قوم کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے

قوم کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے

پاکستان کی حکمران جماعت، پاکستان تحریک انصاف ذاتی جھگڑوں اور سیاسی ٹکراؤ سے چھلنی ہوچکی ہے۔ اس کے اتحادی ڈوبتے ہوئے جہاز سے چھلانگیں لگانے کے لیے کمر کس رہے ہیں۔ سر کے بل گر تی ہوئی معیشت کے نتیجے میں غربت اور بے روزگاری کی مہیب لہر نے سراٹھالیا ہے۔کوویڈ 19 سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافے اور اموات کی وجہ سے نظام صحت کی نبضیں ڈوب رہی ہیں ۔


اسلام آباد کی آئینی دراندازی کی وجہ سے وفاقی نظام سسک رہا ہے۔ عدلیہ کے تیور بھی بدل رہے ہیں اور اس نے اپنی فعالیت بڑھا دی ہے۔ حزب مخالف وار کرنے کا موقع تلاش کررہی ہے۔ مشرقی سرحد پر بھارت کسی چھیڑ خانی پر تلا بیٹھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت تحلیل ہورہی ہے کیوں کہ افغان کشمکش کے حل کے آثار ہویدا نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اُن کی قسمت کا ستارہ بھی ڈوب رہاہے۔ ریاست کی ناکامی کی وجہ سے ہماری قومی سلامتی کی ذمہ دارمقتدرہ پر کھل کر تنقید ہورہی ہے کیونکہ اسی نے موجودہ بندوبست کو تخلیق کیا تھا۔


وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی، چوہدری فواد حسین گھر کی بات باہر گلی میں لے آئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ عمران خان ایک لیڈر تو ہیں لیکن اُن کے پاس کوئی ٹیم نہیں ہے۔ اسی لیے گورننس کا معیار صفر ہے۔ تحریک انصاف کے منتخب شدہ ارکان ِقومی اسمبلی میں پرانے نظریاتی کارکنوں اور نئے لوٹوں کے درمیان دراڑ نمودار ہوچکی ہے۔ دونوں غیر منتخب شدہ مشیروں، سرکاری افسروں اور خصوصی معاونین کے جمِ غفیر سے نالاں ہیں کیونکہ اُن کا لیڈر غیر منتخب شدہ دھڑے کی باتیں سنتا اور انہی پر عمل کرتا ہے۔ اہم رہنماؤں کے درمیان ذاتی رقابت بازی اور عزائم کا ٹکراؤ کھل کر سامنے آرہا ہے۔ ان میں سے ہر کوئی خود کو ممکنہ وزیرِاعظم سمجھتا ہے۔ اس کشمکش نے کابینہ کا استحکام اور یک جہتی تباہ کردی ہے۔ چنانچہ وزیرِ اعظم کے پاس نہ کوئی ٹیم ہے اور نہ ہی کارکردگی ۔


تحریک انصاف کے اتحادی تیزی سے پیچھے ہٹتے جارہے ہیں۔ ملک پر حکومت کرنے کے لیے کم از کم  172  اراکین قومی اسمبلی کی حمایت درکارہوتی ہے۔ بی این پی کے جانے کے بعد وزیر ِاعظم عمران خان کے پاس 178   نمائندوں کی حمایت باقی بچی ہے۔ اس دوران پاکستان مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومٹ، بی اے پی، جی ڈی اے اور جے ڈبلیو پی کے تیور بھی بدل رہے ہیں۔ اُنہیں صرف ایک اشارے کی ضرورت ہے۔


پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی معاشی گراوٹ شروع ہوگئی تھی۔ اب معیشت سرکے بل گر رہی ہے۔ آزادی کے بعد سے پہلی مرتبہ رواں برس اور اگلے برس ملک کی معاشی شرح نمو منفی میں رہے گی۔ اس وقت ملک کے پاس نہ رقم ہے، نہ معاشی تصورات اور نہ ہی معیشت کو درست کرنے کے لیے کوئی قابل ٹیم۔


اعلیٰ عدلیہ اُس کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش میں ہے جسے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف کھوسہ کے ہاتھوں شدید زک پہنچی تھی کیونکہ اُنھوں نے پرانے منتخب شدہ سیاسی نظام کو تباہ کرکے موجودہ نامزد کردہ کی راہ ہموار کی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نااہل کرانے کی کوشش کی گئی کیونکہ وہ اسٹبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہوگئے تھے۔یہ کوشش الٹی پڑگئی ہے۔ قومی مالیاتی کمیشن پر نظرِثانی کی دھمکی کو چیلنج کیا جاچکا ہے۔


کوویڈ 19 کے غلط اندازے اور اس سے نمٹنے کے لیے اختیار کیے گئے ابہام کے خوفناک نتائج سامنے ہیں۔ جس دوران باقی دنیا موت کے مہیب سائے سے نکل کر زندگی کی تابانی کی طرف قدم بڑھارہی ہے، ہمارے ہاں متاثرہ افراد کی تعداد میں ہوشربا اضافہ جاری ہے۔ قابلِ اعتماد اندازے بتاتے ہیں کہ آنے والے ہفتوں یا مہینوں میں ان کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے وہ رہنما جویہ کہا کرتے تھے کہ کورونا محض ایک عام سا فلو ہے، اب لوگوں کو مورد الزام ٹھہرا رہتے ہوئے ان کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں۔


سرحدوں کی صورتِ حال نازک ہے۔ طالبان کو ڈونلڈ ٹرمپ کے امن معاہدے اور شراکت اقتدار کے فارمولے پر راضی کرنے میں پاکستان کی ناکامی خطرناک نتائج سے خالی نہیں۔ اسی طرح نریندر مودی بھی اپنے داخلی مسائل (ناکام ہوتی ہوئی معیشت، کوویڈسے بڑھتی ہوئی اموات اور چین کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی ہزیمت)سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول پرمہم جوئی کرسکتا ہے۔ سیاسی طور پر منقسم اور دیوالیہ ملک کے لیے ایسی کوئی بھی مہم جوئی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔


سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سی توانا آوازیں موجودہ ناکام ترین بندوبست کی سرپرستی کرنے والوں پر کھل کر تنقید کررہی ہیں۔ سخت سنسر شپ، زبان بندی اور ناقدین کو غائب کردینے کے باوجود سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ایسی آوازوں سے گونج رہا ہے۔طاقت ور ممالک کے فیصلہ ساز حلقے ان اقدامات کی مذمت کررہے ہیں۔ یہ صورتِ حال تمام پارلیمنٹ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اپوزیشن کو ہراسان اور اس کا تعاقب کیے جانے پر انگلی اصل قصورواروں کی طرف اٹھتی ہے۔ ایک چڑیا نے خبر سنائی ہے کہ ان میں سے ایک کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ”ہم غلط گھوڑے پر شرط لگابیٹھے لیکن اب سمجھ میں نہیں آرہی کہ اس سے چھٹکارا کیسے حاصل کریں۔“


 یہ بات جزوی طور پر ہی درست ہے۔ اس کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ سرپرست ِاعلیٰ ادارے کے مفاد کو ذاتی عزائم سے بلند دیکھ سکے اورپارلیمانی جمہوریت کو اپنا گند خود صاف کرنے کا موقع دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آئینی جمہوریت کے بنیادی اصول کی پاسداری کی جائے کہ ریاست اور حکومت کا ہر ادارہ اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر اپنا کام کرے۔


اس سلسلے میں پہلا قدم ایک سال یا کچھ عرصے کے لیے ”قومی“ یا ”وسط مدتی“ سولین حکومت کا قیام ہے تاکہ اس کا اعتماد بحال ہوسکے اور حالات جس خطرناک شورش اور تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں، انہیں مزید سنگینی اختیار کرنے سے روکا جاسکے۔دوسرا یہ کہ شفاف طریقے سے منتخب شدہ نظام لانے کے لیے ریاست اور معاشرے کے اہم دھڑوں کے درمیان آئینی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ معاشی بحالی کے لیے لازمی شرط سیاسی اتفاق رائے اور استحکام ہے۔ اس کے لیے درکارحالات کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ ریاستی ادارے اور حکومت بالعموم اور سیاسی جماعتوں کے رہنما بالخصوص اپنی غلطیوں یا غلط پالیسیوں اور ناقص ترجیحات سے تلخ سبق سیکھ چکے ہیں یا نہیں۔


ایک ملک حکومت پرعدم اعتماد کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔باقاعدہ وقفوں سے ہونے والے انتخابات اسی کا اظہار کرتے ہیں۔ عدم اعتماد کی صورت میں ملک کے لوگ دوسری حکومت کو موقع دے دیتے ہیں۔ لیکن ریاستی اداروں پر سے اعتمادختم ہوجائے تو پھر ملک کا بچاؤ خطرے میں پڑ جاتا ہے کیونکہ ایک جدید ریاست جس بنیاد پر استوار ہوتی ہے وہ اس کے ادارے ہی ہوتے ہیں ۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.