منظور نظر اور معتوب

منظور نظر اور معتوب

گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے ہونے کے تینوں جلسے بہت کامیاب رہے۔ ان میں عوام کی ایک کثیر تعداد شریک ہوئی۔ مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوں نے شرکت کی۔ مرکزی نعرے ”ووٹ کو عزت دو“ میں کوئی دراڑ نہ پڑی۔ مطالبہ صرف فوری منصفانہ اور شفاف انتخابات کا ہی نہیں بلکہ اس بات کی بھی ضمانت کا ہے کہ اسٹبلشمنٹ گورننس میں مداخلت کا سلسلہ بند کرے۔ گورننس کا حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہو۔


یہ ایک معقول مطالبہ ہے۔ اسٹبلشمنٹ نے بار ہا انتخابات چرائے ہیں؛ اپنے من پسند سیاست دانوں کو اقتدار میں لانے یا اقتدار سے بے دخل کرنے کا کھیل جاری رکھا ہے۔ کچھ سیاست دان، جماعتیں اور حکومتیں ان کی منظورِ نظر ہوتی ہیں،کچھ دیگر کے ساتھ معاملہ اس کے برعکس ہوتاہے۔ یہ سلسلہ تادیر جارہا۔ خرابی تب واقع ہوئی جب اسٹبلشمنٹ اپنے چہیتوں کے خلاف ہوگئی کیوں کہ اُنہوں نے کسی نہ کسی ایشو پر اسٹبلشمنٹ کا موقف اپنانے سے انکار کردیا تھا۔


اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منظورِنظر افراد ناپسندیدہ، اور ناپسندیدہ منظور ِنظر ہوجاتے ہیں، جیسا کہ پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام۔ اس قبیل کی تازہ ترین چال <2018 ء کے انتخابات چرا کرعمران خان کو اقتدار میں لانا تھا۔ لیکن چہیتے کی ناقص پالیسیاں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ ملک کوہونے والے نقصان کا الزام اسٹبلشمنٹ پر آرہا ہے۔ عمران خان جتنا ناکام ہوتے جائیں گے؛ اسٹبلشمنٹ پر الزامات کی بوچھاڑ اتنی ہی شدید ہوتی جائے گی۔


معیشت پر توجہ دینے اور اسے درست کرنے کی بجائے عمران خان حزب مخالف کا جتنا زیادہ تعاقب کریں گے؛ اپوزیشن اپنی توپوں کا رخ اتنا ہی اسٹبلشمنٹ کی طرف کرے گی۔ بدقسمتی سے اسٹبلشمنٹ کے ذاتی عزائم نے اس قومی ادارے کا تشخص بری طرح مجروع کیا ہے۔ اور اب تو بات بہت آگے تک چلی گئی ہے۔


کبھی اسٹبلشمنٹ کے منظورِ نظر نواز شریف آج کے معتوب ٹھہرے۔اُنہوں نے اسٹبلشمنٹ کے باس، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پرالزام لگایا ہے کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔ اس طرح سابق وزیر اعظم نے وہ بات کردی ہے جو زیادہ تر پاکستانیوں کے دل میں تھی۔ایک ملک جہاں اسٹبلشمنٹ متعدد بار اقتدار پر قبضہ کرچکی ہولیکن اس پر تنقید کہیں مستقبل میں کی جاسکتی ہو؛ اور جہاں عدالتیں مارشل لا ختم ہونے کے عشروں بعد اسے غیر آئینی قرار دینے کی جرات کرسکیں؛ اور جہاں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے اور انتخابات میں دھاندلی کرنے والے جنرلوں کو کبھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہ کیا جاسکے وہاں حاضر سروس جنرلوں کی طرف انگشت نمائی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ لیکن نواز شریف نے پہلا پتھر کیا پھینکا، اب یہ ہر خاص و عام یہی بات کررہا ہے۔


کچھ ناقدین وضاحت کرتے ہیں کہ نواز شریف کی شعلہ بیانی دراصل ”خود کش حملہ“ہے، اور اس کے پیچھے ان کی تین حکومتوں کا مدت ختم ہونے سے پہلے خاتمہ ہے (2017, 1999, 1993)، اور اس کے پیچھے اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔ کچھ دیگر کا اصرار ہے کہ  اسٹبلشمنٹ کے کچھ ناراض عناصر نے اُنہیں جارحانہ انداز اپنانے کی شہ دی ہے۔ ان عناصر کے مفادات کو زک پہنچی تھی۔ مدت ِ ملازمت میں ایک توسیع دیگر افسران کو اسٹبلشمنٹ میں سب سے اہم اور پرکشش عہدے کے امکان سے محروم کرچکی ہے۔ ایسی ہی ایک متوقع تقرری آنے والے برسوں میں درجنوں دیگر افسران کونقصان پہنچا دے گی۔ اور پھر ہر وزیرِاعظم اور حاضر سروس جنرل کے دائیں بائیں ایسے خوشامدی ابن الوقت ہوتے ہیں جو مخالفین کو ”بھارتی ایجنٹ“، ”غیر ملکی ایجنٹ“ قرار دے کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔


نواز شریف کی شعلہ بیانی کے پیچھے جو بھی مقصد ہو، اب مستقبل کی پرچھائیاں گہری اور مہیب ہوتی جارہی ہیں۔ ماضی میں ہدف صرف ایک تھا؛ اب تین ہیں۔ ماضی میں حز ب مخالف کی حکمت عملی دو پر دباؤ ڈال کر ایک کو رخصت کرنا تھی۔ کسی کو پتہ نہیں کہ تینوں ایک ساتھ کیسے جائیں گے۔ نہ ہی یہ بات واضح ہے کہ اگر حالات مزید سنگین ہوئے تو کیااسٹبلشمنٹ، جو ملک کا سب سے طاقت ور سیاسی کھلاڑی ہے، ہار مان کر پیچھے ہٹ جائے گی؟


اگلے تین ماہ میں اقتدار کی جنگ میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئیں گے۔ اسٹبلشمنٹ کے لیڈر اس صورت ِحال کو ترغیب، وعدوں، دھمکیوں اور گرفتاریوں سے ٹالنے کی کوشش کریں گے۔ پی ڈی ایم کی سب سے کمزور کڑی پیپلز پارٹی ہے۔ اگر موجودہ دباؤ ناکام ہوگیا تو اسے اپنی صوبائی حکومت سے ہاتھ دھونے پڑسکتے ہیں۔ لیکن جب تک مسلم لیگ ن نواز شریف کی قیادت تلے متحد رہے، اور جمعیت علمائے اسلام پیش کش کو ٹھکرانے کا حوصلہ رکھے(جو اس نے فی الحال کر دکھایا ہے)، ایک ہنگامہ خیز مستقبل ہمارے سامنے ہے۔


اگر بات لانگ مارچ تک چلی جاتی ہے اور اسلام آباد کا گھیراؤ ہوتا ہے تو تشدد لازمی ہوگاجس کے نامعلوم نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کا کارڈ موجود ہے۔ اس صورت میں ملک سے پارلیمنٹ ختم ہوجائے گی۔ سینٹ، جہاں حزب اختلاف کو اکثریت حاصل ہے، میں کورم پورا نہ ہونے سے سینٹ معطل ہوجائے گا، جبکہ سینٹ میں دوبارہ انتخابات کے لیے صوبائی اسمبلیوں کا روسٹر مکمل ہونا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کو سیاسی دلدل میں کھینچ لانے سے بحران مزید گہرا ہوجائے گا، یا اس کے حل کا راستہ مسدود ہوجائے گا۔ اگر نومبر میں گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں بھی دھاندلی ہوئی تو پی ڈی ایم کے احتجاج میں مزید شدت آجائے گی۔


بڑھتا ہوا سیاسی بحران ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے جسے تحریک انصاف کی حکومت کی ناقص پالیسیوں نے پہلے ہی شدید نڈھال کردیا ہے۔ کوویڈ 19 کے منفی نتائج اس کے سوا ہیں۔ ان دونوں میں سے کسی میں بہتری دکھائی نہیں دیتی۔ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر حالات نازک ہیں۔ دھرنے، ہڑتال، لانگ مارچ، دھشت گردی اور غیر ملکی مداخلت صورت ِحال کو مزید بگاڑ دے گی۔ اسٹبلشمنٹ جتنی جلدی اپوزیشن کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کرلے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ جلد ہی ہم سب منظورِنظر بن سکتے ہیں۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.