ڈریگن

ڈریگن

چیف جسٹس آف پاکستان، گلزار احمد نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی سخت سرزنش کی ہے۔ وقت کے حوالے سے بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ہے۔ یہ آگ اگلنے والا ڈریگن ہر حکومت کی حزبِ مخالف کو بھسم کرنے کا ماہرہے۔ اگرچہ چیئرمین نیب اور چیف پبلک پراسکیورٹر کی تعیناتی حکومت اور حزب مخالف کی مشاورت سے ہوتی ہے لیکن وہ اتنے آزاد اور غیر جانبدار نہیں ہوتے جتنے ہونے چاہییں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب کوئی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو وہ نیب پر تنقید کرتی ہے؛اس کے قوانین میں تبدیلی چاہتی ہے کیونکہ وہ ان قوانین کا نشانہ بن رہی ہوتی ہے۔ لیکن جب وہی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو نیب قوانین کو اسی طرح رکھنا چاہتی ہے۔ پردے کے پیچھے سے اسٹبلشمنٹ جس نے ایک مارشل لا حکومت کے دوران نیب کو تخلیق کیا تھااور جس نے اسے سیاسی جماعتوں کے اشتعال سے بچایا ہے، اسے خاموشی سے کنٹرول کرتے ہوئے جس سمت چاہے موڑ دیتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان بھونچکا رہ گئے ہیں۔ فاضل عدالت نے دیکھا کہ ملک بھر میں صرف 25 احتساب عدالتیں اور ہیں اوران میں بھی پانچ میں کوئی جج تعینات نہیں۔ نیب کے پاس 1226 ریفرنسز التوا میں ہیں؛ کچھ تو نیب کے قیام کے وقت، 2001 ء سے زیرِالتوا ہیں (ان میں سے ایک کیس کا ملزم فوت بھی ہوچکا ہے)حالانکہ ہر کیس کو تین ماہ میں نمٹاناضروری تھا۔چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ اس شرح سے تو نیب کو کیسز نمٹانے کے لیے مزید ایک صدی درکار ہوگی۔ چنانچہ فاضل چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومت کوتیس دنوں کے اندر 120 مزید احتساب عدالتیں قائم کرنے اور ان میں باصلاحیت جج تعینات کرنے کا حکم دیا ہے؛ ورنہ!



چیف جسٹس آف پاکستان کا خیال ہے کہ احتساب عدالتوں اور ججوں کی تعداد بڑھانے سے انصاف کی فراہمی کا عمل تیز ہوجائے گا لیکن فاضل عدالت نے ایک اہم پہلو پر شاید غور نہیں کیا۔ نیب کسی بھی کیس کو تسلی بخش طریقے سے نمٹانے کے لیے فوری اور ٹھوس استغاثہ پیش کرنے کے قابل نہیں ۔ یہ کوتاہی اس حقیقت کے باوجود ہے کہ نیب قانون بہت طاقتور ہے اور اس میں ملزم کو اپنی بے گناہی کا ثبوت دینا ہوتا ہے (بے گناہی ثابت ہونے تک قصوروار)۔ یہ مروجہ اصول ”جرم ثابت ہوتے تک بے گناہ“ کے برعکس ہے۔



درحقیقت یہ شق نیب کو سستی اور کاہلی کی راہ دکھاتی ہے۔ وہ ملزم کو گرفتار کرکے ضمانت سے محروم کردیتے ہیں۔اس کے بعد تحقیقات کی مشقت اور عرق ریزی سے استغاثہ تیار کرکے کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بجائے ملزم کو حراست میں رکھ کر کسی سمجھوتے پر پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ کاروباری افراد اور سرکاری افسران کے ”پلی بارگین“ کے ذریعے معاملات طے کرنے کی تعداد بہت زیاد ہے جبکہ سیاست دان، جو بدعنوانی کا اعتراف کرنے سے انکار کرتے ہیں، کے خلاف کیسز لامحدود وقت کے لیے التوا میں رہتے ہیں۔ اس کی وجہ نیب کا کیس تیار کرنے سے گریز ہے۔
کسی بھی فعال جمہوریت میں ایسے قانون کو غیر آئینی قرار دے کر ختم کردیا جاتا، لیکن سپریم کورٹ دوجوہات کی بنا پر اس میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتی۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ پارلیمنٹ کا کام ہے۔ اگر پارلیمنٹ ایسا کرنے کے قابل نہیں یا نہیں کرنا چاہتی جبکہ حکمران جماعت کے پاس قانون میں ترمیم کے لیے ووٹ بھی ہیں، تو سپریم کورٹ یہ بھاری پتھر کیوں اٹھائے؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ بدعنوانی اتنا بڑا عوامی مسلہئ بن چکا ہے کہ احتساب کے عمل کو محدود کرنے کی کسی بھی کوشش پر شورو غل اٹھنا لازمی ہے۔



حالیہ برسوں میں نیب نے صوبائی حکومتوں کے انسدادِ بدعنوانی کے محکموں میں مداخلت کرکے گورننس کے لیے نئے مسائل کھڑے کردے ہیں۔ سینئر سرکاری افسران پر بدعنوانی میں معاونت کرتے ہوئے ملکی خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے سینئر سرکاری اہل کار ایک طرح کی خاموش قلم چھو ڑ ہڑتال کرچکے ہیں۔ وہ کسی اہم فیصلے پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں چاہے اس کے لیے کوئی وزیر ہی کیوں نہ حکم دے۔ ہر سینئر سرکاری افسر کو نیب تحقیقات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کہ کہیں اس کی دولت یا آمدنی میں غیر معمولی یا خفیہ اضافہ تو نہیں ہورہا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی گزشتہ حکومت میں کام کرنے والے سینئر افسران جیسا کہ احد چیمہ اور فواد حسن فواد کے ساتھ نیب کی بدسلوکی کی وجہ سے دیگر افسران کا م کرنے کی بجائے اِدھر اُدھر چھپ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے کاروبار مملکت ساکت ہوچکا ہے۔
قانون میں ترمیم کرنے کی غیر مربوط کوششوں کی وجہ سے ابہام دوچند ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے سرکاری افسروں اور کاروباری افراد کو مخصوص حالات میں نیب سے بچانے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا۔ لیکن اس کی مدت ختم ہونے کے بعد اسے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون بنانے کی کوشش نہ کی گئی۔ اب اس میں ایک خلا واقع ہوچکا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اُن مقدمات کا کیا بنے گا جو اُس آرڈیننس کے تحت چلائے جارہے تھے جو اب اپنا وجود ہی نہیں رکھتا۔



یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ موجودہ قانون کی تبدیلی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ نیب خود ہے۔ اس کا موقف ہے کہ حزبِ مخالف، سرکاری افسران اور کاروباری افراد کی تجویز کردہ تبدیلی اسے کمزور کردے گی۔ اسٹبلشمنٹ بھی بیچ میں کہیں موجود ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ سرکاری افسروں اور کاروباری افراد کو بلاوجہ تنگ نہ کیا جائے لیکن حز بِ مخالف اور حکومت میں موجود ناپسندیدہ سیاست دانوں کو جلد از جلد ٹھکانے لگا دیا جائے۔ اس دوران حکومت بھی چاہتی ہے کہ نیب اپوزیشن کا تعاقب تو کرے لیکن اس کی اپنی صفوں میں موجودہ بڑے مگرمچھوں سے اغماض برتے۔



اب اس ڈریگن کو جنگ اور جیو میڈیا گروپ کو بھسم کرنے کی مہم سونپی گئی ہے۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ اس میڈیا گروپ سے خار کھاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ہم جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب جن بوتل سے آ زاد ہوجاتا ہے تو کسی وارننگ کے بغیر پلٹ کر اپنے آقا کوبھی دبوچ لیتا ہے۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.