پریشان کن موسم سرما

پریشان کن موسم سرما

وزیرِ اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس سرکاری دفاتر، مارکیٹوں، تعلیمی اداروں، تفریح گاہوں، پولیس تھانوں، عدالتوں، ہسپتالوں، پٹوار خانوں اور بجلی چوروں پر نظر رکھے۔ اُنھوں نے اپنے معاون خصوصی عثمان ڈار کو ہدایت کی ہے کہ وہ ٹائیگروں کو اس مقصد کے لیے نگرانی کے آلات سے لیس کرکے میدان میں اتاریں۔ تعلیمی اداروں میں ٹائیگر فورس رکنیت کی بھرپور مہم شروع کرنے کا بھی منصوبہ بھی زیرِغور ہے۔ اس کا بظاہر مقصد مقامی حکومتوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہے۔ لیکن کیا یہ منصوبہ کامیاب ہوگا؟


یادر ہے کہ چند ماہ پہلے جب ملک بھر میں کوویڈ 19 پھیلاہوا تھا، عمران خان نے ٹائیگرفورس پر زور دیا کہ وہ لاک ڈاؤن اورقرنطینہ میں مقامی انتظامیہ کا ہاتھ بٹائیں ۔ لیکن مقامی انتظامیہ، پولیس افسران اور سیاست دانوں نے عملی طور پر غیر تربیت یافتہ اور لاعلم اور سیاسی طور پر جارحانہ مزاج ٹائیگروں کو اپنے اپنے شعبوں میں مداخلت کرنے سے روک دیا کیونکہ ٹائیگرفورس کو مداخلت کرنے کا قانونی اختیار حاصل نہیں ۔ درحقیقت تحریک انصاف کے ٹائیگر ز کا خود عقل کل سمجھنا اورجارحانہ انداز میں مداخلت کرنا نہ صرف سرکاری کام میں رکاوٹ اور تنازع کا باعث بنا بلکہ عوام بھی اُن سے ناراض ہوئے۔


اس کی ایک وجہ بے روزگار نوجوانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ معاشی شرح نمو منفی ہے جس کی فوری بحالی کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ اس وقت کم از کم پچیس ملین بیروزگار نوجوان مایوس، پریشان، ناراض اور مشتعل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا رویہ جارحانہ ہے۔ اُن میں سے کچھ جرائم کی طرف بھی مائل ہوسکتے ہیں۔


چونکہ عمران خان اُنہیں وعدے کے مطابق روزگار فراہم نہیں کرسکتے تو اُن کا خیال ہوگا کہ شاید اس پروگرام کے ذریعے وہ اُنہیں ایک ”قومی مقصد“میں مصروف کرلیں گے۔ اس طرح وہ نوجوان غیر قانونی سرگرمیوں اور سیاسی احتجاج کی راہ نہیں اپنائیں گے۔ ایک اور وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عمران خان اپنی جماعت کی سٹریٹ پاور مضبوط کرنے کا ارداہ رکھتے ہیں تاکہ جب حزبِ اختلاف میں شامل جماعتیں اُنہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے احتجاجی تحریک چلائیں تو یہ نوجوان اُن کے دست و بازو بنیں۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں رفتہ رفتہ الائنس سازی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی لاتے ہوئے عمران خان سے نجات حاصل کرنے؛ اپنے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائیاں ختم کرانے اور اتفاق رائے سے کسی قسم کی حکومت بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ ریاست کے معاملات کو بہتر انداز میں چلایا جاسکے یہاں تک کہ ملک میں نئے انتخابات ہوں۔


ایف اے ٹی ایف کی ضرورت کی آڑ میں منی لانڈرنگ قانون مسلط کرنے کے پیچھے تحریک انصاف کی حکومت کی یہی سوچ ہوسکتی ہے۔ اس کوشش کو حزب اختلاف نے سینٹ میں روک دیا۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے حکومت پر برے ارادے سے قانون سازی کا الزام لگایا۔ اُنھوں نے شہریوں کو گرفتار کرنے اور بدعنوانی کے الزام میں تعاون کرنے سے قاصر عام شہریوں، کاروباری افراد اور تنظیموں کے خلاف جارحانہ اقدامات کے لیے اداروں کو دیے گئے اختیارات پر سوال اٹھایا۔ اُنھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ”یہ قانون پاکستان کو مخبروں اور جاسوں کی قوم بنانے کی ایک کوشش ہے۔“اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ قانون منظور ہوگیا تو یہ اپوزیشن کی حمایت کرنے والے کاروباری افراد اور سول سوسائٹی کو نشانہ بنائے گا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایف اے ٹی ایف دھشت گردی کی مالی اعانت کی نگرانی کرنے اور اسے روکنے کے بارے میں ہے۔ اس کا مقصد ایسے قوانین بنوانا نہیں ہے جو عام کاروباری افراد پر نظر رکھیں کیونکہ اس مقصد کے لیے دیگر قوانین موجود ہیں۔


مختلف ریاستی اداروں اور عدالتوں کو استعمال کرکے مخالف سیاست دانوں کو ڈرانے دھمکانے کے حکومت کے سیاسی عزائم پہلے ہی بے نقاب ہوچکے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مقدمے میں نواز شریف کو مفرور قرار دینایا اُن کی طبی رپورٹ کا انکار کرنا، حالانکہ پہلے اُنہیں ایک اور کیس میں حکومتِ  پنجاب نے منظور کرلیا تھا، یا برطانوی حکومت پر زور دینا کہ وہ نواز شریف کو پاکستان بھجوائے، سے ایسے ہی ارادے آشکار ہوتے ہیں۔نیب کی طرف سے مریم نوازشریف کو بھجوائے گئے تازہ سمن اور باپ بیٹی کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں نئے کیسز میں طلبی سے ایسے ہی ہتھکنڈوں کا پتہ چلتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو نے حکومت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ وہ اگلے ماہ کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے خائف دکھائی دیتی ہے۔


یہ وہ حکومت ہے جسے طاقت ور اسٹبلشمنٹ نے سلیکٹ کیا اور سہارا دے کر اقتدار میں پہنچایاتھا۔اسے تو خود کو انتہائی محفوظ سمجھنا چاہیے۔ حیرت ہے کہ عدم تحفظ کا احساس اور سازش کی تھیوریاں اس بری طرح اس کے ذہن پر سوار ہیں کہ یہ گڈ گورننس اور پبلک سروس کی تمام ذمہ داریوں کوپس پشت ڈال کر صرف حزب اختلاف کے سیاست دانوں کا تعاقب کررہی ہے۔ جیسا کہ ملک کے ممتاز قانونی ماہر اعتزاز احسن نے نشاندہی کی، تحریک انصاف کے کچھ وزر ا اس حد تک اتر آئے ہیں کہ وہ نوا زشریف کو گالیاں اور ذاتی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے برطانوی عدالتیں اور حکام نواز شریف کو کبھی بھی پاکستان کے حوالے نہیں کریں گے۔


پریشان کن موسم سرما آرہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو نئے سال تک حکومت کے معاملات درست کرنے کا وقت دیا تھا۔ حکومت کی مسلسل ناکامی نے معیشت اور سیاست، دونوں کا جنازہ نکال دیا ہے۔ چنانچہ اسٹبلشمنٹ اس کی وجہ سے مسلسل بدنامی برداشت نہیں کرسکتی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ وقت کم رہ گیا ہے،اپوزیشن اور حکومت دونوں آنے والے معرکے کے لیے اپنے اپنے گھوڑے تیار کررہی ہیں۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.