حرفِ حق

حرفِ حق

صحافی مطیع اللہ جان کی اچانک ”گمشدگی“ اور پھر ایک دن کے اندر اندر بازیابی اس واقعے کی وجوہات اور نتائج کا بغور جائزہ لینے کی دعوت دیتی ہے۔


مطیع اللہ جان جنہیں بے تکلفی سے مطی بھی کہا جاتا ہے، ارباب اختیار کے سامنے سچ بولنے سے نہیں ہچکچاتے۔ درحقیقت وہ کسی کو نہیں بخشتے ۔  بدعنوان کاروباری افراد، سیاست دان، سرکاری افسر، جج اور جنرل تو ایک طرف، اُن کے ساتھی صحافی بھی اُن کی تنقید سے نہیں بچ پاتے ۔ اس کے نتیجے میں اُنہیں اکثر اپنی دوٹوک رائے کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔


مطیع اللہ جان نے نصف درجن میڈیا پلیٹ فارمز پر بطور رپورٹر، اینکر اور تجزیہ کار کام کیا، لیکن پھر طاقتور حلقوں کے ناپسندیدہ قرار پانے پر ہر جگہ سے فارغ کردیے گئے۔  آخرکار اُنھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آوازمکمل طور پر خاموش ہوجانے سے بچائی۔ تاہم حال ہی میں اُن کے طاقتور ناقدین نے اُنہیں اس پلیٹ فارم سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی۔


مطی کا تازہ ترین ”جرم“ سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کوعدالت سے نکال باہر کرنے کی اسٹبلشمنٹ کی کوشش کو بے نقاب کرنا تھا۔ آئینی جمہوریت کے بے باک محافظ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کئی ایک اہم مقدمات کی سماعت کے دوران غیر آئینی اور ناروا اقدامات پر اسٹبلشمنٹ کی سخت الفاظ میں سرزنش کی تھی۔ جج صاحب کے الفاظ اور سوچ کو طاقتور حلقے نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ وہ آنے والے چند ایک برسوں کے دوران پاکستان کے چیف جسٹس بننے جارہے ہیں۔ اُس وقت وہ سول سوسائٹی کی طرف جھکاؤ رکھنے والے جدید تصورات کے ساتھ سپریم کورٹ کی فعالیت میں زیادہ آزادی اور شفافیت لاسکتے ہیں۔


جسٹس عیسیٰ کواسلام آباد ہائی کورٹ کے جج،جسٹس شوکت صدیقی کی طرح فارغ نہیں کیا جاسکتا ۔ جسٹس صدیقی نے بھی اسٹبلشمنٹ کو دق کرنا شروع کردیا تھا ۔ بعض معاملات کی وجہ سے جسٹس صدیقی کو بار اور بنچ کی حمایت حاصل نہیں رہی تھی، اس لیے اُنہیں گھر بھیج دیا گیا۔ جسٹس عیسیٰ کا معاملہ ایسا نہیں ۔ وہ نہایت ایماندار، ذہین اور آزاد سوچ رکھنے والے جج ہیں، جیسا کہ ایک جج کو ہوناچاہیے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ باراور بنچ کے علاوہ میڈیا اوررائے عامہ کے ایک بڑے حصے میں بے حد مقبول ہیں ۔


بدقسمتی سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کی قیادت میں سپریم کورٹ نے اسٹبلشمنٹ اور اس کی کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کی طرف جھکاؤرکھا اور پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف سیاسی طور پر متعصبانہ فیصلے دیے ۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس عیسیٰ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے نکال باہر کرنے کے لیے مبینہ ”مس کنڈکٹ“ کا الزام لگاکر صدارتی ریفرنس بھجوایاگیا۔ لیکن اس پر عوام کی طرف سے شدید ردعمل آیا۔ اُن کے ساتھی ججوں پر تمام نگاہیں مرکوز ہوگئیں۔


مطیع اللہ جان نے اس ٹرائل کا دوٹوک تجزیہ کیا اور اس کی خامیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے طاقتور حلقوں کے غصے کو دعوت دی۔ ستم ظریفی یہ کہ اغوا کے اگلے روز سپریم کورٹ نے اُنہیں سوشل میڈیا پر کیے گئے کسی تبصرے کی پاداش میں توہین عدالت کیس میں طلب کیا ہوا تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہونے کی سرگرمی کا مقصد اُنہیں ”نرم“ کرنا تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں عاجزی سے معافی مانگ لیں اور جسٹس عیسیٰ کو فارغ کرنے کے منصوبے میں رکاوٹ ڈالنے سے باز رہیں۔ اغوا سے دیگر ناقدین کو بھی طاقتور پیغام دینا مقصود تھا۔یہ کارروائی جان بوجھ دن دیہاڑے، سکول کے پاس جہاں کافی آمدورفت تھی، کیمروں کے سامنے کی گئی ۔ حالانکہ یہی کام کسی سنسان مقام پر خفیہ طریقے سے بھی کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن اغواکار جانتے تھے کہ وہ تحقیقات اور احتساب سے ماورا ہیں۔


لیکن ایسا لگتا ہے کہ اغواکاروں سے اندازے کی غلطی ہوگئی ۔ ایک تو اس واقعے پر فوراً ہی ملک اور بیرونی ملک میں شور مچ گیا اور اس کالازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مطیع اللہ جان کی ابتلا سے توجہ کا رخ عدلیہ کی آزادی اور ریاست کے احتساب کی طرف مڑ گیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اسلام آباد انتظامیہ کو اگلی صبح مطی کو اُن کے سامنے پیش کرنے، یا خود پیش ہوکر اپنے کردار کی وضاحت کرنے کا حکم دیا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی انتظامیہ کی سخت سرزنش کی ۔ اس تمام واقعے کے ہدایت کاروں کے لیے مزید پریشانی کی بات یہ تھی کہ مطیع اللہ جان اگلے روز پورے عزم کے ساتھ سپریم کورٹ گئے۔ اس طرح طے شدہ ڈرامے کا نتیجہ بالکل توقع کے برعکس نکلا۔


سپریم کورٹ نے توہین کے الزام کی سماعت دوہفتوں کے لیے ملتوی کردی کیونکہ مطیع اللہ جان نے عدالت کو بتایا کہ وہ غیر مشروط معافی مانگنے کی بجائے کسی اچھے وکیل کی خدمات حاصل کرکے اس کیس کو لڑنا چاہیں گے۔ یقینا بہت سے چوٹی کے وکلا بلامعاوضہ اُن کا دفاع کرنے کے لیے موجود ہوں گے۔ یہ کیس کسی قابلِ اعتراض ٹویٹ یا ویڈیو کے بارے میں نہیں بلکہ یہ آزادی اظہار اور بنیادی حقوق کا معاملہ ہے جن کا حق آئین دیتا ہے۔ عدلیہ کے طرزِعمل پر رائے دینے کا حق پاکستان اور دیگر ممالک میں بنائے گئے توہین عدالت کے قانون کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ کیس جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس کوبھی کمزور کرسکتا ہے۔


اب سپریم کورٹ مطیع اللہ جان کو سزا سناکر عوامی تنقید کا نشانہ بھی بن سکتی ہے۔ مطیع اللہ جان ہیرو بن جائیں گے۔ عدالت کے پاس دوسرا آپشن یہ ہے کہ اُسے بری کرتے ہوئے بنیادی حقوق اور شہری آزادی کی بالادستی کی ضامن بن جائے۔


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ناقدین کی حرکت کا الٹا نتیجہ نکل آیا ہے، بالکل جس طرح پہلے صدارتی ریفرنس کے ساتھ ہوا تھا۔ اس دوران میڈیا مالکان اور صحافیوں کے لیے بھی سیکھنے کا سبق ہے۔ ضروری ہے کہ وہ مل کرکھڑے ہوں اورارباب اختیار کے سامنے حرف ِحق کہنا جاری رکھیں اور سچ کی آوا ز بنیں۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.