کیا آصف زرداری شعبدہ دکھاسکتے ہیں؟

کیا آصف زرداری شعبدہ دکھاسکتے ہیں؟

”کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کیس“ بہت غیر معمولی ہے۔ ”کسی“ نے ”کہیں“ تو حزب اختلاف کی رہنما مریم نواز شریف کے شوہر، کیپٹن صفدر کی گرفتاری کا فیصلہ کیاتھا۔ کپٹن صفدر نے کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر ”ووٹ کو عزت دو“کے نعرے لگائے تھے۔ جب آئی جی پولیس اور ایڈیشنل آئی جی پولیس نے مقدمے کے اندراج سے انکار کیا تو پیراملٹری فورس کے جوانوں نے اُنہیں ”اغوا“ کرکے مزار کی حرمت پامال کرنے والے شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور اسے گرفتار کرنے پر مجبور کیا ۔ چنانچہ یہ گرفتاری ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر عمل میں لائی گئی جہاں مذکورہ شخص اپنی اہلیہ کے ساتھ قیام پذیر تھا ۔ جب اعلیٰ افسران کے ساتھ روا رکھی جانے والی اس بدسلوکی پر سندھ پولیس کے افسران احتجاجاً ”چھٹی“ پر جانے لگے تو بلاول بھٹو زرداری نے آئین اور قانون کی پامالی پر چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر باجوہ سے انکوائری اور ذمہ داری کا تعین کرنے کا مطالبہ کیا ۔ سندھ پولیس ہڑتال پر جارہی تھی۔ جنرل باجوہ نے صورت حال کو بگڑنے اور قابو سے باہر ہونے سے بچانے کے لیے فوری انکوائری کرائی۔


اب جی ایچ کیو انکوائری کی منظر عام پر آنے والی مختصر سفارشات کے مطابق:  آئی ایس آئی اور رینجرز کے اُن درمیانے درجے کے افسران کو جی ایچ کیو رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو ”عوامی مفاد“ میں مبینہ طور پر ”ضرورت سے زیادہ جذباتی“ ہوگئے تھے۔


نواز شریف نے رپورٹ کو ”مسترد“ کرتے ہوئے کہا کہ جی ایچ کیو نے ان درمیانے درجے کے افسران کو قربانی کا بکرا بنایا ہے۔ نوازشریف کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گرفتاری کا حکم دینے والی اسلام آباد کی اصل شخصیت کو اس کا ذمہ دارٹھہرایا جائے۔


یہ جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی پر اُسی الزام کا تسلسل ہے کہ اُنہوں نے مبینہ طور پر ایک ”سلیکٹڈ“وزیر اعظم کو ملک پر مسلط کیا ہے جس کے احمقانہ اور مخبوط الحواس فیصلوں نے پاکستان کی کمر توڑ دی ہے۔


ایک طرف نواز شریف کا رویہ جارحانہ ہے تو دوسری طرف بلاول بھٹو نے جی ایچ کیو کے ”حل“ کو خوش آئند قرا ر دیتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کے قریب ہونے کی کوشش کی ہے ۔ اب اُن کا کہنا ہے کہ وہ نوا زشریف کی چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو نام لے کر ہدف بنانے کی پالیسی کی حمایت نہیں کرتے، گرچہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو سہارا دے کر ملک پرمسلط کرنے پر اسٹبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ احتیاط بلاوجہ نہیں۔


پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کے رہنماؤں، خاص طور پر شریف خاندان، کو اسٹبلشمنٹ اور تحریک انصاف نے اس قدر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے کہ اب ن لیگ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ اب اُن کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اس ”ہائبرڈبندوبست“ کو پٹری سے اتارنے کے لیے جو ہوسکتا ہے کر گزریں۔ چنانچہ وہ اس حکومت کو سہارا دینے والے سول اور ملٹری کرداروں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔


عوام میں ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے کی مقبولیت نے ن لیگ کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ پر مبنی حکمران اشرافیہ کی ناقص گورننس عوامی اشتعال کا سبب بن رہی ہے اور وہ اس نعرے کو اپناتے جارہے ہیں۔ اُن کا ”تھری ان ون“ہدف اس الائنس کوتوڑنا اور اپنے لیے سیاسی جگہ تلاش کرنا ہے۔ اُن کی یہ پالیسی اُس وقت تک بہت محفوظ ہے جب تک مولانا فضل الرحمن اور اُن کی جمعیت علمائے اسلام اوراس کے منظم اور پرجوش کارکن ان کے ساتھ ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے پاس بھی کھونے کے لیے کچھ نہیں، ہا ں حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔


جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو اس کے پاس کھونے کے لیے بہت کچھ ہے، لیکن وہ اسٹبلشمنٹ کو ناراض کرکے کچھ حاصل نہیں کرسکتی۔ اس کی سندھ حکومت معطل ہونے سے بچ گئی؛ آصف زرداری کو فی الحال سزا اورجیل کی صعوبتوں کا سامنا کرنے کاکوئی شوق نہیں؛ اور پیپلز پارٹی یہ بھی جانتی ہے کہ اگر تازہ انتخابات ہوتے ہیں تو اسے صوبے میں پہلے سے کم نشستیں ملیں گی۔اس کی وجہ صوبے میں اس کی مخالف پارٹیوں کاا بھرنا ہے۔ یہ پی ڈی ایم میں ایک معتدل آواز بن کر رہنا پسند کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو صرف تحریک انصاف اور عمران خان کونشانہ بنا ئے ہوئے ہیں تاکہ وقت آنے پر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کرچلنا مشکل نہ ہو۔


اس دوران اسٹبلشمنٹ پی ڈی ایم کے مجوزہ لانگ مارچ یا اسمبلیوں سے استعفے دینے کی دھمکی کو زائل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس کی جارحانہ مشینری اگلے ماہ ہونے والے احتجاج کو دبانے کے لیے تیار ہے۔ اس نے تین اہداف حاصل کرنے کے لیے جہانگیر ترین کو بھی واپس میدان میں اتارا ہے: گنے کی کرشنگ شروع کرنے اور سٹاک کی ہوئی چینی کے ذخائر بازار میں لانے کے لیے تاکہ چینی کا موجودہ بحران ختم ہوسکے؛ پنجاب اور سندھ میں تحریک انصاف کے ناراض کارکنوں سے بات کرکے اُنہیں بحران کے وقت ساتھ دینے پر راضی کرنے کے لیے؛ اور اگر اسٹبلشمنٹ کو مرکز اور صوبے میں ان ہاؤس تبدیلی کرتے ہوئے تحریک انصاف کے علاوہ حکومت سازی کی ضرورت پیش آئے وہ ان ممبران کو ہاتھ میں رکھ سکیں، یاموجودہ سیاسی جمود ختم کرنے کے لیے تازہ انتخابات کراکر نیا اسٹبلشمنٹ نواز کولیشن بنایا جاسکے۔ جہانگیر ترین بہرحال انتہائی مفاد پرست سیاست دان ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ جب وہ واپس پاکستان آئے تو عمران خان کی جبین ہر گز شکن آلود نہیں ہوئی تھی۔


اس وقت معیشت لہولہان ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی سخت مشکل میں ہے۔ پرانے ساتھی ہمیں چھوڑ چکے ہیں جبکہ کوئی نئی ریاست ہمارے ساتھ ہاتھ تک ملانے کو تیار نہیں۔تحریک طالبان پاکستان اوربھارت مغرب اور مشرق سے ہمارا گلا دبوچنے کے لیے پنجے تیار کررہے ہیں۔ کوویڈ 19 پوری شدت سے واپس آچکا۔ عوام ناراض اور بے چین ہیں۔ عمران خان سے نجات حاصل کرنے کے لیے پی ڈی ایم نعرہ ئ مستانہ لگانے کے لیے تیار ہے۔ دسمبر اور جنوری سفاک ترین مہینے ہوسکتے ہیں۔


نواز شریف اور مولانافضل الرحمن کے پاس مل کر عمران خان کے قدموں تلے زمین سرکانے کی طاقت ہے لیکن کچھ عجب نہیں اگر آصف علی زرداری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرکے کوئی شعبدہ دکھادیں۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.