جج، قانون اور انصاف

جج، قانون اور انصاف

سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان، جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس مقبول باقرنے جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی پیروی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ، جس کی سربراہی جسٹس عطا بندیال کررہے تھے، کے اکثریتی فیصلے میں بہت جاندار اختلافی نوٹ لکھا ہے۔بنچ کے سامنے ساتھی جج سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس زیر سماعت تھا۔ اگرچہ اکثریتی فیصلے نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ”مس کنڈکٹ“ کا صدارتی ریفرنس ختم کردیا، لیکن اس نے بنیادی الزام کو برقرار رکھا جو کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثہ جات ظاہر نہ کرنے کے متعلق تھا۔ کہا گیا کہ اب اس الزام کو ایف بی آر دیکھے گا۔گویا بنیادی الزام کی تلوار ابھی بھی جسٹس صاحب کے سر پر لٹک رہی ہے۔۔ مذکورہ ریفرنس جسٹس صاحب کوعہدے سے ہٹانے کے متعلق تھا۔ اکثریتی فیصلے میں صدرِ مملکت عارف علوی صاحب، وزیرِ قانون فروغ نسیم، اٹارنی جنرل منصور خان اور اثاثہ جات کی ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کی فعالیت پر تنقید تو کی لیکن نہ تو وہ ریفرنس بھیجنے پر موردِ الزام ٹھہرائے گئے اور نہ ہی کوئی سزا تجویز کی۔ اب اختلافی آوازیں شدت سے ابھری ہیں۔


جسٹس مقبول باقر کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر الزامات ”مکمل طور پر بے بنیاد، کھوکھلے، غلط اورمن گھڑت تھے“.... صدارتی ریفرنس سے”ایگزیکٹو کے کچھ اہل کاروں کی مخاصمت اور دشمنی کا اظہار“ہوتا تھا۔ اُنہوں نے ”مدعی (قاضی فائز عیسیٰ)کو عہدے سے ہٹانے کے لیے سرکاری محکموں اور وسائل کوغیر آئینی اور غیر قانونی طور پر استعمال کیا کیوں کہ وہ ملک کوآمرانہ طریقے سے چلانے کے راستے میں ایک رکاوٹ تھے، نیز اس سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو بھی مرغوب کرنا مقصود تھا۔“جسٹس منصور علی شاہ نے لکھاکہ ”واضح دکھائی دیتا ہے کہ مدعی(قاضی فائز عیسی)کو جان بوجھ کر انتقام اور غصے کا نشانہ بنایا گیا۔“ یہ الزام ”مبہم اور من گھرٹ“ہے اور اس کے لیے شہادت بھی ”غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی تھی“۔ دونوں جج صاحبان نے صدر اور وزیر اعظم کو ”ربڑکی مہریں“قرار دیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے متعلقہ حکام کو چیئرمین، قانونی ماہرین اور اثاثہ جات کی ریکوری،نادرا اور ایف بی آر کے قصور وار افسران کے خلاف ”آئی ایف ٹی اے، آئی ٹی او اور نادرا آرڈیننس 2000“کے تحت تادیبی کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔


یہ عدلیہ کی تاریخ کا ایک نادر واقعہ ہے کہ صدر، وزیر اعظم اور ریاستی اداروں کے سربراہان کی سخت سرزنش کی گئی ہو۔ لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ وہ تادیبی کاررواائی سے بچ جائیں گے۔ اب دیکھا جانا باقی ہے کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل نہ صرف ایک ساتھی جج بلکہ تمام نظام انصاف، جس کی یہ نمائندگی کرتی ہے، کی ساکھ اور عزت بچانے کا حوصلہ دکھاتی ہے یا نہیں۔


بات صرف یہیں تک ہی محدود نہیں۔ سپریم کورٹ ایک سامنے ایک خوفناک طوفان بھی نمودار ہونے والا ہے۔ اگلے دو ماہ کے دوران حکومت اور اسٹبلشمنٹ اور پاکستان ڈیمو کریٹ موومنٹ کے درمیان آخری معرکہ لڑا جانے والا ہے۔ پی ڈی ایم بہت مہارت سے عوامی احتجاج کو مہمیز دے کر اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے کے لیے لانگ مارچ کرنے جارہی ہے۔ دوسری طرف حکومت اور اسٹبلشمنٹ ہر ممکن طریقے سے پی ٹی ایم کو سبق سکھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ غیر ارادی طور پر یا طے شدہ منصوبے کے مطابق تشدد خارج ازامکان نہیں۔ اس دوران مقدمات بھی تھوک کے حساب سے درج کیے جائیں گے۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہوگی اگر پی ڈی ایم سینٹ اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات ملتو ی ہوجائیں گے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سینکڑوں نشستوں پر ضمنی انتخابات کرانے پڑیں گے۔ غیر فعال پارلیمنٹ سے پیدا ہونے والے آئینی مسائل کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔


آنے والے مہینوں میں بار کا کردار بھی اہمیت اختیا رکرجائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تک بار پوری استقامت سے قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑا رہا۔ اب لطیف آفریدی اور احمد شہزاد رانا جیسے آزاداور کھری سوچ رکھنے والے وکلا کے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں کامیابی سے بار مزید مثبت اور فعال کردار ادا کرے گا۔ نئے منتخب شدہ صدر اور سیکرٹری جمہوریت اور آئین اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھنے والے افراد ہیں۔ چنانچہ وہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں نہیں ملائیں گے۔


قانون اور انصاف کے سامنے ایک اور انتہائی اہمیت کا حامل کا کیس آنے والا ہے۔ یہ ایونفیلڈ کیس میں نواز شریف کی بریت اور العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں سزا کا معاملہ ہے جو سپریم کورٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان دونوں مقدمات میں فیصلہ سنانے والے احتساب عدالت کے جج، ارشد ملک ویڈیو سکینڈل کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ اگر سزا معطل ہوجاتی ہے تو پی ڈی ایم کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ اگر ارشد ملک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے نوا زشریف حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں سیاسی انتقام کے جواز پر سیاسی پناہ کی درخواست دیتے ہیں تو حکومت کے لیے نواز شریف کو وطن واپس لانا آسان نہ ہوگا۔ درحقیقت اگر کوئی برطانوی جج ارشد ملک اور بعد میں ہائی کورٹ کے فیصلوں میں انصاف کا خون تلاش کرلے تو اس سے پاکستان کی ساکھ بری طرح مجروع ہوگی۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ابھی ایک اور ویڈیو بھی سامنے لائی جانی ہے جس کا پاکستان میں انصاف اور قانون اور ججوں کے کردار کے بارے میں انتہائی منفی تاثر جائے گا۔چیئرمین نیب، جو ریٹائرڈ سپریم کورٹ جج ہیں، پہلے ہی تنقید کی زد میں ہیں۔


جب جج حضرات سفاک سیاست کے لیے قانون کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں تو وہ ملک و قوم کے اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچاتے ہیں، اور یہ اعتماد ہی ہے جس پر ایک جدید ریاست کی بنیاد استوار ہے۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.