چینی کی سیاسی معیشت

چینی کی سیاسی معیشت

چینی اور توانائی کی صنعتوں کے بارے میں انکوائری کمیشن رپورٹ ہمیں پاکستان کی ”سلیکٹڈ اور گائیڈڈ جمہوریت“ اور سرمایہ دارانہ نظام کے ناپاک گٹھ جوڑ سے آگاہ کرتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ سے سخت سوالات پوچھنے کا وقت آگیا ہے۔ وہ اشرافیہ جو سیاست دانوں، سرکاری افسروں، جنرلوں اور حتیٰ کہ ججوں پر مشتمل ہے او ر جس نے اپنے ذاتی یا سیاسی مفاد کے لیے معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔


حکمران سیاست دانوں اور اُن کے شراکت دار سرمایہ داروں نے  1990 ء اور2000 ء کی دہائیوں میں نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے اداروں (آئی پی پیز)کی غیر شفاف پالیسیاں بنائیں اوربھاری منافع، کک بیکس اور کمیشن وصول کیا۔ اس سے حکومت کی خرید کردہ بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔ چنانچہ عوام کو جنوبی ایشیا میں سب سے مہنگی بجلی خریدنی پڑی۔ جب اس کی تلافی کرنے کی کوشش کی گئی تو عدلیہ نے مداخلت کرتے ہوئے بعض اوقات آئی پی پیز کو تحفظ دیا اور بعض اوقات اُن کی اس طرح سرزنش کی جس کے الٹے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے، جیسا کہ "کرکے" کیس میں۔ لیکن سرکاری یا نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی مجرم کو سزا نہ ملی جس نے کمیشن کھا کر عوام کو نقصان پہنچایا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ زیرِگردشی قرضہ آسمان کو چھورہا ہے۔


 چینی کی صنعت دراصل حکمران اشرافیہ کی طاقتور ساجھے داری ہے۔ یہ اشرافیہ ریاست کے وسائل کو اپنے نجی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ حاصل کردہ دولت سے مزید سیاسی طاقت حاصل کی جاتی ہے۔ 1950ء کی دہائی سے شروع ہونے والی یہ کہانی 1990 تک جاری رہی۔ اس دوران سول ملٹری حکمران اشرافیہ نے 28   شوگر ملوں کی منظوری دی۔ یہ شوگر ملیں اُس جاگیر دار اشرافیہ نے لگائیں جو ہمیشہ حکمرانوں کے ساتھ بنا کررکھتی ہے۔ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاالحق کی نرسری میں پروان چڑھنے والی سیاسی اشرافیہ نے بھی یہی راہ اپنائی۔ اس کا مقصد مسلم لیگ (کنونشن، قیوم، پاکستان وغیرہ)کو اپنے تابع کرکے اپنے اپنے دور کی اپوزیشن، سیکولر این اے پی اور پھر پی پی پی کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ اس عرصے کے دوران سیف اللہ، اتفاق گروپ، چوہدری اور اسی طرح کے دیگر سیاسی اتحادیوں کو نوازا گیا۔ 1990ء سے لے کر 1998ء تک پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے خود ہی کیک بانٹنے کی راہ اختیار کرلی۔ انھوں نے اکتیس نئی ملوں کی منظوری دی۔ اس کے بعد جنرل مشرف نے جہانگر ترین ”ماڈل“ متعارف کرایا۔ اس میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے خسرو بختیار کو بھی شامل کرلیا گیا۔ یہی وہ کارٹل ہے جس نے حالیہ برسوں میں عمران خان کو سلیکٹ ہونے کے لیے کندھا فراہم کیا۔


 اس ماڈل میں کسان کے لیے گنے کی قیمت کا تعین حکومت کرتی ہے۔ اس کے بعد ملوں کو چینی کی قیمت طے کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ قیمت کا تعین کرنے کے لیے یہ کارٹل پیداوار ی لاگت زیادہ ظاہر کرتا ہے۔ اس کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے برآمدی سبسڈی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ نظام مسخ شدہ اکاؤنٹس اور باقاعد طریق کار سے ہٹ کر نقد لین دین کی وجہ سے اتنا مسخ شدہ ہے کہ اس کاادا کردہ ٹیکس حکومت سے وصول کردہ امدادی قیمت کا قلیل حصہ ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ صنعت کالے دھن کو سفید کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ شوگر مافیا کے نواب بہت آسانی سے سیاسی ڈوریں ہلاتے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ سے بھاری امدادی قیمت لینے کے لیے اے ٹی ایم کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو اس صنعت کی ہر گزضرورت نہیں۔ گنے کی فصل بے تحاشا پانی استعمال کرتی ہے۔ دوسری طرف ملک پہلے ہی آبی قلت کا شکار ہے۔ دستیاب پانی گنے کی فصل کی بجائے کپاس، گندم اور دیگر نقد آور فصلوں کے لیے میسر ہونا چاہیے تاکہ ہم حقیقی معنوں میں ز رِمبادلہ کما سکیں۔ چینی کی عالمی منڈی میں قیمت پاکستان میں بننے والی قیمت سے بہت کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکاری اور قومی دولت کو دونوں طرح سے نقصان پہنچایا جاتا ہے۔


اس شعبے کے سیاسی اور معاشی معاملات کو مزید سمجھنے کے لیے شوگر انکوائر ی رپورٹ کے کچھ اہم نکات پر غور کرنا ضروری ہے۔ رپورٹ کارٹلز کے مشکوک مالیاتی ہتھکنڈوں کی نشاندہی کرنے کے بعد ریگولیٹری اتھارٹیز سے اس کا باریک بینی سے آڈٹ کرانے کی سفارش کرتی ہے۔ لیکن یہی رپورٹ و فاقی حکومت پر ذمہ داری عائد نہیں کرتی کہ اس نے ملک میں چینی کی قلت کے وقت برآمد کرنے کی اجازت کیوں دی؟  پنجاب حکومت کی طرف سے بھاری امدادی قیمت دینے کابھی کوئی ذکرنہیں۔ امدادی قیمت کیوں دی گئی جبکہ ملکی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر نے برآمدکنندگان کی پہلے ہی چاندی کردی تھی۔ ایف بی آر جو بھی کوشش کرلے، یہ طاقت ور کارٹل مہنگے وکلا کی خدمات حاصل کرکے محصولات اور ریگولیٹرز سے صاف بچ نکلے گا۔ اس دوران مستقبل کے کسی سیاسی کھیل کے لیے اسٹبلشمنٹ اپنے ترین، خسرو اور چوہدریوں کے تحفظ کے لیے موجود ہے۔عمران خان اور اُن کی کابینہ بھی حالیہ بحران کو الزام تراشی کی نذر کرکے کندھے جھٹکتے ہوئے اُسی چھتری کے نیچے پناہ لے لیں گے۔


بلاشتہ شوگر کا ”بحران“ اس طرح ختم نہیں ہوگا۔ اگر عمران خان اپنے قول پر قائم رہنے والے شخص ہیں (جو بھی بدقسمتی سے نہیں ہیں) تو وہ عوامی اشتعال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کارٹل کو قابو کرکے معاملات درست کرسکتے ہیں۔ اُنہیں پارلیمنٹ میں فوری طور پر ایک بل لے کر آنا چاہیے، یا صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چینی پر ہمیشہ کے لیے امدادی قیمت دینے کا سلسلہ بند کردینا چاہیے۔ حفاظتی ڈیوٹی عائد کیے بغیر نجی شعبے کو چینی درآمد کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس کے بعد مارکیٹ فیصلہ کرے گی کہ کسان کو ن سی فصل کاشت کریں اور کس تیارشدہ پیداوار کو کاروباری افراد مسابقت کی عالمی مارکیٹ میں فروخت کرسکتے ہیں۔ اس سے ذخیرہ اندوزی، مصنوعی قلت، قیمتیں بڑھانے اور کالے دھن کو سفید کرنے کی راہ بند ہوجائے گی۔ اس کارٹل کے توڑنے کا یہی طریقہ ہے۔ پھر زمین اور پانی کا بہتر استعمال دیکھنے میں آئے گا۔ پاکستان کی سیاسی معیشت کو تباہ کرنے والے چینی کے تاجروں کی اجارہ داری ختم کی جانی چاہیے۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.