معجزوں کا انتظار

معجزوں کا انتظار

وزیرِ اعظم عمران خان نے تحریک انصاف کی حکومت کی کامیابیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک نجی ٹی وی چینل کو طویل انٹرویو دیا۔ دیکھنے میں آیا کہ میزبان ”انشااللہ، انشااللہ، اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہوگا“ جیسے دعائیہ کلمات ادا کرتے رہے۔ درحقیقت اس بیان کی تمہید ہی وہ غنچہ ئ ناشگفتہ ہے جس پر کل بہار کا دارومدار تھا:  وزیرِاعظم صاحب کہتے رہتے ہیں کہ وہ بہت کچھ کرنے اور فلاں مسائل حل کرنے کے  ٹھوس منصوبے کے ساتھ آئے ہیں۔ دو سال گزر گئے ہیں لیکن قوم کی دعائیں ہنوز پوری نہیں ہوئیں۔


عمران خان نے انٹرویو کا آغاز اپنی صلاحیتوں پر بے پناہ اعتماد کے اظہار سے کیا ۔ کہا کہ اُن کی بے پایاں صلاحیتوں نے اُنہیں طویل عرصے تک مشکل حالات کا مقابلہ کرنے اوربالآخر اقتدار میں آنے میں مدد دی۔ اُنہیں یقین ہے کہ اُن کا اقتدار قائم رہے گا ۔ جب وہ گیارہ سال کے تھے تو اُنہیں یقین تھا کہ وہ ایک دن کرکٹ کے میدان میں اپنی صلاحیتوں لوہا منوائیں گے؛ وہ جانتے تھے کہ کینسر ہسپتال بنائیں گے؛ طویل سیاسی جدوجہد رنگ لائے گی اور وہ کسی کی معاونت اور دست گیری کے بغیر وزیرِاعظم بن جائیں گے۔


خیر آخری دعویٰ قدرے مشکوک ہے کیونکہ اگر 2012ء میں ”معاون فرشتے“ عمران خان کو نواز شریف کے خلاف اپنا افتتاحی بالر اور بلے باز نہ چنتے؛  2014 ء کے دھرنوں سے شروع ہونے والے میچ میں اُنہیں نواز شریف کے خلاف میدان میں نہ اتارتے؛ 2018 ء کے انتخابات کے دوران نتائج کی ترسیل کے نظام کی پراسرار خرابی نہ ہوتی تو خان صاحب ابھی تک جدو جہد کے خارزاروں میں خود اعتمادی کے ہاتھوں کہیں نڈھال پڑے ہوتے ۔ صرف یہی نہیں، اقتدار پر لا بٹھانے کے بعد بھی اگر مضبوط سہارا میسر نہ ہوتا تو کب کے گھر جاچکے ہوتے۔


عمران خان کا کہنا ہے کہ اُ ن کی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانا ہے۔ یہ خسارہ زرِمبادلہ کے حصول اور خرچ کے درمیان فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ بیرونی دنیا میں کام کرنے والے محنت کشوں کی بھیجی گئی رقوم اور برآمدات زرِمبادلہ کے حصول کے بنیادی ذرائع ہیں۔ یہ زرِ مبادلہ درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔


موجودہ حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے ملکی کرنسی کی قدر میں یک لخت بہت زیادہ کمی کردی۔ اس کی وجہ سے برآمدات بہت مہنگی ہوگئیں اور ان کی طلب کم ہوگئی ۔ اس سے معیشت سر کے بل گر گئی۔ 2018 ء میں معاشی شرح نمو 5.5  فیصد تھی لیکن 2020 ء میں یہ کم ہوتے ہوتے 0.4   فیصد تک پہنچ گئی۔ چنانچہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی دراصل ناقص معاشی پالیسی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس پر فخر کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔


انٹرویو لینے والا میزبان خوشگوار حیرت کا اظہار کرتا دکھائی دیا کہ کوویڈ 19کا پاکستان پر اثر اتنا خوفناک نہیں ہوا جتنا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا ۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کرنے سے گریز کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ غریب افرادکی ملازمتیں اور آمدنی کے ذرائع ختم ہوجائیں۔ یہاں انٹرویو لینے والے اور انٹر ویو دینے والے نے اتفاق کیا کہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی کی وجہ سے پاکستان بڑے نقصان سے بچ گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ کم از کم پچیس ملین پاکستانیوں کے بے روزگار ہونے کا خطرہ موجود ہے۔


میزبان نے پوچھا کہ چینی اور گندم کی قیمتیں کیوں اچانک آسمان سے باتیں کرنے لگیں، نیز ان کی حکومت عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے کیا کررہی ہے؟ اس کے جواب میں وزیرِاعظم نے وہی ازبر بیانیہ دہرانا شروع کردیا کہ ریاست کے وسائل اور فیصلہ سازی پر اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ وہ شاید بھول گئے اُن کی پارلیمانی پارٹی اور کابینہ پر بھی وہی اشرافیہ غالب ہے۔ اُن کی اپنی حکومت نے برآمدات اور امدادی قیمت پر غلط فیصلے کرکے اس اشرافیہ کو موجودہ بحران پیدا کرنے کی سہولت فراہم کی ہے۔


  توانائی کے مہنگے نرخوں کے علاوہ اس کی قلت کے بارے میں پوچھنے پر عمران خان نے بتایا کہ وہ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) پر دباؤ ڈالنے اور نرخ کم کرانے کا منصوبہ رکھتے ہیں ۔ لیکن اُنھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ ان کمپنیوں کو واجب الادا اربوں روپے کس طرح اداکریں گے؟ نرخ کم کرانے کے لیے یہ رقم ادا کرنا ضروری ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ گزشتہ دو سال کے دوران زیرِگردشی قرضہ (جس کا نصف توانائی کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے) 1250 ارب روپے سے بڑھ کر 2500 ارب روپے ہوچکا ہے۔ اس دوران تحریک انصاف کی حکومت نے محصولات کی مد میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا ہے۔


وزیرِاعظم عمران خان کے پاس کراچی کے مسائل کا حل مقامی حکومت کو بااختیار بنانا ہے۔ لیکن اس دوران وہ بھول جاتے ہیں کہ پنجاب میں اُن کی اپنی حکومت نے نچلی سطح پر عوام کو نمائندگی دینے کے لیے مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں کرائے ہیں۔ درحقیقت تحریک انصاف کے وزیرِاعلیٰ پنجاب اور حکومت سیاسی بدعنوانی، نالائقی اور سرکاری عدم فعالیت کا شاہکار ہے۔


نیب کی پکڑ دھکڑ البتہ وزیرِاعظم کاحقیقی کارنامہ گنی جاسکتی ہے۔ وزیرِاعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کا اصرار تعجب خیز ہے کہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے۔ اس کی ڈور وزیرِاعظم کے ہاتھ میں نہیں۔ حال ہی میں وزیرِتعلیم شفقت محمود نے نیب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے تحریکِ ا نصاف حکومت کی ساکھ مجروع ہورہی ہے کیونکہ نیب اپوزیشن کے سیاست دانوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا رہا ہے۔


  چین کو پاکستان کا اچھے برے حالات میں آزمودہ دوست قرار دینایااسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے سفارتی تعلقات کے امکان کو رد کرنا موجودہ حکومت کی سفارتی کامیابی کا مظہر نہیں ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی وزیر شیریں مزاری نے اپنے ہی دفترِخارجہ کو کشمیر پر سستی اور غفلت برتنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ صرف یہی نہیں، وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے دیرنیہ دوست سعودی عرب کواس وقت ناراض کرنا ضروری سمجھا جب پاکستان کو دوستوں کی انتہائی ضرورت تھی۔


ان حالات میں تحریکِ انصاف کے وزیر اسد عمر کا دعویٰ کہ ”تحریک انصاف کی طویل اننگز کھیلنے جارہی ہے“ناقابل فہم ہے تاوقتیکہ وہ مہربان فرشتوں کے تعاون سے کریز پر رہنے کی بات کررہے ہوں۔ اس میں حکومت کی کارکردگی یا عوامی مقبولیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.