سچ سامنے آنا چاہیے

سچ سامنے آنا چاہیے

عوام دو حالیہ معاملات پر مشتعل ہیں۔ پہلا کراچی کے نہ ختم ہونے والے مصائب کا سلسلہ، اور اس دوران مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومت کی شہریوں کی تکالیف کا ازالہ کرنے میں ناکامی ہے۔ دوسرا، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ، پاک چین اقتصادی راہداری کے سربراہ، سابق کمانڈر سدرن کمان اور ڈی جی آئی ایس پی آر، پر لگنے والے الزامات ہیں۔ تاثر ہے کہ اُنھوں نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے اثاثہ جات درست ظاہر نہیں کیے تھے۔


کراچی کو نظر انداز کرنے کا معاملہ کئی عشروں پر محیط ہے۔ اس کی ذمہ داری بہت سوں پر عائد ہوتی ہے۔ سب سے پہلے تو تین فوجی آمروں پر جنہوں نے پاکستان پر تیس سال حکومت کی؛ اُن کا کوئی احتساب نہ ہوا؛ اور اُنھوں نے کراچی کی معاشی اہمیت اور اس کے حجم کی مناسبت سے اس میں میٹروپولٹن انفراسٹرکچر تعمیر نہ کیا۔ایم کیو ایم پر، جس نے کراچی کو دہشت زدہ کرکے اس پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ پھر اس نے ایک فوجی آمر کی آشیر باد سے اس شہر کو وسائل اور حقوق سے محروم رکھا۔ تیسری پاکستان پیپلز پارٹی پر، جس نے سندھ پر کم و بیش دو عشرے حکومت کی لیکن کراچی کے لیے کچھ نہ کیا۔


کراچی کے شہریوں نے بھی اپنا بھلا نہ کیا۔ اُنھوں نے باری باری مذہبی جماعتوں (جے یو آئی، جے یو پی، جماعتِ اسلامی) کو ووٹ دیا لیکن یہ جماعتیں کبھی اقتدار میں نہ آسکیں، یا ایم کیوایم کو سیاسی حمایت دی جس نے ان کے مسائل میں اضافہ کریا۔ ایسا کرتے ہوئے کراچی کے شہری پیپلز پارٹی سے دور ہوتے گئے۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپنی توجہ سندھ کے دیہی علاقوں پر مرکوز رکھی تاکہ اُنہیں اقتدار میں آنے کے لیے سندھی ووٹ ملتا رہے۔


نیت اچھی ہو تو بھی ان مسائل کا حل اب آسان نہیں۔ درحقیقت پیپلز پارٹی کوتحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کی مخاصمت کا سامنا ہے۔ وفاق کی طرف سے کی گئی ایسی سیاسی مداخلت(چاہے وہ اسٹبلشمنٹ کرے یا عدلیہ) جو پیپلز پارٹی سے صوبائی اتھارٹی چھین لے، صوبے میں نسل پرستی کی آگ بڑھکا دے گی۔ موجودہ صورتِ حال میں مستحن حل تو بہتر مقامی حکومت کا قیام ہوسکتا ہے لیکن پیپلز پارٹی دوجوہات کی بنا پر مقامی حکومت کو مالی اور سیاسی اختیار دینے کے حق میں نہیں۔ پہلی وجہ یہ یہ کہ وفاقی حکومت پہلے ہی این ایف سی ایوارڈ میں نقب لگانے کی کوشش میں ہے، چنانچہ سندھ حکومت کے پاس رقم کی کمی ہے۔ دوسری یہ کہ پیپلز پارٹی اگلے انتخابات کے لیے اپنے سندھی ووٹ کو مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے۔ اگر 2018 ء کے انتخابی نتائج سے مستقبل کی سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو لگتا یہی ہے کہ کراچی کا سیاسی جھکاؤ بتدریج تحریک انصاف کی طرف ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا مقامی حکومتوں کے لیے قانون کراچی کی خواہشات کے برعکس ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی کے افسوس ناک حالات اُس وقت تک نہیں بدلیں گے جب تک اس کے شہری کسی ایسی جماعت کو ووٹ نہیں دیتے جو بیک وقت سندھ اور وفاق میں کامیاب ہو۔ اور اس کے امکانات فی الحال روشن نہیں ہیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کی سندھ کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں بھی حکومت تھی۔ اسے ناراضی تھی کہ اہلیانِ کراچی بدستور اس کے مخالفین کو ووٹ دیتے ہیں۔


بہتر مقامی حکومت کا تصور مبہم اور پریشان کن ہے۔ ایک فوجی حکومت، چاہے وہ جنرل ضیا الحق کی ہو یا جنرل پرویز مشرف کی، کے تجویز اور قائم کردہ مقامی حکومت کے نظام سے بہتر کا تصور محال ہے۔ لیکن ٹھیک اُسی دور میں اسٹبلشمنٹ کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی منفی سیاست نے کراچی کے سول ڈھانچے اور معاشی وسائل کو تباہ کردیا۔ خدشہ ہے کہ مستقبل کے ”حل“بھی اس سے مختلف نتائج کے حامل نہیں ہوں گے تاوقتیکہ اسٹبلشمنٹ کی پالیسیاں اور ترجیحات میں انقلابی تبدیلی آجائے۔


کراچی کی وسیع آبادی اور اہمیت کومدِ نظر رکھتے ہوئے مالیاتی اور سیاسی خودمختاری دینے کے لیے درکار آئینی ترمیم پر غور کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس مقصد کے لیے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن میں قومی اتفاق رائے کا ہونا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ مل کر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ چنانچہ یہ اتفاق رائے خارج ازامکان ہے۔ اسے طاقت کے استعمال سے نافذ کرنے کی کوئی بھی کوشش تباہ کن ثابت ہوگی۔


جنرل(ر) عاصم باجوہ کا ایشو دووجوہات کی بنا پر سلگ رہا ہے۔ پہلی یہ کہ اسٹبلشمنٹ میں کسی احتسابی عمل کے نہ ہونے سے عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اسمبلی میں واضح موجودگی اور بہت زیادہ عوامی ووٹ رکھنے والی مرکزی دھارے کی دونوں جماعتوں کو اس کے کٹھ پتلی حکمران احتساب کے نام پر دیوار کے ساتھ لگا رہے ہیں۔ چنانچہ اسٹبلشمنٹ کے ترجمان کے خلاف غصے کا اظہار فطری بات ہے کیونکہ وہ اب عوام کے نشانہ پر ہے۔ دوسری یہ کہ بطور ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل (ر) باجوہ پاکستان مسلم لیگ ن کے حامیوں کی آنکھوں کھٹکتے تھے۔اس کی وجہ اُن ”تھینک یو راحیل شریف“ کی پراپیگنڈا مہم تھی جو آخرکار تحریک انصاف کے ساتھ مل کر سازش کی شکل میں ڈھلی اور اس نے نوازشریف کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے طور پر اپنے اثاثوں پر اٹھنے والے سوالات کے واضح جواب نہ دے کر جنرل (ر) باجوہ نے خود کو مشکل میں پھنسا لیا ہے۔ قوم کو یاد ہے کہ اُن کے سیاسی اور غیر سیاسی حامیوں نے ایک منتخب شدہ اور مقبول وزیر اعظم اور سپریم کورٹ کے ایک قابل احترام جج کو اسی بات پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ چنانچہ جو چیز ایک کے غلط ہے، وہ دوسرے کے لیے درست کس طرح ہوسکتی ہے؟


جنرل (ر) عاصم باجوہ کا پروردہ ٹوئیٹر کا لاؤ لشکر اور صحافیوں کی فوج ظفر موج اُن کے ناقدین کو ”غدار“ اور ”بھارتی ایجنٹ“ کہہ رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ناقدین دراصل سی پیک جیسے قومی اثاثے کو ٹارگٹ کررہے ہیں۔ یہ احمقانہ بات ہے۔ جس وزیر اعظم نے سی پیک کا آغاز کیا تھا، اس پر بھی بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔


جنرل (ر) عاصم باجوہ نے بالآخر الزامات کا جواب دے دیا ہے۔ مرکزی دھارے کا میڈیا جواس سے پہلے اس کہانی پر لب کشائی سے ڈر رہا تھا، اب سوال اٹھانا شروع کرے گا۔ امید کی جانی چاہیے کہ سیاست دانوں، ججوں اور جنرلوں کے لیے انصاف کا ایک ہی پیمانہ ہوگا۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.