سیاسی معیشت مشکلات کے گرداب میں

سیاسی معیشت مشکلات کے گرداب میں

اخبارات کے صفحہ اوّل کا ایک سرسری سا جائزہ سیاسی اور معاشی مشکلات کی پریشان کن کہانی سناتا ہے۔
وفاقی کابینہ کی اکنامک کوارڈی نیشن کمیٹی نے اگلی فصل کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کرنے کا فیصلہ التوا میں ڈال دیا۔ ایسا کرنے سے ملک میں خوراک کی قیمت میں اضافہ ہوجاتاجبکہ قیمتیں کم کرنا ممکنہ طور پر ایجنڈے پر سرفہرست ہوگا۔ اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ اتنا پریشان کن ہے کہ بے تابی کے عالم میں عمران خان اپنی تتر بتر، خستہ حال ٹائیگر فورس کو مہنگائی پر قابو پانے کے لیے میدان میں آنے کی ہدایت کررہے ہیں۔ معاشی مشکلات کا ایک مظاہرہ تو ڈی چوک اسلام آباد میں دیکھنے میں آرہا ہے جہاں نچلے سکیل کے ہزاروں سرکاری ملازمین اور ہیلتھ ورکرز اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے اور مہنگائی کے خلاف دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ کچھ ہی دیر کی بات ہے جب دیگر شعبوں کے افراد بھی ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع کردیں گے۔ بدقسمتی سے آنے والے مہینوں میں مشکلات میں اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔


روا ں برس آئی ایم ایف نے حکومت کو ایک پائی تک نہیں دی کیونکہ چھے ارب ڈالر پیکج کی تیسری قسط کے لیے کچھ بنیادی شرائط درکار تھیں جو پوری نہیں کی جاسکیں۔اکیس جنوری بھی سر پر ہے۔ اگر حکومت نے گیس، پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں خاطر خواہ اضافہ نہ کیا؛ اگر اس نے محصولات کی شرح میں اضافہ نہ کیا؛ زیر گردشی قرضوں میں کمی نہ لا سکی تو آئی ایم ایف پاکستان سے نکل جائے گا۔ ا س سے پہلے گزشتہ بیس برسوں میں ایک کے سوا تمام مواقع پر اس نے یہی کیا تھا۔ لیکن اگر آئی ایم ایف کا پیکج برقرار رہتا ہے تو عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا تعاون بھی میسر آئے گا۔ درحقیقت عالمی مارکیٹ سے زرِمبادلہ اکٹھا کرنے کے لیے حکومت کے جاری کردہ یورو اور سکوک بانڈ بھی روکنے پڑیں گے۔ اس سے ملک کے گرتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر پرشدید دباؤ آئے گا اور روپے کی قدر مزید کم ہوجائے گی۔ جی ڈی پی کی شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم ہونے کی وجہ سے بے روزگارافراد کی تعداد میں تین کروڑ افراد کا اضافہ ہوچکا ہوگا۔ اس پر قہر کی مہنگائی ہے۔ یہ سب عوامل حکومت کا اس طرح گھیراؤ کریں گے جس کی کوئی مثال دیکھنے کو نہیں ملتی۔


ملک کی داخلی صورت ِحال پہلے ہی کیا کم پریشان کن تھی کہ اب بیرونی دباؤ میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان،بلوچ شور ش پسندی، شیعہ سنی مسلکی کشمکش اور ہائبرڈ وار فیئر کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ نیز سرحدی جھڑپوں میں پاکستانی فوجی ہر روز شہید ہورہے ہیں۔ امدادی رقوم اور تیل فراہم کرنے والے دوست، سعودی عرب اور او آئی سی کے دیگر ممالک سے بھی تعلقات انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ امریکا اور مغربی دنیا جن کے ساتھ پاکستان کی تجارت اور امداد منسلک رہی ہے، اب وہ پاکستان سے نالاں ہیں۔ اس کی وجہ پاک چین روابط میں اضافہ ہے جبکہ مغربی دنیا چین کے خلاف صف آرا ہے۔


بحران کی شدت میں ہونے والے اضافے کو دیکھ کر متحدہ حزب اختلاف نے موقعے سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ سب اسلام آباد، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومتوں کو چلتاکرنے کے لیے کمر بستہ ہوچکے ہیں۔اسٹبلشمنٹ کی طرف مبینہ جھکاؤ رکھنے والے سیاست دانوں، جیسا کہ شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی ناکامی کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کی قیادت اسٹبلشمنٹ مخالف سیاست دانوں، نوا زشریف اور مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کے ہاتھ مشتعل عوام کی نبضوں پر ہیں۔اسٹبلشمنٹ کو مجبور کرنے کے لیے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو سہارا دینا بند کردے اوراسے اس کے حال پر چھوڑ دے،  پی ڈی ایم نے چار ماہ پر محیط پروگرام کا اعلا ن کردیا ہے۔


اس حکمت عملی کے تحت ملک کے طو ل وعرض میں اگلے دو ماہ تک بڑے بڑے جلسے ہوں گے۔ اس کے بعد دسمبر سے گلیوں اور سڑکوں پر جلوس نکلنا شروع ہوجائیں گے جن کا نقطہ عروج اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور ڈی چوک میں دھرنا اور ممکنہ طور پر پارلیمنٹ کا گھیراؤ ہوگا۔ آخر میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دیے جائیں گے جس سے آئینی جمود پیدا ہوجائے گا۔ خطرناک بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں ہے جن کے بے خوف اور مذہبی جوش سے سرشار لاکھوں کارکن ہیں۔ اگر طاقت کا استعمال کیا گیا تو ریاستی مشینری کے لیے اُنہیں ڈرا کے بھگانا ممکن نہ ہوگا۔


بظاہر بھڑیکیں مارنے کے باوجود حکومت کا دم نکلا جارہا ہے۔ وہ حوصلہ ہاری ہوئی سول انتظامیہ اور بدل پولیس کو استعمال کرکے پی ڈی ایم کو روکنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے لیے وہ کئی ایک حربے اختیار کرسکتی ہے جیسا کہ ٹریفک روکنا، اہم راہ نماؤں کو گرفتاری اور مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے واٹر گن اور آنسو گیس استعمال۔ لیکن ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال تشدد کو ہوا دے سکتا ہے جس کے ناقابلِ تصور نتائج بھی نکل سکتے ہیں، جیسا کہ گلیوں میں حکومت مخالف جذبات کا پرتشدد اظہار۔ کسی مرحلے پر اسٹبلشمنٹ بھی مداخلت کرنے پر مجبور ہوسکتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر یا تو حکومت کو سہارا دے یا اسے گھر بھیجے۔ اگر وہ سہارا دیتی ہے تو اس کی ساکھ مزید مجروع ہوگی؛ اگر دوسرا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اسے مخالف سیاسی راہ نماؤں کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے اُنہیں سیاسی جگہ دینی پڑے گی۔


حزب مخالف کو بالکل دیوار کے ساتھ لگانے اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی عمران خان کی پالیسی کا کئی محاذوں پر سخت ردعمل آیا۔ سب سے پہلے تو حکومت کی توجہ معیشت کو مستحکم کرنے سے بھٹک کر حزب مخالف کو تباہ کرنے میں لگی رہی۔ دوسرا، اس نے قوم کواندرونی اور بیرونی وجوہ کی بنا کر اس وقت تقسیم کردیا جب اسے متحد رہنے کی شدید ضرورت تھی۔ تیسرا یہ کہ اس نے اسٹبلشمنٹ کی ساکھ رائے دہندگان کی اکثریت کی نگاہ میں گرا دی ہے۔ مقدس گائے کا لبادہ بھی اترنا شروع ہوگیا ہے۔ اس وقت گٹھ جوڑ میں شریک تمام دھڑے، جیسا کہ نیب، عدلیہ، سرکاری کنٹرول میں میڈیا اور دیگر ریاستی ادارے، کوئی بھی گہرے ہوتے ہوئے طوفان کو نہیں روک سکتا۔


پاکستانی سیاسی معیشت کو جتنی جلدی معقول فضا میں سانس لینے دیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.