ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے

ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے

یک رکنی سیاسی جماعت جس کا نام کبھی بھولے سے ہی یاد آتا ہے، کے قائد شیخ رشید معلومات کا ایک دلچسپ ذریعہ ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اس ذریعے کو راولپنڈی کے طاقت ور حلقوں سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرنے میں اُنہیں کوئی ندامت یا جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اُنھوں نے گزشتہ ماہ خبردار کیا کہ نیب عید کے بعد ٹارزن بن جائے گا تو لوگوں نے قدرے تعجب کا اظہار کیا تھا کہ کیا نیب پہلے ہی اپوزیشن کی گردن نہیں دبوچے ہوئے؟ کیا پنڈی نے نیب کو سمجھایا ہے کہ وہ حکمران جماعت اور حکومت پر بھی ہاتھ ڈالے تاکہ اس کی کارکردگی منصفانہ دکھائی دے اور اس کی ساکھ بنے؟ لیکن نیب ایسا کس طرح کرسکتا ہے جب اس کا چیئرمین حکمران پارٹی ہاتھوں مبینہ طور پر بلیک میل ہورہا ہو؟ تاہم گزشتہ ہفتے یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات سے کچھ سوالوں کا جواب مل گیا۔ ان سے نیب، تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے منفی پہلو اجاگر ہوئے ہیں۔


سب سے پہلے تو ’ٹارزن‘ کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی ایک جج حضرات کے ہاتھوں خاصی دھلائی ہوگئی۔ فاضل جج صاحب نے کھلے لفظوں میں نیب کی سرزنش کی کہ وہ انصاف کے تقاضوں کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے اپوزیشن کو نشانہ بنا رہا ہے۔ عدلیہ کی مداخلت کے بعد کم از کم یہ فرق ضرور پڑے گا کہ اب نیب سیاسی مشتبہ افراد کو کسی ٹھوس جواز کے بغیر مہینوں حراست میں رکھ کر ضمانت سے محروم نہیں کرسکے گا۔ نیب کا ڈنگ کسی قدر نکل جائے گا۔لیکن اس سے ایک فرق یہ پڑے گا کہ نیب کی کارروائیوں کو بلاتفریق سمجھا جائے گا۔ گویا اب حکمران جماعت اور حکومت کے مبینہ بدعنوان عناصر بھی نیب کی گرفت میں دکھائی دیں گے۔


اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ نیب نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف ایک غیر معروف ہوٹل کو شراب کا لائسنس دینے کے فیصلے کی تحقیقات کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟ الزام ہے کہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھاری رشوت کے عوض لائسنس جاری کیا گیا۔ پھر ہم نے نیب میں وزیرِاعلیٰ عثمان بزدار کی پیشی کا ڈرامہ بھی دیکھا۔ کہا گیا کہ وہ کسی پروٹوکول کے بغیر نیب ہیڈکوارٹر گئے اور سوالنامہ لے کر واپس آئے۔ لیکن کیا اُنہیں انکوائری اور تحقیقات کے مرحلے پر گرفتار کیا گیا؟ نہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے ترجمان اُن کے پیش ہونے پر داد کے طالب ہیں۔ اسے نیب کی شفافیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔


قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جب عمران خان عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کے اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے تو نیب انکوائری وزیرِاعلیٰ پنجاب کو منصب سے ہٹانے کے ٹھوس جواز کا کام دے گی۔ بہت سے قارئین کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے جب علیم خان کو اسٹبلشمنٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر نامزد کیا تو عمران خان نے فوراً ہی نیب کو استعمال کرتے ہوئے اُن کا راستہ روک لیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ نیب عمران خا ن اور اسٹبلشمنٹ، دونوں کے ہاتھ میں بخوشی استعمال ہورہا ہے۔


اب مریم نواز نے شیش محل میں ایک پتھر پھینک دیا ہے۔ نیب نے مریم نواز کو اُس زمین پر پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھاجو اُنہیں اُن کے دادا نے کئی سال پہلے بطور تحفہ دی تھی اور جس کی بابت اُنہیں قانونی طور پر کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں تھی کہ اُن کے دادا کی آمدنی کا کیا ذریعہ تھا۔ نیب کو توازن کا تاثر دینے کے لیے کسی جواز کی ضرورت تھی۔ اگر نیب نے وہ جواز عثمان بزدار کو طلب کرنے کا سوچا تھا تو مریم نے تو نیب کے باہر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے کھیل بگاڑ دیا۔ اُس نے تحریک انصاف کی حکومت کے جابرانہ ہتھکنڈوں کوبھی الٹ دیا۔ اب مریم تو نہ گھر میں چھپ کربیٹھی اور نہ ہی خاموشی کی چارد تانی۔ نیب نے بلایا تو وہ چل کر آگئی۔ اُن کے حامی بھی اُن کے ساتھ تھے۔ وہ اُنہیں کس طرح آنے سے روکتی؟


نیب دفتر کے باہر پہنچ کر مریم کا اصرار تھا کہ اُسے سنا جائے لیکن نیب کا کہنا تھا کہ وہ واپس چلی جائے اور اگلے نوٹس کا انتظار کرے۔ مریم واپس چلی گئی لیکن اُس کی دلیری نے منظر نامہ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ پتہ چلا کہ کئی ماہ کی خاموشی اور سکوت نے بھی ن لیگ کے حامیوں کو مایوس نہیں کیا اور نہ ہی ناانصافی کے سامنے مریم کی مزاحمت ماند پڑی ہے۔ درحقیقت مریم کی مزاحمت نے ن لیگ کی بے دم ہوتی ہوئی ساکھ میں زندگی کی روح دوڑا دی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے بھی بسترِعلالت پر حوصلہ پکڑا اور اعلان کردیا کہ وہ بھی نیب اسلام آباد میں اپنے سینکڑوں حامیوں کے ہمراہ پیش ہوں گے۔ اب کوئی بزدل ہی پیچھے رہے گا۔ چونکہ نہ تو نیب اور نہ ہی حکومت مریم نواز کی پیشی کے موقع پر ہونے والے ہنگامے کو دارالحکومت میں دہرانے کی متحمل ہوسکتی ہے، اس لیے اسلام آباد میں بہت سے لوگ سرجوڑے بیٹھے ہوں گے کہ اس صورت حال سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔


مختصر یہ کہ ٹارزن مشکل صورت حال میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹارزن کا کمر بند کھل گیا ہے۔ لیکن ایسا ہونا ناگزیر تھا۔ ظلم کی کوئی حد ہوتی ہے۔ قانون کے ساتھ کھلواڑ ایک حدتک ہی کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی بزدلی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ میڈیا سنسر شپ کی بھی ایک حد ہے۔ بعض اوقات انتہائی مایوسی یا جبر مزاحمت کی وہ نئی راہیں کھول دیتا ہے جس کا پہلے سے کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔


اسٹبلشمنٹ کے قائدین ابھی تک ’سب ٹھیک ہے‘ کی دھن میں مست ہیں۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے اور ’گھبرانا نہیں‘ پراعتبار قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب اُن پر کسی کو اعتماد نہیں رہا۔ اُن کے اپنے ماتحت بھی اُن پر یقین نہیں کررہے ہیں۔ وہ اسے تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرتے ہوئے اُنہیں عمران خان اور تحریک انصاف سے جان چھڑانے کے لیے کوئی صورت حال پیدا کرنی پڑے گی۔ ابھی اس کا موقع نہیں آیا، لیکن یہ ناگزیر ہے۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.