ڈارون سے مدد کی درخواست

ڈارون سے مدد کی درخواست

ایک سرکاری جامعہ میں درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے سامنے وزیر اعظم کا بیان یقینا غیر معمولی تھا۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کروڑوں افراد، خاص طور پر دیہاڑی دارمزدوروں کی حالت زار پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ”اشرافیہ نے ملک کو لاک ڈاؤن کردیا“۔ تاہم حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔


گیلپ پولز ثابت کرتے ہیں کہ کاروباری اشرافیہ کی ایک غالب اکثریت لاک ڈاؤن کے خلاف تھی۔اُن میں سے 85   فیصد سے زائد جزوی لاک ڈاؤن کے دوران اپنے ملازمین کو بدستور تنخواہیں ادا کررہے ہیں۔ درحقیقت وزیر اعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ (جن میں سے تین وزیر اعظم کو جواب دہ ہیں)نے اس ضمن میں تمام فیصلے کیے ہیں۔ کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ قومی کوویڈ پالیسی کا کنٹرول اُن کے پاس نہیں؟کیا لاک ڈاؤن اُن کی مرضی سے نہیں ہوا تھا؟ کیا وہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اُن پر کسی ”اشرافیہ“ نے نیشنل کمانڈ اینڈ اپریشنز سنٹر کے قیام اور اس کی قیادت ایک تھری سٹار جنرل کو دینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا؟


حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم اور اُ ن کے پچاس وفاقی وزرا، سٹیٹ منسٹرز، مشیران، خصوصی معاونین نے تینوں وزرائے اعلیٰ، اُن کے وزرا، سٹیٹ منسٹرز، مشیران اور خصوصی معاونین کی فوج ظفر موج کی مدد، حمایت اور تعاون سے ہی قوم کو کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں غیر معمولی ابہام اور مشکلات کا شکار کیا۔ گزشتہ جنوری میں تافتان کی سرحد پر بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت کی مشاورت سے ہی حماقتیں کیں۔اس بات کی تصدیق وزیر ِاعظم کے مشیربرائے صحت کے ایک تصدیق شدہ خط سے ہوتی ہے۔ صوبائی حکام کو خط لکھ کر گائیڈ لائن دی گئی تھی۔ اس کے بعد پنجاب حکومت نے رائے ونڈ میں تبلیغی اجتماع کی اجازت دی۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت عارف علوی نے ملک کی لاکھوں مساجد کے لیے بیس نکاتی ناقابل ِعمل ایس اوپیز وضع کیے۔ یہ سب کچھ اس عالمی وبا کی روک تھام کے لیے اپنائے گئے بہترین طریق کار کے بالکل برعکس تھا۔


وزیر اعظم کا ذہن شروع سے ہی اس ابہام سے باہر نہیں نکل سکا کہ لاک ڈاؤن کرنا ہے یا نہیں کرنا۔ یہاں ان کا طرز عمل صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم بورس جانسن سے مختلف نہیں۔کوئی رہنما بھی ملک کو لاک ڈاؤن نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس کی وجہ غریب افراد کی فکر نہیں تھی۔ اس کی بجائے وہ اپنی کاروباری اشرافیہ اور اُن کے منافع کے بارے میں فکر مند تھے۔ نیز وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ غریبوں کی نگہداشت کے لیے اُن کے بجٹ اور مالیاتی وسائل پر کتنا دباؤ پڑے گا۔


عمران خان فکری جمود سے نہ نکل سکے۔ اسٹبلشمنٹ کو قدم آگے بڑھا کر کنٹرول سنبھالنا پڑا۔ اس نے لاک ڈاؤن کی پالیسی کا اعلان کیا؛ نیشنل کمانڈ اینڈ اپریشنز سنٹر قائم کیا اور وزیر ِاعظم کو ضرورت مند افراد کے لیے کوویڈ امدادی پیکیج کی منظوری دینے کا کہا۔ ابھی تک وزیر ِاعظم مکمل طور پر حالات کے مطابق چلنے سے انکار ی ہیں۔ غریب افراد کے لیے امدادی پیکیج کوبے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام کے ساتھ ملا دیا۔ یوٹیلٹی سٹورز کو برائے نام وسائل فراہم کردیے۔


فی الحال اس مقصد کے لیے مختص کردہ 200  بلین روپوں میں صرف نصف جاری کیے گئے ہیں۔دوسری طرف اشرافیہ کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔ تعمیراتی صنعت کو غیر معمولی اور قابل اعتراض مراعات اورنرم شرائط پر قرضے دینے کا اعلان کیا۔ دیگر کے لیے قرضوں کی وصولی کو التوامیں ڈالا گیا۔ ان اقدامات کا مجموعی طور پر نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو ملک میں مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہے اور نہ ہی ضرورت مند افراد کے لیے کوئی معقول ریلیف ہے۔


قوت فیصلہ رکھنے والا کوئی حاضر دماغ رہنما فروری میں ہی قومی ایمرجنسی کا نفاذ کرکے لاک ڈاؤن کردیتا۔ غریب افراد کے لیے فوری طور پر امدادی پیکیج جاری کیا جاتا۔ مارچ کے اختتام تک وبا کی لہر کم ہونے لگتی۔ یا پھر ٹرمپ اور بورس جانسن کی طرح شروع میں غلطی کرنے کے بعد مارچ میں تیزی سے یو ٹرن لیتا۔ اس سے بیماری کا پھیلاؤ سست ہوجاتا۔ حکومت کو اپریل کے اختتام تک چین، جنوبی کوریا، ہانگ کانگ اور ناروے کی طرح حالات کو معمول پر لانے کا موقع مل جاتا۔


لیکن اس کی بجائے رہنماؤں کی غلط بیانی اور ابہام پاکستان کو بدترین صورت ِحال کی طرف لے جارہا ہے۔ تاخیر سے کیے گئے غیرموثر اور جزوی لاک ڈاؤن اب مئی میں مزیدنرم کیے جارہے ہیں۔ اور یہ وہ وقت ہے جب وبا کے بے قابو ہونے کا خطرہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔


اسلام آباد اور صوبے اعدادوشمار کے بارے میں انتہائی غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ وائرس سے متاثرہ افراد کی بہت کم تعداد کاٹیسٹ کیا جارہا۔ اس کی ایک وجہ تو متاثر ہ افراد کا مذہبی اور سماجی وجوہ کی بنا پر رپورٹ نہ کرنا ہے۔ دوسری وجہ ہرمشتبہ کیس کو ٹیسٹ کرنے کے لیے معقول تعداد میں ٹیسٹنگ کٹس کی کمی ہے۔ کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے تمام افراد کی نہ جانچ کی جارہی ہے اور نہ ہی ان کا ریکارڈرکھا جارہا ہے۔بدقسمتی سے مقامی اور بین الاقومی ماہرین غلط اور من گھڑت اعدادوشماراستعمال کرتے ہوئے پاکستان کی اس وبا سے بحالی کا تاثر لے رہیں۔ حالانکہ صورت حال اس کے برعکس ہے۔


وزیر اعظم عمران خان ہرکسی کو یقین دلارہے ہیں کہ نوجوان آبادی پاکستان کا تحفظ کرے گی۔ اس دوران موسم گرما اور آخر میں نئی ویکسین کوویڈ 19 کو ختم کردے گی۔


قوم کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے عمران خان نے مولانا طارق جمیل کو یہ وضاحت کرنے کے لیے مدعو کیا کہ شیطانی میڈیا خوف وہراس پھیلانے کا ذمہ دار ہے، نیز اپنے سماجی حقوق کا مطالبہ کرنے والی گناہ عورتوں نے اللہ کے عذاب کو دعوت دی ہے۔ تو ا ب ہماری مددکون کرے گا، ڈارون؟

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.