے نام پر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ہمیں بتایا گیا ہے کہ عدالت نے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل اور دیگر پر فرد جرم عائد کردی ہے۔ شہباز شریف کے خلاف میڈیا مہم بھی پورے زوروں پر ہے۔ا ب یہ کوئی دن کی ہی بات ہے جب اس وقت ملک کی سب سے مقبول عوامی رہنما، مریم نواز کی نقل وحرکت کو کسی نہ کسی بہانے محدود کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حکومت کے سامنے صرف مولانا فضل الرحمن ہی بچیں گے۔


”حکومت کی تازہ ترین چال کوویڈ 19 (یا کوویڈ 18؟) کے بڑھنے کا خوف پھیلانا ہے۔ اس کی آڑ میں جلسے جلسوں پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ اس دوران مارکیٹوں میں خریداروں کے ہجوم سے اغماض برتا جائے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تین سو افراد سے کم شادی بیاہ کے اجتماعات کو بھی اجازت ہے۔ گویا مقامی حکومت کسی شادی کی جاری تقریب میں تین سو افراد کو گن کر باقی کو نکال باہر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کوویڈ 19 کے خطرے کی لکیر تین سومہمانوں کے بعد ہے؟


”اس تمام صورت حال میں مریم نواز کو فسطائی سوچ رکھنے والے ناقدین اور سیاسی لبرلوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے کیوں کہ اُنہوں نے رائے دی تھی کہ موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لیے اُن کی جماعت آئین کی طے شدہ حدود کے اندر رہتے ہوئے    اسٹبلشمنٹ سے بات کرسکتی ہے تاکہ ووٹ کے تقدس اور منصفانہ انتخابی عمل کے نتیجے میں منتخب شدہ حکومت کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔


”جب نواز شریف نے حکومت کے دو اہم ستونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ اُنہوں نے ملک پر تحریک انصاف کی انتہائی نااہل اور غیر مقبول حکومت مسلط کردی تو فسطائی عناصر غصے سے لال بھبھوکا ہوگئے۔ اب وہ ایک بار پھر چراغ پا ہیں کیوں کہ مریم نواز اُنہی کی راہ پر چلتے ہوئے عملی سیاست کی حقیقت پسندی کو اپنا سکتی ہیں۔ لبرل طبقات کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے اسٹبلشمنٹ پر وار کرکے حماقت کی ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے اسی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت ناقابل قبول ہے۔ مت بھولیں کہ انہی لبرل دھڑوں نے اسٹبلشمنٹ کے چہیتے کو ووٹ دیے تھے۔


”غرور اور تعصب، خوف اور نفرت کی فضا گہری ہوتی جارہی ہے۔ ہم سب ہاررہے ہیں۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.